Wednesday 30 January 2019

Story of Positive Pakistan Foundation



The story of Positive Pakistan Foundation starts from a man, who started to highlight the significance of positive thinking in order to enhance the productivity and performance of the society mainly youth, professionals and various organizations. For achieving this objective, he started to conduct a series of various seminars, training workshops. He was so much passionate & determined with his noble cause that he found pathways in his journey. Different professional and educational institutions started inviting him for lectures due to his impressive speaking skills. His first seminar was conducted on December 2005 in an educational institution of Faisalabad. The second one was organized in National Institute of Electronics (NIE) Islamabad. The third one was hosted by Pakistan Council of Renewable Energy Technology (PCRET) Islamabad. Besides these series of intellectual seminars, he was also invited by Pakistan Television (PTV) from time to time. Later, he was also engaged by Higher Education Commission (HEC) and Islamabad Traffic Police (ITP) in different training projects.
Then a time came when this man, Mr. Abid Iqbal Khari started to think about preparing people like him to spread the message of Positive Thinking to maximum people and various organizations of Pakistan. So, an organization called Positive Pakistan was officially formed. After some time, this organization was registered as a non-profit organization. With the passage of time, many young students & professionals started working voluntarily with this organization which turned into a strong network of dedicated fellows who serve as speakers, counselors, mentors, researchers, content writers, social media activists and event organizers. Now, many individuals have affiliated with this organization, who are mentoring & counseling voluntarily to enhance the individual’s and organizational performance in numerous fields of life throughout the country. This organization has also established its different chapters in different cities of Pakistan. The dedicated teams working in these chapters are conducting various programs on different topics to motivate & inspire the youth & young professionals of Pakistan. Thousands of people have been inspired by the message of Positive Pakistan and developed positive thinking in their lifestyle & mental approach. These motivated individuals are determined to contribute in spreading the message of Positive Pakistan throughout the country to make this homeland an abode of happiness.
Naureen Fatima
 The author is the Deputy Content Coordinator of the E-Magazine Positive Pakistan


خاموشی کی آواز

یہ خامشی وہ بلا ہے کہ چیخ اٹھے اگر
 تو سننے والوں کے کانوں سے خون بہتا ہے 
(جہانزیب ساحر)
آدمی صدیوں سے بولتا آیا ہے اور آواز سے شناسا رہا ہے...مگر خاموشی وہ آواز ہے جسے سننے کا ہنر بہت کم لوگوں کو آتا ہے....اور درحقیقت یہی ہنر سماعت کی اصل ہے...
 خاموشی عادت نہیں ہوتی خاموشی تو کسی وجہ سے ہوتی ہے ایسی وجہ جو نہ تو انسان کہہ ہی سکتا ہے اور نہ  اسے سہہ سکتا ہے۔ خاموشی وہ تاوان  ہے جسکی ادائیگی تاحیات کرنا پڑتی ہے، انسان چاہتا ہے کہ وہ بولے لیکن کس سے؟ کس سے کہے وہ سب جسے سن کے کوئی اسے پرکھے نہ بس اسے سن لے..... منصف بن کر صحیح اور غلط کے ترازو میں تولے نہ بلکہ صرف سنتا ہی جائے۔ انسان اسی تلاش میں بھٹکتا ہے...اور پھر تھک کر اپنا مخاطب خود کو بنالیتا ہے... خود سے کہتا ہے، خود کو سنتا ہے... خاموشی آواز کرتی ہے وہ آواز جسکے شاہد لوگ بنتے ہیں اور وہ آپکو آدم بیزار کہنے لگتے ہیں لیکن وہ اس تلخ حقیقت سے واقف نہیں ہوتے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے کہتے تھک گئے....مگر کوئی سامع نہ ملا.... اور جو ملا بھی تو محض اس لیے کہ فیصلہ کر سکے...تبصرہ کرسکے....منصف بن سکے....نہ کہ بوجھ ہلکا کرے!

اگر ہم پرکھے بغیر صرف سننے کی عادت ڈال لیں تو نجانے کتنے ہی لوگ خاموشی اختیار کرنے کی بجائے کہہ دینے کی عادت ڈال لیں اور سماج میں خاموشی کی آواز نہیں بلکے لوگوں کی ہسنے بولنے کی آوازیں سنائی دیں۔

