Sunday 28 April 2019

شوکا لاپرواہ

نصیب آزما چکا ہوں، قسمت آزما رہا ہوں
کسی بے وفا کی خاطر رکشہ چلا رہا ہوں....
نظر رکشے پہ لکھے شعر پہ پڑی....ڈرائیور کم عمر سا لڑکا تھا بمشکل انیس بیس برس...
خدا معلوم اس عمر میں کون سے نصیب آزمانے کے بعد قسمت کے پیچھے بھاگ رہا تھا....اور کس بے وفا نے ماں کے لعل کو رکشہ چلانے پہ مجبور کیا تھا....🤔
مغرب میں جس عمر میں نوجوان عملی زندگی میں قدم رکھ چکے ہوتے ہیں...کچھ نہ کچھ کیریر گولز کی طرف ہوتے ہیں ہمارے ہاں ابھی تک ماں کا چاند یا تو دو کتابیں تھامے برائے نام ڈگری کرتا ہوا ابا جی کے پیسے پہ عیش کررہا ہوتا ہے....
یا ساتویں آٹھویں میں فیل ہونے کے بعد کسی بے وفا کی خاطر رکشہ چلا رہا ہوتا ہے.....🤦‍
(اب براہِ مہربانی یہ لیکچر نہ دیا جائے کہ کوئی کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا...ہم رکشہ چلانے کے بالکل بھی خلاف نہیں اگر یہ واقعی ماں باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیے چلایا جارہا ہے)
لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ کم عمر بچے ناکام عاشق بنے پڑھائی میں عدم توجہ....بےکاری کے دن رات لیے....ٹک ٹاک کی ویڈیوز کے "ویوز" پہ فخر سے سینہ چوڑا کرنے والی مخلوق اور میسجز اور اب سوشل میڈیا پہ میسر سستی شاعری کے سٹیٹس لگائے اپنے تئیں دیوداس بنے ہوتے ہیں...(دیوداس ہمارا پسندیدہ کردار ہرگز نہیں ہے....)🙅
اس پہ بالی وڈ کی فلموں نے عشق میں مرجانے کے سوا کچھ نیا دیا ہی نہیں اس مخلوق کو.....
سو ان کی زندگی کے مقاصد انہی مسائل میں اُلجھے رہنا اور عمر گزار دینا ہے.....
پھر المیہ یہ ہے کہ ہمارے "بڑے" بھی نام نہاد تصوف کی پُڑیا میں  لپیٹ کے ہیر رانجھا کے قصے سنتے ہیں....ڈراموں فلموں میں ہیرو کے حمایتی بن کر انہماک سے دیکھتے ہیں پر ان بچوں کے مسائل کو سمجھنا اور سلجھانا انہیں غیر ضروری لگتا ہے....🤐
انہی خیالوں میں اُلجھے ہوئے بائیک کی تیز آواز سنائی دیتی ہے....ایک لڑکا گریبان کھولے... بغیر سائلنسر کی بائیک پہ ون وہیلنگ کرتا ہوا زووووں کر کے گزرتا ہے....بائیک کے پیچھے لکھا ہے...
*شوکا لاپرواہ*🤦‍
کس قسم کا سٹف دے رہے ہیں آپ آنے والے دور کو.....
کیا کریں گے یہ بچے اس معاشرے کے لیے جب وہ اپنے لیے ہی کارآمد نہ ہوں....
خدارا انہیں سمجھیں...ان سے بات کر کے ان کے مسائل سلجھائیں....ورنہ ہمارے شوکے لاپرواہی میں نسلوں کی نسلیں خراب کرتے رہیں گے....
اللّٰہ رحم کرے...

سیماب عارف
 ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Thursday 25 April 2019

