Sunday 30 December 2018

7 Obstacles That Limit Critical Thinking



When we have various sources of extracting information, it is hard to find out the genuine truth. This makes a lot of concerns in our everyday daily matters. Critical thinking or basic reasoning help us in making an intellectual choice and informed decision-making. This won't make strides on shallow or unclear information and will ultimately lead to a smooth decision-making process. Following are the obstacles that limit us to start thinking critically

1-Absence of Basic Information: Most of us are unaware of background information and ground realities of facts and figures. And we do not try to explore the basic findings to enhance our knowledge.

2-Poor Research Skills: It is a major issue that the majority of the researchers lack in effective research techniques including content analysis, SWOT analysis etc. While the majority of the people show an unwillingness to seek new research techniques. They focus only those aspects that they desire to look into.

3-Biasness: It is another obstruction in basic reasoning or critical thinking that one cannot acknowledge the reality and show biasness while analyzing the information.

4-Egocentric: : Another common issue is being egocentric which is the inability to untangle subjective schemas from objective reality and an inability to understand or assume any perspective other than one's own It results in hesitation in acceptance of reality .

5-Narrow-mindedness: Most of the time we are ignorant of the developments and unable to foresee the dynamic effects of various issues.

6-Unreal Assumption: Sometimes we form the wrong perception about any matter that hinders us in further reasoning and exploring truths and facts about any entity.

7-Selective Research Topics:We use to give attention to selective issues which limit our barriers to research due to data constraints, technical issues etc.

Umair Raza
The author is the executive editor of the E-Magazine Positive Pakistan.



Friday 28 December 2018

قوم کا المیہ

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تُو نے!!!
جب کبھی بحیثیت قوم خود پہ اور اپنے اردگرد پہ نظر ڈالتا ہوں...افسوس اور شرمندگی کے گہرے دلدل میں دھنس جاتا ہوں...قوم...محض لوگوں کا بے ہنگم ہجوم نہیں ہوتا...بلکہ ایک دوسرے سے جڑی اینٹوں کی دیوار کی مانند ہوتی ہے....آپس میں ساتھ نبھانے والی....ایک دوسرے کے حق کے لیے آواز اٹھانے والی...
مگر المیہ یہ ہے کہ من حیث القوم ہم صرف بے ہنگم ہجوم کے سوا کچھ نہیں رہے...
جہاں بولنے کا، آواز اٹھانے، ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے اور مشکل آسان کرنے کا وقت آتا ہے تو ہم محض ایک تماشائی بنے پھرتے ہیں.... آواز نہیں اٹھاتے سچ کا ساتھ نہیں دیتے....اور جہاں بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی وہاں بے مقصد ٹانگ اڑاتے ہیں... 
ہم ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کا دست و بازو بننے کے بجائے تنقید برائے تنقید کرتے اور عیب تلاش کرنے لگتے ہیں...
یہاں کوئی شخص پوری زندگی انسانیت کی خدمت میں گزارتا ہے ہمارے آس پاس رہتا ہے، مجال ہے کہ ہم اس انسان کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کریں مگر جونہی وہ شخص ہماری زندگی سے دور چلا جاتا ہے...خوب ماتھا پیٹتے اور سوگ مناتے ہیں.. افسوس کرتے ہیں، 
آخر ایسا کیوں ہے...
جس طرح کل تک ڈاکٹر مہناز مری کارڈیو ویسکیولر سرجن پاکستان کا فخر کل تک ہمارے درمیان تھیں تو ان کا کوئی نام لینے والا نہیں تھا ان کی خدمتوں کو کوئی سلام پیش کرنے والا نہیں تھا.. بہت افسوس کے ساتھ کہ آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں تو ہر شخص ان کا سوگ منا رہا ہے..
افسوس صد افسوس! ہمارا رویہ صرف تماشائی کا سا رہ گیا ہے...اور تماشائی بھی وہ جسے کسی کے جیتے جی اُس کے لیے تالیاں بجانے کا حوصلہ بھی نہیں....
اپنے ہیروز کو، اپنے اردگرد موجود اچھے لوگوں کو، معاشرے کی فلاح کے لیے کام کرنے والوں کا ساتھ دیں...ان کی قدر کریں....ورنہ...خالی قبروں پہ ماتم کرتے پھریں گے....
خدا کرے یہ بات میری قوم کو سمجھ آجائے....اور بصارت کے ساتھ ساتھ ہم بصیرت بھی حاصل کرسکیں...
امین