صائمہ اعجاز
مشن ہولڈر پازیٹو پاکستان 

Tuesday 29 January 2019

تعلق کی ڈور

جب کبھی میں کسی کے منہ سے یہ جملہ سنوں کہ...
مجھے اپنے ماموں کے گھر گئے پانچ سال ہوگئے ہیں...
یا
چچا لوگوں کا گھر ہماری گلی میں ہی ہے مگر سات سال پہلے میں ان کے گھر گئی تھی..وغیرہ.. وغیرہ...
تو مجھے بہت حیرانی اور اس سے زیادہ افسوس ہوتا ہے....
اگرچہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری زندگیوں میں غیر ضروری ٹانگ اٹکانے والے اور تنقیدی ایکسرا کرتی نظروں سے دیکھنے والے زیادہ تر ہمارے رشتہ دار ہی ہوتے ہیں مگر پھر بھی....پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں...
لوگوں سے گُھلنا ملنا....رشتے اور تعلق نبھانا حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت ہے!! 
پھر ایک چیز اور کہ تعلقات کسی شرط پہ نہ نبھائیں.....کیا ہوا جو وہ نہیں آیا...ہم چلے جاتے ہیں...
اور کیا ہوا جو انہوں نے فون نہیں کیا....ہم کر لیتے ہیں!! 🙂
اپنی جَڑوں سے جُڑے رہنے میں ہی ہماری بقا ہے اور خوبصورتی بھی💖
چند ایک ٹِپس....🙂🙃 
💌 ہر عید تہوار پہ معمول بنالیں سب رشتہ داروں کو فون کرنے کا
💌 مہینے میں ایک بار اپنے سارے دوست احباب سے حال احوال دریافت کرلیا کریں تاکہ ربط بنا رہے!
💌 موسم گرما اور سردیوں کی چھٹیوں کو گھر پہ ضائع نہ کریں...مہمان بلا لیں یا مہمان بن جائیں 🙃
💌 جن لوگوں سے عرصہ دراز سے کبھی نہیں ملے...ان سے کچھ وقت فرصت کا نکال کر مل لیں....غمی کے موقعے کا انتظار نہ کریں! ☹
💌 صلح میں پہل کرنا ہی اصل ظرف ہے...
مفہومِ حدیث ہے  کہ جو حق پہ ہوتے ہوئے جھگڑا چھوڑ دے میں اس کے لیے جنت میں ایک گھر کا ضامن ہوں💖
رشتوں کی ڈور کو چھوٹنے نہ دیجیے......اور کسی کے لیے نہ سہی خدا کی رضا کے لیے!!

سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Thursday 24 January 2019

درد کا امرت

کچھ دن پہلے ایک انگریزی کتاب کا سرِ ورق نظر سے گزرا..
"The nectar of pain"
درد کا امرت
نیکٹر..اردو میں "امرت".. اصل جوہر کو کہتے ہیں
اور عربی میں اس کے لیے "رحیق" کا لفظ استعمال ہوتا ہے....جنت کی خالص شراب.....اصل رس....
دراصل درد بھی ایک نعمت ہے.....اگر اس سے امرت کشید کرنا آتا ہو..
اس کا اپنا ایک ذائقہ ہے..
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی
خدا نے خود تک آنے کے بہت سے راستے بنائے ہوئے ہیں...ان میں سب سے زیادہ محبوب رستہ اُس کے لیے درد کا راستہ ہے....تبھی تو اُس نے ہمیشہ اپنے پیارے اپنے محبوب...اپنے عزیز لوگوں کو سب سے زیادہ آزمایا....حالانکہ انسانی فطرت اس سے بالکل اُلٹ ہے....ہم جن سے پیار کرتے ہیں...انہیں کسی بھی قیمت پہ دُکھ میں مبتلا نہیں کرتے...
مگر اُس کے اپنے طریقے ہیں...وہ جنہیں سب سے زیادہ چاہتا ہے اُنہیں سب سے زیادہ آزمائش میں مبتلا کرتا ہے...
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا... 
اُس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
دنیا کے بڑے بڑے شاہکار ہمیشہ درد کی کوکھ سے جنم لیے ہیں...♥
ممتاز مفتی نے ایک جگہ لکھا تھا....بانسری میں چھید ہوں تو سُر پیدا ہوتا ہے...
درد کو رائیگاں نہ جانے دیجیے...
اس سے کام لیجیے......!! وہ کام...جو سہولت نہیں کرسکتی!
سیماب عارف 
ایڈیٹر ای- میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان

Sunday 20 January 2019

سرخ بتی میں

سُرخ بتی جلی ہوئی ہے....اور دور حدِ نگاہ تک ٹریفک جام ہے.....آپ کی گاڑی اس رش میں سب سے پیچھے پھنسی ہوئی ہے....اور جلدی تو یار بہت تھی...کہیں پہنچنا تھا....مگر اب...
نہ مسلسل ہارن بجانے سے راستہ بن رہا ہے....نہ کچھ اور سمجھ آرہا ہے....
غصہ...جھنجھلاہٹ....بے بسی....
اسٹیرنگ پہ زور سے مکا مارا....مگر ہاتھ ہی دُکھا....
فرض کیا آگے ٹریفک جام اس وجہ سے ہے کہ کوئی حادثہ ہوگیا ہے...یا چلیں ملکی المیوں کو دیکھتے ہوئے فرض کرتے ہیں کہ کوئی الو کا پٹھا VIP گزر رہا ہے پروٹوکول کی گاڑیوں کے ساتھ...اس لیے آدھے گھنٹے سے پہلے ٹریفک نہیں چلے گی....
پھر اب....؟؟؟
یہ آدھا گھنٹہ کیا کریں....جھنجھلاہٹ اور غصے میں گزار دیں.؟..چیختے چِلّاتے رہیں؟
اس سے کیا ہوگا....؟
کچھ نہیں....
اب ذرا ٹھنڈا سانس لیجیے...خود کو relax کرنے کی کوشش کریں....درود پاک پڑھ لیں....یا دھیان بٹانے کی کوشش کریں....
ممکن ہے یہی آدھا گھنٹہ وقت آپ کے پاس بچا ہو....یہی آپ کی زندگی ہو....ابھی جب ٹریفک کُھلے تو آپ خدانخواستہ کسی حادثے کا شکار ہونے والے ہوں....تو کیا زندگی کا آخری وقت سٹیرنگ پہ مکے مارتے گزر جائے گا؟
یا چلیں فرض کریں وہ جس ٹرین کے چھوٹنے کی جلدی تھی آپ کو اس کو کوئی حادثہ درپیش ہو اور آپ کو بچانے کے لیے ٹریفک میں پھنسا دیا گیا ہو....یا اور بھی بہت سے ممکنات ہیں...!!
زندگی کبھی جب یوں سرخ بتی پہ رُک جائے یا ٹریفک رش میں پھنس جائے....تو بہت زیادہ جھنجھلاہٹ کا شکار نہ ہوں...میں یہ نہیں کہہ رہی کہ کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کے آنکھیں بند کر لیں...مگر اُن ممکنات کو ضرور سوچیں....آپ کا غصہ تھوڑا ٹھنڈا ہو جائے گا....جھنجھلاہٹ قدرے کم ہوگی....جب آپ کا بس ختم ہو جائے تو اُس پہ چھوڑ دیں....جو ہر شے کو بے بس کردینے کی قدرت رکھتا ہے.....جس نے کچھ سوچ کے روکا ہوگا.....
اُس پر یقین تو کیجیے!♥
بہت وقت سے اسٹیرنگ پہ مکا مارتے اور جھنجھلاتے ہوئے مجھے بھی اچانک خیال آیا....ممکن ہے یہ آدھا گھنٹا آخری ہو...
آپ بھی سوچیے گا ضرور!
شام بخیر!
سیماب عارف
 میگزین ایڈیٹر اینڈ رہبر پازیٹو پاکستان