اسلام کا مزاج

کچھ عرصہ پہلے ایک تقریب کے دوران ایک خاتون کھانے کے وقفے میں زبردستی سٹیج پہ چڑھ آئیں اور اصرار کرنے لگیں کہ انہوں نے سورہ رحمٰن تھیراپی لوگوں کو بتانی ہے انہیں وقت دیا جائے....
شائستگی سے انکار کیا گیا کہ وقت ناکافی ہے تو چیخنے چلانے اور لعن طعن پہ اُتر آئیں کہ باقی کام چھوڑو یہ اللّٰہ کا کلام پڑھواو یہ زیادہ ضروری ہے...
یہی کام آنا ہے دنیا داری کا کوئی فائدہ نہیں...
بہتیرا سمجھایا کہ ہم بھی اللّٰہ کی مخلوق کی بھلائی کے لیے ہی یہاں موجود ہیں...مگر ان کی ایک ہی ہٹ...
کہ نہیں اُن کی بات زیادہ ضروری ہے اور ہم کون ہوتے ہیں انہیں کلام پڑھنے سے روکنے والے.......خدا ہمیں پوچھے گا...
ہم تو ان کی بات سن کر ہکا بکا رہ گئے......🤐
خیر بڑی مشکل جان چھڑوائی....
اس ذہنیت کے لوگوں پہ مجھے غصے سے زیادہ ترس آتا ہے....جو عمر بھر اپنے تئیں بہترین مبلغ بنے درحقیقت لوگوں کے لیے کوفت اور بیزاری کا باعث بن رہے ہوتے ہیں.....😬
اور جنہیں شاعر کی زبان میں راستے میں خبر ہوتی ہے کہ یہ راستہ کوئی اور ہے بلکہ بعض اوقات تو راستے میں بھی نہیں ہوتی!!
ڈاکٹر محمود احمد غازی کی ایک بات یاد آگئی ہے کہ 
"اسلام کا مزاج داعیانہ ہے، فاتحانہ نہیں"
اور ایک داعی اپنے ساتھیوں اور لوگوں کا خیرخواہ ہوتا ہے...ان کے مزاج کو سمجھ کر اس پہ چلنے والا....اُن میں سے ہوتا ہے.....الگ نہیں ہوتا....
اگر آپ کے اردگرد رہنے والے آپ کو اپنا دوست اپنا ہمدرد اور خیرخواہ ہی نہ سمجھیں تو وہ آپ کی زبردستی کی راگنی تو نہیں سنیں گے نا......
خدارا دینِ اسلام پہ رحم کریں......

سیماب عارف
ایڈیٹر ای- میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Sunday 21 April 2019

Say to Stay Connected


We think about the problems, keep grudges and pretend to be OK once meet the people whom we're having problems with.
This turns out creating creep, a lot of creep inside us...moving us towards nothing than tensions.
So, quick question.....
What to do???

Ummmm..... Talk... Yay... Let's talk
Speak out your heart
Say out loud (actually not loud) but Say it.
Half of the problems gone once we talk about it, once we discuss it. May be the other person has a different perspective on the situation or maybe it's just a kick off time...
So start talking, putting up the problems on a table of discussion and let the purity of the emotions remain beautiful...

Saima Ijaz
 The author is a blogger & the Deputy Coordinator  Positive Pakistan, Lahore Chapter


ایک ملاقات

آج رات میری ملاقات ایک ایسی شخصیت سے ہوئی ہے جو تنِ تنہا اپنی قوم کے لیے بقا کا سبب بنے....ان کا بتایا ہوا ہر رستہ منزلوں کا تسلسل تھا.... تاریخ کے پچھلے پانچ سو سالوں میں ان کی قوم میں ان جیسا سوچنے والا پیدا نہیں ہوا..... ان کا خاموش رہنا گردُوں میں اضطراب کا سبب بنا اور ان کا بولنا زمیں پر ایک قوم اور ایک وطن کے تشکیل کا باعث بنا...
جی ہاں... میری ملاقات علامہ محمد اقبال سے ہوئی ہے..
اقبال... ہمیشہ کی طرح اس ملاقات میں بھی خاموش... سنجیدہ.... اور ایک گہری سوچ میں گم نظر آئے.... میں نے عقیدت سے سلام کیا اور حال احوال دریافت کیا... انہوں نے مثبت انداز میں جواب دیا... میں نے بتایا کہ میں پاکستان میں رہتا ہوں... اس ملک میں جس کی خواہش آپ نے ظاہر کی تھی.... یہ سنتے ہی اقبال نے سنجیدگی سے اپنا چہرہ اٹھا کر میری طرف دیکھا...اقبال کی آنکھوں میں نمی تھی اور لبوں پر معمولی مگر پراُمید سا تبسم...
اقبال بظاہر تو خاموش تھے مگر ایک لمحے کو مجھے یوں محسوس ہوا کہ اقبال کے اندر گونجنے والی ہر چیخ مجھے سنائی دے رہی ہے... اقبال کے تبسم کا تاثر مجھ پر یوں پڑنے لگا جیسے مدتوں سے ہجر سہتے ہوئے شخص کو وصل کی اُمّید کا خیال آنے لگے... جیسے مِیلوں دور سے یوسف کی خوشبو یعقوب کو آنے لگے... جیسے سالوں کی بنجر زمین سبزہ اُگانے کی خواہش ظاہر کرنے لگے.... اقبال خوش تھے.... اقبال خدا کے حضور شکرگزار تھے...... اقبال پرامید تھے..... اور اقبال شدید مضطرب بھی تھے...
طویل خاموشی کے بعد اقبال نے ایک گہری آہ بھری اور کہنے لگے : " برخوردار! خود پر رسولِ خدا کے فیض کی کیفیت حاوی رکھنا۔"
یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئے.... مگر میرے دل میں ایک شور سا اُٹھنے لگا.... میرے اوسان خطا ہونے لگے اور کندھوں پر اپنی پوری تہذیب کا بوجھ محسوس ہونے لگا... میرا یہ احساس شدید ہونے لگا کہ جس گھر کی التجا اقبال نے کی تھی... اب تک صرف اس کی پہلی اینٹ رکھی گئی ہے... اقبال یہ تو جانتے تھے کہ یہ گھر سالوں نہیں صدیوں میں تعمیر ہوگا مگر وہ اس بات پر نہایت بے چین تھے کہ اس گھر کی تعمیر روک کیوں دی گئی ہے؟؟
میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ انہوں نے تعجب بھرے لہجے میں فرمایا: "کیا تم زندہ رہنے کی خواہش رکھتے ہو؟"
ان کا یہ کہنا تھا کہ میں شدید چونکا... اور میری آنکھ کھل گئی۔