ڈاکٹر حبیب الرحمان
کوآرڈینیٹر لاڑکانہ چیپٹر پازیٹو پاکستان 

غزل

میں اس خرابے میں گھوم پھر کر بھی آچکی ہوں
سو رہنمائی کو ایک نقشہ بنارہی ہوں

یہ وقت منہ زور پانیوں جیسا آچڑھا ہے
میں اس سمندر میں خال و خد کو بہارہی ہوں

میرا مقدر ہے بیچ رستے میں ٹوٹ جانا
کسی زمانے میں,میں بھی کچا گھڑا رہی ہوں

میں لاشعوری کواڑ سے جھانکتی نظر ہوں
میں خواب کے پار جانے والی صدا رہی ہوں

میں سوکھے پتوں کو پینٹ کرنے کا سوچتی ہوں
میں خوش امیدی کو سانس لینا سکھارہی ہوں

سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Wednesday 26 December 2018

سفرنامہ (حصہ سوم) - عمر و عیار کی زنبیل

عمر و عیار کے قصے تو بچپن میں بہت پڑھے اور تب دل کرتا تھا ایسی ایک زنبیل ہمارے پاس بھی ہو جس میں سے با وقتِ ضرورت سب کچھ نکل آئے۔ سوچا جائے تو بہت سے لوگوں کے پاس یہ زنبیل ہوتی ہے۔ ( زیادہ سوچیں نہیں سمجھ آجائے گی کہ میں نے ایسا کیوں کہا۔)
قصہ بیلا اور ولید صاحب کی زبانی ہی سناتی ہوں آپکو۔
"تم اس سے نہیں ملی، کیا بندہ ہے وہ، سب کا دوست، سب کے لیے اچھا۔ تمھیں پتہ ہے اس کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے، بعض اوقات حل ایسا پیچیدہ ہوتا ہے کہ انسان مسئلہ ہی بھول جائے۔"
میں حیران تھی کہ آخر پازیٹو پاکستان کی اس شخصیت کو جاننے سے میں محروم کیسے رہ گئی۔ ویسے ایک دفعہ میں نے انھیں پازیٹو پاکستان کا حصہ بننے کے لیے میسج ہی کر ڈالا، جانتی ہی نہیں تھی نا تب اور پھر ان کے بتانے پہ جو مجھے شرمندگی ہوئی۔۔
اس کے پاس ایک ایسا *منجن* ہے جس کے ذریعے وہ ہر کام کر اور کروا لیتا ہے😳 وہ سائنسدانوں کے ساتھ سائنس دان، استادوں کے ساتھ استاد، بچوں کے ساتھ بچہ، لڑکیوں کے ساتھ لڑکی🤭 غرض وہ ایک انسان سب کچھ ہے۔ بات فیشن کی ہو یا بزنس کی، سائنس کی ہو یا ریاضی کی اس کو سب پتہ ہوتا ہے۔ کوئی اس کو کوئی کام کہہ دےتو ناممکن ہے کہ وہ انکار کرے۔ دنیا کے ہر کونے میں اس کے دوست موجود ہیں، وہ جہاں جاتا ہے لوگوں کو اپنا بنا لیتا ہے۔
میں تو سوچ میں ہی پڑ گئی کہ وہ انسان ہے یا کیا چیز۔ مطلب عمر و عیار کی زنبیل کی طرح اس کے پاس سے بھی بروقت ہر مسئلے کا حل نکل آتا۔
ایک اور بات یاد آئی... 
فوڈز اینڈ موڈز جہاں سے وہ ہر دفعہ چائے اور سپرنگ رولز ہی لیتے تھے۔ جب وہ کہیں نہ ملتے تو مطلب کسی دوست کے ساتھ وہاں ہی ہوں گے۔ اور اس بات سے ان کے استاد بھی واقف ہو چکے تھے، دراصل وہاں سگنلز نہیں آتے تھے تو جب ان کا فون نہ ملے تو مطلب وہ فوڈز اینڈ موڈز کو رونق بخش رہے ہیں۔😍
اور تو اور ان کی جس کے ساتھ بھی دوستی ہوتی ناممکن تھا کہ اس کی امی کے ساتھ جان پہچان نہ بنائیں۔ مطلب وہ دوستوں کی امیوں (آنٹیوں) کے بھی بہت لاڈلے بن جاتے کیونکہ وہ بیٹھ کے ان کے مسئلے سنتے اور ان کے حل دینے سے بھی باز نہ آتے۔
ارے آپ اب تک سمجھے نہیں میں کس کی بات کر رہی ہوں؟؟
میں کامی بھائی میرا مطلب ہے ڈاکٹر محمد کامران اکرم (برا منا جاتے پورا نام نہ لیا جائے تو) کی بات کر رہی ہوں۔
مجھے سنتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا وہ ایک شخص اکیلا ہی سب کچھ ہے، جو دور جائے تو اس کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جائے اور اس بات کی آکاسی ان کے دوست کا لہجہ کر رہا تھا۔ اچھے دوست بھی بہت بڑی نعمت ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر کامران کے بارے میں بہت کم بتا پائی میں کیونکہ ہمیں سلسلہِ گفتگو منقطع کرنا پڑا تھا، سر عابد کی کال آگئی تھی اور ہمیں اپنی اگلی منزل کی طرف جانا تھا۔ (جب وقت تھا تب یہ لوگ اور باتوں میں جو لگے رہے، اپنا کیتھارسس کرنے کا یہی موقع ملا تھا)