Thursday 17 January 2019

سائیڈ رول

 دیکھی جانے والی فلموں میں ہمیں ہیرو کی مکمل کہانی دکھائی جاتی ہے اور سائیڈ رولز کی زندگی بہت ہی مختصر کر کے دکھائی جاتی ہے اور ہمیں بھی یہی لگتا ہے کہ  تمام تر پریشانیاں، نئے تجربات، نئے مواقع، ناکام ہوجانے کے بعد ایک بہت بڑی کامیابی، ایک اچھی  ہمسفر کا ملنا، اسکی ازدواجی زندگی میں دھوکا ہونا اور تمام تر نشاط افزاء لمحات صرف ہیرو کی ہی زندگی میں آ سکتے ہیں۔ جس طرح ہم اپنے دن کا بیشتر حصہ سیاسی لیڈرز کے متعلق بات کرنے میں گزار دیتے ہیں اور انکی زندگیوں کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ خود کو بے وقعت جاننے لگتے ہیں۔ اور اسکا لاشعوری اثر ہماری حقیقی زندگی پہ کس طرح پڑتا ہے ہم اسکو کبھی ملحوظِ خاطر ہی نہیں لاتے۔
ہمارے دوستوں میں بھی ایک ایسا دوست موجود ہوتا ہے۔ جسے ہم اپنی کہانی کا سائیڈ رول تصور کرتے ہیں۔ اور    جسے ہم سائیڈ رول تصو ر کررہے ہوتے ہیں آگے اسکی بھی ایک مکمل  کہانی ہوتی ہے۔ اور اُسکی کہانی میں بھی ایک سائیڈ رول موجود ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ بتدریج یونہی جاری و ساری رہتا ہے۔
چونکہ اپنی کہانی میں ہیرو ہم خود ہوتے ہیں اس لئے ہمیں کوئی دوسرا ہیرو مل ہی نہیں پاتا ہے۔ اور اسی وجہ سے سب سائیڈ رول میں ہی چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب  اس کا اثر کیا ہوتا ہے کہ ہم خود کو خود کے تصور کیے ہوئے اونچے مقام پہ رکھ لیتے ہیں اور خود کو باقی سب سے جدا بھی تصور کرنے لگتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں خود کے علاوہ کسی کی بیماری و پریشانی نہ محسوس ہوتی ہے اور نہ نظر آتی ہے۔ آپ اور میں جب سرکاری ہسپتال جاتے ہیں اور اُدھر جا بجا مریض پڑے نظر آتے ہیں تو ہم انکو دیکھ کر ڈر تو ضرور جاتے ہیں۔ مگر کچھ چھُپی ہوئی سی بیزاری بھی محسوس ہوتی ہے۔
ایسا اس لئے ہے کہ ہم خود کو کسی اور دنیا کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے یہ جو بیمار لوگ ہیں انکا کام ہی بیمار ہونا ہے اور یہ اسی وجہ سے یہاں موجود ہیں۔ شاید ہم انہیں ایک  الگ ڈیپارٹمنٹ کے لوگ تصور کر لیتے ہیں جو بیمار ہونے کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔
ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ تب بھی ہوتا ہے جب ہم  کچھ بھیک مانگنے والوں کو سڑک کی سائیڈ پہ بیٹھا دیکھتے ہیں۔ کیا اُنکو دیکھ کر بھی تو ہمیں یہی محسوس نہیں ہوتا کہ یہ لوگ بھیک مانگنے کیلئے ہی بنے ہیں۔
یارو! مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے کوئی بھی ہمیشہ بھیک مانگنے یا بیمار ہونے کے لئے نہیں بنا ہے۔ یقین مان لو اُسکے پاس ایسی کوئی سند نہیں ہے۔ ہم میں سے ہی لوگ اپنی اپنی باری پہ بیمار ہو کر ہسپتال پہنچتے ہیں۔ اور ہم میں سے ہی کچھ لوگ روڈ پر بھیک مانگتے پائے جاتے ہیں۔ اور یقین  ہمیں تب آتا ہے جب ہم خود اپنی ٹوٹی ٹانگ لیکر اسی ہسپتال پہنچ جاتے ہیں جدھر ہمیں خود کے علاوہ سب مریض نظر آتے تھے۔ اور جب ہم ایک تجربے سے گزر جاتے ہیں تو پھر ہم پہ حقیقت عیاں ہوتی ہے ۔ اور پھر وہ حقیقت ہم دوسروں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر افسوس  کوئی آپکو سننا ہی نہیں چاہتا اور جب اس شخص پہ بھی وہ حقیقت کھل جاتی ہے تو وہ بھی آپکی صف میں آجاتا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ تجربے کا ہے کیونکہ آپ اور میں کسی کی ٹھوکر سے تو سیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ مگر جب تک خود اس ٹھوکر سے مستفید نہ ہو جائیں۔
ایک آنکھوں دیکھا  قصہ آ پکو سنانا چاہوں گا۔ میرے بڑے بھائی صاحب جنکا بزنس اسلام آباد کے ایک بڑے ہی خوبصورت علاقے ایف ٹن مرکز میں تھا۔ اسلام آباد جیسا کہ خود بھی خوبصورت اور  اداؤں والا شہر ہے تو وہاں پہ زیادہ ترلوگ بھی کچھ اسی طرز کے آتے ہیں۔ جن کیلئے عام لوگوں سے بات کرنا یا انکو انسان سمجھنا ذرا مشکل سا کام ہوتا ہے۔ میں سب کی نہیں کچھ قیمتی اور مہنگے لوگوں کی بات کر رہا ہوں۔ میرے پاس میرے  کچھ قمیض تھے اور میں انکی آلٹر کروانے کی غرض سے ایک ایسی مارکیٹ میں اترا جو بیسمنٹ میں بنی ہوئی تھی۔ وہاں تقریباََ ہر دکان کے باہر ایک کڑھائی کی مشین والا یا ہاتھ سے کپڑوں پر ملبوسی کام کرنے والا اپنا ایک چھوٹا سا اڈہ لگا کر بیٹھا ہوا تھا۔ اور سب آوازیں مل کر ایک نئی طرز کی آواز یا شور تھا جسے میں سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اسی دوران میں نے ایک درزی کی دکان پہ دو حضرات کو جھگڑتے دیکھا۔ چونکہ مجھے بھی درزی سے ہی کام تھا تو میں دکان کے باہر ہی ایک سٹول پر بیٹھ گیا۔