زین نوید
ہیڈ ریڈرز کلب پازیٹو پاکستان

Thursday 18 April 2019

پازیٹو پاکستان جھنگ چیپٹر

جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
پازیٹو پاکستان جو ایک رضاکارانہ اصلاحی تنظیم ہے جو معاشر ے میں مثبت فکرو عمل کے فروغ،شعور کی بیداری، اعلیٰ اقدار کے احیاء اور نظریہ پاکستان کے پر چار کے لیے کوشاں ہے۔ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو غیر سیاسی، غیر مذہبی اور غیر منافع بخش ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کہ ایک قدیمی ضلع میں اپنی ٹیم بنانے کے لیے رجسٹریشن کا آغاز کیا ۔اور یہ ضلع کوئی اور نہیں بلکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سلطان باہوؒ کے ہُو کی گونج بلند ہوئی، جنہوں نے آج سے سینکڑوں سال پہلے 140تصانیف مرتب کیں۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں ہیر رانجھا اور مرزا صاحبہ کی رُومانوی داستانیں رقم ہوئی۔ جہاں ٹاٹ کے سکولوں میں پڑھنے والے ڈاکٹر عبدالسلام بابائے فزکس کہلائے، جنہیں دنیا کی معروف 32 یونیورسٹیوں نے ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری دی۔ 8809مربع کلومیٹر کے رقبہ کے حامل ضلع جھنگ کی مٹی کے ذرے نایاب گوہر ہیں۔ میدانِ ثقافت ہو یا سیاست، علم و ادب ہو یا سائنس و ٹیکنالوجی اور جہاں کی شاعری لوک ادب، زبان و ثقافت، مٹھاس میں اپنی مثال آپ ہے۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے
ضلع جھنگ کے باسیوں پازٹیو پاکستان کی ٹیم کاحصہ بنیے، اپنے خطے اور قوم و ملک میں مثبت سوچ کو فروغ دینے کے لیے۔ اور جھنگ کو مثبت تبدیلی کی راہ پہ گامزن کرنے کے لیے ہمارا ساتھ دیں۔

کشور پروین

سوال کی گستاخی

آذر اور اس کے ساتھی جب میلے سے لوٹے اور تمام بتوں کو ٹوٹا ہوا دیکھا اور کلہاڑا سب سے بڑے بت کے کاندھے پہ...تو کہنے لگے یقیناً یہ ابراہیم کا کام ہے...
ابراہیم علیہ السلام نے کہا کلہاڑا تو بڑے بت کے کاندھے پہ ہے تم لوگ اسی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے.....
مگر یہ سچ انہیں ہضم نہ ہوا اور وہ لوگ سوال کی گستاخی برداشت نہ کرسکے....
سوال کی گستاخی ....ہر اُس شخص کے لیے ناقابلِ معافی ہوتی ہے جو کسی جھوٹے زعم میں بڑا بنا ہوتا ہے...
ہر بڑا "بڑا" نہیں ہوتا.....اور نہ ہر چھوٹا "چھوٹا"....
ہاں ٹھیک ہے اُتنی تمہاری عمر نہیں جتنا میرا تجربہ والی بات بھی ٹھیک ہے.......لیکن!!
کبھی کبھار کم عمری کی ذہانت بھی تجربے کو مات دے سکتی ہے....ایسا نہ ہوتا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کم عمر نوجوان سے ابو جہل جیسے " بڑے" خائف نہ ہوتے....
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ سچ جاننے کے باوجود بھی وہ اس لیے نہیں مانتے تھے کہ انہیں لگتا تھا یہ ہمارا بھتیجا...کم عمر نوجوان....ہماری بات کو غلط کیسے کہہ سکتا ہے....اپنی ہتک سمجھتے تھے...تبھی تو معجزات دیکھ کر بھی ہٹ دھرم رہے....
آج کے دور میں "جنریشن گیپ" کی ایک بڑی وجہ سوال سے گھبرانا ہے....
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سوال کو دبا کر آپ اپنی عزت نہیں بچارہے بلکہ آنے والے دور کے ایک نئے انسان کو خود سے اور دور کررہے ہیں.....
اگر آپ کے پاس جواب نہیں ہے تو اعتراف کر کے بڑے بن جائیں...ورنہ آپ کا قد آپ کی نسلوں میں چھوٹا پڑتا جائے گا!!...

سیماب عارف
ایڈیٹر میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...