ایک برانڈڈ سوٹ اور ٹائی میں ملبوس شخص جو کہ شاید اپنے دفتر سے سیدھا ادھر ہی آیا تھا۔ وہ اس درزی سے لڑ رہا تھا کہ تم نے میری بیوی کے کپڑے تیار کیوں نہیں کئے جبکہ تمھارا وعدہ دو دن پہلے کا تھا اور آج میرا دوسرا چکر ہے۔
دوسرے بھائی صاحب کا کہنا تھا کہ میری بیوی کی حالت کچھ ٹھیک نہیں تھی اس لئے مجھے مجبوراََ دکان کو دو دن  بند رکھنا پڑا اور میں کل شام تک آپکے کپڑے تیار کردوں گا۔
اسکے جواب میں دوسرے بھائی صاحب نے کہا کہ کیا بکواس ہے تم لوگوں کے ہاں ہر روز کوئی بیمار یا مرتا ہی رہتا ہے۔ اسکی اس بات پر وہ دکان دار بھڑک اٹھا اور کہنے لگا جناب  بیماری اور موت تو صرف اسی کے ہاتھ میں ہے جس نے آپکو زیادہ پیسہ دیدیا اور مجھے ابھی تک نہیں دیا۔
آپ میں اور مجھ میں فرق صرف پیسے کاہے یہ پیسے کا فرق نکل جائے تو آپ مجھ جیسے عام آدمی سے بھی کہیں گئے گزرے ہیں۔ یہ صرف پیسہ ہے جو  آپکے غرور میں شامل ہے۔ اس دوران بات کرتے ہوئے اسکی زبان کانپ رہی تھی مگر میں نے محسوس کیا وہ اس شخص سے ڈر نہیں رہا تھا بلکہ وہ واقعی ہی  اپنی حالت مجبوری اور بیوی کی طبعیت  کی وجہ سے پریشان دکھائی دے رہا تھا۔
اس نے کہا میں کوشش کرتا ہوں آج رات کو ہی میں آپکا کام مکمل کردوں اور آپکو انتظار کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے میرا لڑکا آپکے گھر پہ ہی دے جائے گا ابھی مہربانی فرما کر تشریف لے جائیے۔ اس کے بولنے کے دوران وہ شخص ایک بات بھی نہ بول سکا اور اسی دوران اسکا ڈرائیور بھاگتا ہوا آیا اور بولا سَر اوپر بی بی جی کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ شخص وہاں سے بھاگتا ہو چلا گیا۔
اس روز ایک بات سمجھ آ گئی اصل حقیقت غرور اور ہماری  سوچ میں پوشیدہ ہے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
''اگر تمہیں کوئی چیز چھوٹی نظر آ رہی ہے تو یقیناََ  تم اسے دور سے دیکھ رہے ہو یا غرور سے''
یارو! اصل بات ہماری سوچ کی ہے جو کبھی ہمیں ہیرو بنا دیتی ہے اور ہم خود کو سب سے بہتر سمجھنے لگتے ہیں اور کبھی فلم کا ولن بنا دیتی ہے کہ ہم خود کو ہی برا ترین تصور کرنے لگتے ہیں۔
ایک بات یاد رکھنا کہ حضرت  آدم ؑ سے لیکر اور اس وقت تک جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ہر ایک شخص کی ایک مکمل کہانی ہے کوئی بھی سائیڈ رول کے لئے پیدا نہیں ہوا ہے۔
اگر آپ اپنی کہانی میں سائیڈ رول ادا کررہے ہیں تو اسکی وجہ آپ خود ہیں۔ آ پ بھی اپنی زندگی میں ہیرو بن سکتے ہیں۔ مگر صرف اپنے اعمال اور سوچ کی بنیاد پر۔
جیسا کہ ہمارے نبی محمد مُصطفٰےﷺ اس کائنات کے سب سے بڑے اور افضل ہیرو ہیں جو اپنی زندگی  میں بھی ہیرو  تھےاور آج ہم سب کی زندگی کے بھی ہیرو ہیں۔
میں اور آپ  بھی دوسروں کی کہانی کے ہیرو بن سکتے ہیں اگر ہم  اپنی زندگی میں تمام سائیڈ رول سمجھنے والوں کو  بھی اپنی زندگی میں ہیرو کا رول دے دیں اور ہیرو کی طرح   جینے کا راستہ دکھا دیں۔
مگر ایک بات واضح رہے کہ سب سے پہلے آپکو خود کو  ایک مثبت  اور سچا ہیرو بنانا ہے۔ اسکے بعد ہی آپ کسی اور کو وہ رول دینے کے قابل ہو سکیں گے۔
''کیونکہ خالی برتن سے آپ کچھ بھی نہیں بانٹ سکتےتو آپکو پہلے اپنے برتن کو بھرنا ضروری ہے''
اس دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو خود ہی سائیڈ رول میں رہنا پسند کرتے شاید وہ سامنے آنے سے ڈرتے ہیں یا سامنا کرنے سے یا پھر وہ خود کی اہمیت ہی نہیں جان پاتے۔ مگر ایک بات ذہن نشین رہے کسی کو ہیرو کا رول دیکر اور خود  اسکے سائیڈ رول میں آجانا بھی بزرگی ہے۔
ایک بات جان اور سمجھ لیجئے جس طرح ہماری ماں ہمیں کمزور اور ناکام دیکھ کر خوش نہیں ہو سکتی۔ عین اسی طرح بلکہ اسے بھی کہیں زیادہ ہمارا خدا بھی ہماری ناکامی اور کمزوری پر ناخوش ہوتا ہے۔
اگر ہماری ماں کے اختیار میں سب کچھ ہو تو وہ ہمیں کبھی بھی خالی نہیں رہنے دے گی اور جبکہ ہمارے خدا کے پاس تمام تر اختیارات ہیں تو ہم کیسے خالی رہ سکتے ہیں۔ وہ تو ہمارے کشکول اور دلوں کو ہمیشہ اپنی رحمتوں اور خزانوں سے بھرنے کیلئے تیار ہے۔ بشرطیکہ ہم اسے اپنا جان کر مانگ سکیں اور کچھ نہ بھی مانگ سکیں تو صرف مانگنے کا طریقہ ہی مانگ لیں تو بھی سب مل جائے گا۔
اس نے اپنے بندوں کو اتنا ہلکا نہیں بنایا جتنا کہ وہ خود کو سمجھنے لگتا ہے۔ وہ اس بات کو نا جانے کیوں بھول جاتا ہے کہ خدا  اپنے بندوں کی ہمیشہ فکر میں ہے۔ لیکن صرف وہ بندہ ہے جو اس سادہ سی بات سے  بے خبر ہو کر خود کو ذلیل اور رسوا کر رہا ہے۔ وہ اس بات کو سمجھ نہیں پا رہا ہے کہ ''کمزور تو صرف میں ہوں جبکہ میرا رب تو بڑی قوتوں والا ہے''
اور اسکے ہاں تو سب ہیرو ہیں کوئی بھی سائیڈ رول نہیں۔
دعا ہے کہ اللہ ہم سب کے دلوں کو خیر اور محبت کی جانب موڑ دے اور بیشک وہ ہر چیز کا حاکم ہے آپکا اور ہمارا خدا نگہبان۔
سید تفسیر عباس رضوی 

Wednesday 16 January 2019

الله بڑا ہے ...

اللّٰہ بڑا ہے.....
بس وہی تو بڑا ہے.....بڑائی صرف اُسی کے لیے ہے....
لاکھوں کروڑوں سیاروں اور ان کی دنیاؤں کا مالک.....سب سے بڑا سب سے عظیم....پھر بھی کروڑوں کہکشاوں کے لاکھوں سیاروں میں سے ایک سیارہ زمین کی حدود میں ہزاروں ملکوں میں سے کسی ایک ملک...اور اس ایک ملک کے سینکڑوں شہروں میں سے کسی ایک شہر...اور اس ایک شہر کے بہت سے لوگوں میں سے دور ایک گوشے میں بسنے والی ایک لڑکی کے دل کے حال سے واقف ہے....♥
یار کیا کمال بات ہے نا.....اور اُس سے بھی کمال پتہ کیا...کہ جس طرح اتنی بڑی کائنات میں اُس ایک لڑکی کے دل کے کونے میں چھپی بات جانتا ہے...اُسی طرح....بالکل ایک سے فوکس کے ساتھ آپ کے دل کا حال بھی جانتا ہے...💓
اور صرف آپ پہ ختم نہیں...اس کائنات کی حدود میں بسنے والے ہر انسان کے دل کے اُسی طرح قریب ہے....💖
محسوس کیجیے...

سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Tuesday 15 January 2019

اک ذرا سا چھیڑیے

بھیڑ میں چلتے ہوئے آنٹی کو کاندھا لگ گیا تو وہ چیخنے لگیں..."اندھی ہو"..
کچن میں دھو کے رکھے گئے کپ میں کوئی چائے پی گیا تو کپ کے مالک کی آواز "یہ کون کمینہ....."
گدھا گاڑی والا کار والے کے سامنے آگیا اور کار کے مالک کا اتر کر گدھا گاڑی والے سے جھگڑا... تُو تکار اتنی بڑھی کہ گاڑی سے پستول نکال کر چلادی گئی....
پہلی دو مثالیں روزمرہ کے کچھ دنوں کی ہیں...اور تیسری مثال گزشتہ برس گوجرانوالہ شہر میں پیش آنے والے ایک واقعے کی...
ہر ایک غصے میں....ہر دوسرا چیخ چِلّا رہا ہے.....سب آبلے کی طرح پُھوٹ بہنے کو تیار.....
زبان کی خندق کھولے ہڑپ جانے کے لیے تیار.....اور ضرورت پڑنے پہ ہاتھ جانوروں کی طرح کھلے چھوڑ دینے پہ بھی...
اُف!!! عدم برداشت کی کوئی حد نہیں...
لوگ بھرے بیٹھے ہیں...اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے ہوتا ہے کیا.....!!
ہاں...مان لیا...کہ حالات نے سخت دل بنا دیا ہے....یا پریشانیوں کا غبار زیادہ ہے...وغیرہ وغیرہ....مگر یار...کون یہاں غم سے آزاد ہے...
کس کا جیون صرف سکھ ہی سکھ لیے ہے...کس کو مسائل کا سامنا نہیں....کون پریشانی نہیں جھیل رہا...
کیا کہا؟؟ آپ کی پریشانیاں زیادہ بڑی ہیں...یقین جانیے سب کے لیے ان کے مسائل اتنے ہی بڑے ہیں...اس کے باوجود کوئی بھی اپنے مسائل کسی دوسرے کے مسائل سے exchange نہیں کرنا چاہے گا....
سو...اپنے غلط رویوں کو....عدم برداشت کو....حالات کی مجبوری کا نام نہ دیجیے.....
اپنی کڑوی زبان کے لیے سچ کا ملمع استعمال نہ کریں....💔
اپنے دل دکھانے والے رویوں کے لیے "straight forward" کی اصطلاح نہ اپنائیں....💔
دلوں کی سختی سے پناہ مانگیں....زبان کی نرمی اپنانے کی کوشش کریں....خود کو کبھی کبھی آنسوؤں کا پانی دے کر زرخیز کر لیا کریں....♥
حِلم اور درگزر کا رویہ اپنانے کی کوشش ضرور کریں.....❤ ورنہ معاشرے کا حبس مزید بڑھ جائے گا!

سیماب عارف
ایڈیٹر ای- میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Monday 7 January 2019

سوشل میڈیا

کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے ہاتھ میں اس وقت کیا ہے؟؟ 
اب آپ سوچ رہے ہوں گے وہی جس کی وجہ سے دن رات ماں سے طعنے سنتے ہیں...😜
جی ہاں! یہی....😄 لیکن یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے....یقین کیجیے یہ ایک جدید ہتھیار ہے.....کیونکہ جنگیں اب میدانوں کے بجائے سکرین پہ لڑی جارہی ہیں....
شہروں اور ملکوں پہ حملہ بعد میں ہوتا ہے....سوچ اور نظریات پہ پہلے....
آپ کے خیالات..
آپ کے عقائد....
آپ کے نظریات....
اور پھر اس کے نتیجے میں ہونے والے اعمال تک....سوشل میڈیا کے ذریعے قابو کیے جاسکتے ہیں....دورِ حاضر کا سب سے بڑا جن ہے سوشل میڈیا.....
ایک کلِک...آپ کی نیکی بھی شمار ہو سکتا ہے اور خطا بھی....
لوگوں کی آراء اس کی وجہ سے بنتی بگڑتی ہیں....
محض معلومات اور تفریحی مواد کا پلندہ نہیں یہ.....یہ وائرس ہے.....جس کی مدد سے ہر صحیح غلط کو منٹوں میں پھیلایا جاسکتا ہے....
سو اسے صرف وقت گزاری کا ذریعہ نہ سمجھیں....
سوشل میڈیا جدید دور کا ایسا ٹُول (آلہ) ہے جس سے آپ لوگوں کے اذہان کی مرمت کرسکتے ہیں...
خدارا اس پہ سنجیدگی سے سوچیے....!!
سوشل میڈیا آپ کے لیےمحض تفریح اور وقت گزاری کا ذریعہ نہ ہو...بلکہ کسی فلاح کسی بہتری کے لیے استعمال ہو....اوروں کی نہ سہی...اپنی ہی سہی!!
سوچیے گا ضرور!


سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹوپاکستان 

Saturday 5 January 2019

احساس

یہ گاؤں اپنی روایتوں سے جڑا ہوا ہے
یہاں کے بچے دھنک کے رنگوں سے کھیلتے ہیں

کسی کو ان کی مثال دینے سے پہلے سوچو
یہ زندگی کے مشاہدے میں ابھی نئے ہیں
(زہرا قرار)
زندگی کا ذائقہ.....کافی کے کپ کی طرح اُنسیت مانگتا ہے....
چیزیں توجہ مانگتی ہیں....گملے میں لگا پودا ایک دن کی کوتاہی سے مرجھانے لگتا ہے.....
کھڑکی کے شیشے پہ پڑی گرد صاف نہ کی جائے تو باہر کا نظارہ نہیں کیا جاسکتا....
مشاہدے کی آنکھ بینا نہ ہو تو پیڑ صرف پیڑ ہیں....دکھ میں سانجھی نہیں...
اور بینا ہو تو خشک پتے کی چرمراہٹ بھی دل پہ لگتی ہے....
آدمی بس دو جمع دو چار میں دلچسپی رکھتا ہو تو آسمان کو ڈھانپے شفق میں کیا خوبصورتی.....اور چیزوں کو زُووم کر کے دیکھنے والا ہو تو چٹانوں کی دراڑوں میں اُگے سبزے پہ سبحان اللّٰہ کہہ اُٹھے....💕
کسے دکھ نہیں یار.....سب یہاں اپنے اپنے سینوں میں اپنے اپنے حصے کی آگ لیے پھررہے ہیں....مگر پھر بھی شکر کرنے کو بہت کچھ ہے♥.....محسوس کرنے کو بہت سے احساس....توجہ دینے کو بہت سی چیزیں....
"میسّر" پہ شکر کرنا سیکھ لیں.....ورنہ خوشی سڑک پہ دور سے نظر آنے والے پانی کی طرح آپ کو بھگائے گی....مگر ہوگی نہیں!

سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Thursday 3 January 2019

سکرین شاٹ

کچھ عرصہ پہلے کسی "خیرخواہ" نے کسی دوسرے "خیرخواہ" کی ایسی گفتگو کے سکرین شاٹ لے کر بھیجے جو میرے لیے ناگوار تھی... 
میں نے انہیں منع کیا کہ آئندہ وہ کسی کو میری برائی کرتا سنیں تو مجھ تک نہ پہنچائیں...چہ جائیکہ کسی اصلاح کی ضرورت ہو...
والد صاحب بچپن سے ایک بات سمجھایا کرتے ہیں کہ اگر کوئی آپ کے سامنے کسی کی آپ کے بارے میں کہی گئی ناگوار بات آپ سے کرے...تو وہ آپ کا دوست نہیں...کیونکہ اُس نے دو لوگوں میں بددلی اور نفرت پیدا کی ہے....
ان دنوں ایک عجیب رواج چل نکلا ہے....راز افشانی کا....جسے "سکرین شاٹ" کے نام سے جانا جاتا ہے....
کسی کی گفتگو کو " as it is" دوسروں کے سامنے رکھنا...
دو لوگوں کے درمیان جو گفتگو ہوتی ہے چاہے وہ کسی بھی نوعیت کی ہو....اس گفتگو کا بیک گراونڈ، لہجہ، بات، کچھ بھی تیسرے بندے کو کبھی بھی صحیح سے سمجھ نہیں آسکتی یوں سکرین شاٹس پڑھ کے...اور  بغیر کسی ناگزیر وجہ کے بتانا اخلاقی طور پہ بددیانتی ہے...
میں کبھی کبھی حیران ہوتی ہوں ہم کوئی بھی سکرین شاٹ publicly کیسے شئیر کردیتے ہیں...چہ جائیکہ وہ بات کرنا اشد ضروری نہ ہو جائے...اس میں بھی احتیاط کی جاسکتی ہے...صرف متعلقہ بندے تک شئیر کر کے...
ورنہ سابقے لاحقے ہٹا کے بات کی یا سنی جائے تو ہیرو سے ولن اور وِلن سے ہیرو بن سکتا ہے...
مالکِ دو جہاں خبیر و علیم ہے مگر اُس کی رحمت اپنے بندوں کے راز عیاں نہیں کرتی....کوشش کیجیے...جہاں ضروری نہ ہو وہاں ہم دو افراد میں آپس کی بات کسی تیسرے سے نہ کہیں....کیونکہ ہمارا ہر فرد سے تعلق ایک جیسا نہیں ہوتا نہ ہی لہجہ، انداز اور وجہ فون میسجز سے اخذ کی جاسکتی ہے! 

سیماب عارف
ایڈیٹر ای- میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

شکستہ ہو تو عزیز تر ہے

چاک پہ مٹی کا دائرہ گھماتے ہوئے کوزہ گر کے ہاتھ کی ذرا سی لرزش کوزے میں ٹیڑھ پیدا کردیتی ہے... 
بھٹی میں صحیح سے نہ پکے تو برتن کچا رہ جاتا ہے..جلد ٹوٹ جانے والا...
بازار اُسے قبول نہیں کرتا..💔
دل بھی چاک پہ گھومتے کوزوں کی طرح نازک ہوتے ہیں...کوئی چُوک کوئی بے دھیانی کوئی لرزش ہوئی....اور کوزہ گیا...💔
مگر قدرت کی ادا بڑی نرالی ہے....وہ ان خستہ حال کوزوں کو زیادہ عزیز رکھتی ہے...💕
اقبال نے کہا تھا.. 
نہ بچا بچا کے تُو رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ...
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں..!! 💕
اپنے شکستہ وجود...یا ٹوٹے دلوں کو بے مول نہ جانیے....
انہیں خدا سے جوڑیے....مالک سے اپنے دکھ سکھ کرنے کی عادت ڈالیں...لڑیں جھگڑیں...نخرے کریں..لاڈ اُٹھوائیں..مگر تعلق ضرور رکھیں..♥
لاتعلقی نہ پیدا ہونے دیں...

نوٹ: (ٹوٹنے سے مراد محض محبت میں ناکامی کے نتیجے میں دل میں تیر کی شکل کے ساتھ ٹپکتے خون کے قطروں والی تصویر ہی نہیں...😜
Be mature!! 😄
By the way...us main bhi koi harj nhi.. 😋)

سیماب عارف
ایڈیٹر ای- میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Tuesday 1 January 2019

5 Hacks Will Make You Stick to 2019 Resolutions


It’s the time of the year where everyone seems to be busy in setting up new goals for the coming year. Whether you are big on New Year’s resolutions or not, at some level, we all will enter the New Year with the will & determination to achieve our goals. Setting up a target to do something is the first step heading towards it. Whether your goal is to lose weight/get healthy, be more present, or want to overall improve your life, the first step is the decision of doing it. However, the next step is to get stick to it, which is almost harder than deciding to it. According to some research, 80% of the New Year’s resolutions have a very short lifespan & only work till the first week of February.
Don’t want to be in one of that 80 %? Following five hacks will help you to stick to your new year resolutions
1-Be Specific
Remember! Always remain specific in setting up your goals for the New Year’s resolution. Let’s say! One of your New Year’s resolutions is to read a large number of books. Instead of saying,” I want to read many books this year” mention the precise number of books you want to read. Having a specific target will not only make clarity about your goal but also helps you in making it attainable.
2- Start Small
Is your New Year’s resolution to become more active after being a lazy potato in the entire last year? Signing up for a gym membership with the aim to go strictly 6 times a week seems unrealistic or may be a little too enthusiastic. A more realistic approach would be to start from a short walk a few times a week before adding it to more intensity. It can cause you to burn out quickly. Will make it sustainable over the span of an entire year. Start small actions. Map out a plan with baby steps for your New Years’ resolution that will eventually lead to your actual goal.
3- One Resolution at A Time
Have more than one resolutions? Focus on 1 at a time. Let’s presume your new year's resolutions are to eat clean, lose weight & travel. Eating clean & weight loss go hand-in-hand simultaneously. But realistically, they may clash with your 3rd resolution i.e. to travel. In the former year, focus on clean eating with losing weight during the first half of the year & then make travel plans in the latter half of the year.
4- Let People Know
Openly declaring your new year's resolution adds the flavor of accountability, making you more likely to stick to it. You don’t need to put it up publicly on social media accounts but involve close friends & family. Discuss with them & tell them that you are passionate about your goal. Also, ask them for their support. It is very essential to surround yourself with like-minded people who are supportive of your goals and are willing to help you in achieving them.
5- Don't Aim for Perfection
Starting your New Year resolution with the aiming of perfection is equivalent to set yourself for failure. Let’s get out of the perfectionist mindset. Don’t beat yourself for eating a slice of cheesecake, when your resolution was to make better food choices. Don’t blame yourself for not being able to hit the gym every single day or every week a month due to your busy rituals. Be able to forgive yourself & learn to not let one slip disturb your whole year.

Keep above hacks in your mind while shaping up your resolutions for 2019.
Happy New Year!

Naureen Fatima
 The author is the Deputy Content Coordinator of the E-Magazine Positive Pakistan.




Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...