اور لائلپور کی داستان ختم ہونے کو ہے...
سر کی کال آچکی تھی لٰہذا ہم بھی سر کے ایک دوست پازیٹو پاکستان کے سپورٹر جناب فرخ الٰہی صاحب کے گھر جانے کے لیے نکلے۔ جاتے ہوئے بھی کون سا میری جان بخشی ہو، ولید صاحب پہلے مجھے مختلف اطرف میں جاتی سڑکوں کے بارے میں بمع تاریخ بتانے لگے اور جب کچھ نیا نہیں رہا تو مختلف برنڈز کی "دکانوں" کی تعریفیں (مذاق کے طور پر) جو بھی تھا بیلا اور سر ولید کا مجھے اتنا وقت دینا مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔
ہم فاروق صاحب کے گھر پہنچے جہاں ہمارا ہی انتظار ہو رہا تھا اور ہمارے جاتے ہی پہلے طعام پھر کلام والی بات پہ عمل کرتے ہوئے کھانا لگا دیا گیا۔ کھانا بھی کیا کوئی سات طرح کے کھانے تھے، جس کو متنجن یا نولکھا کہا تھا انہوں نے اور ولید صاحب نے وہاں بھی کریڈٹ لیتے ہوئے میری ڈشیز میں اضافہ کیا اور یاد کروایا کہ سیور کے بدلے 15 مختلف طرح کے کھانے کھلا چکے ہیں اور تو اور وہاں تو سر عابد نے بھی ساتھ نہ دیا انہیں یاد بھی کروایا کہ سر واپس آپ نے اسلام آباد ہی جانا ہے لیکن نہیں اس وقت تو وہ فیصل آباد تھے نا😏😏 ۔ فاروق صاحب کی فیملی سے بھی ملاقات ہوئی، ان کی تینوں بیٹیاں بہت اچھی تھیں اور ان کی والدہ بالکل دوستوں جیسی(ان کی پنجابی ذرا مشکل سے سمجھ آ رہی تھی😞) دیر ہو رہی تھی اور ہمیں واپس بھی جانا تھا لٰہذا بیلا نے سر کو یاد کروایا کے ہاسٹل پہنچنا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہمیں کسی کام سے اس تاریخی جگہ جانا تھا جہاں پریزیڈنٹ پازیٹو پاکستان جناب عابد اقبال کھاری نے جنم لیا تھا میرا مطلب ہے سر کے گھر کے پاس سے گزرنا تھا🤭 اور وہاں پہنچ کے سر ولید نے بتایا کہ گاڑی میں بیٹھ کے سر کے گھر کو دیکھنا گستاخی ہے تو میں فوراً نیچے اتر آئی۔ سر کا گھر واقعی خوبصورت تھا جس کی خوبصورتی میں اضافہ دیوار پر لگی سر کے والد صاحب کی تصاویر کر رہی تھی (جیسے فاطمہ جناح یونیورسٹی پہ تصاویر لگی ہیں بالکل ویسے)۔ وہاں سے ہم نے اپنے ہاسٹل کی راہ لی۔
ہاسٹل پہنچے تو سندس(بیلا کی چلبلی سہیلی) ہمارے پاس آئی کہ ہمارا ایونٹ کیسا رہا۔ وہ اتنی معصوم لگتی ہے کہ بس۔ اور مجھے دکھ ہے کہ میں واپسی پہ سندس اور فروا کو مل کے نہیں آ سکی😞
رات پھر سے نیند 3 بجے کے بعد آئی جس کی وجہ سے صبح بھی اٹھنے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ لیکن اٹھنا تو تھا کیونکہ 11 بجے ہمیں میٹنگ کے لیے پہنچنا تھا اور اس سے پہلے فیصل آباد کا مشہور ناشتہ بھی کرنا تھا۔
لیکن تیار ہونے سے پہلے بیلا نے میرے ہاتھ پہ مہندی لگائی، مجھے مہندی بہت پسند ہے تو بھلا میں کیسے انکار کرتی🤭
میں تیار ہونا شروع ہی ہوئی تو کال آئی مہران اور سر ولید ناشتہ کے لیے پہنچ بھی چکے تھے۔ بیلا بھی تیار تھی اور میں۔۔۔۔۔۔۔خیر ہو وہاں پہنچے اور ایک دفعہ پھر مجھے ڈشز گنوائی گئیں، اب تو میں نے خود بھی گننا شروع کر دی تھیں🤭 وہاں سے ہم سر کی بہن جو ایک لکھاری بھی ہیں ان کے گھر گئے وہاں سب رہبرز اور ایمبیسڈرز آچکے تھے۔ ایونٹ پے سب کا موقف لینا تھا اس سے پہلے اپنی روایت کو قائم رکھتے ہوئے تلاوت، ورڈز آف وزڈم اور پھر سب کا تعارف ہوا اس کے بعد سب نے اپنی اپنی رائے دی اور جہاں جہاں اصلاح کی ضروت تھی اس پہ بھی بات کی۔ آخر میں ایونٹ انچارج عدنان صابر کی باری آئی اور مجھے پتہ چلا وہ اپنے نام کی طرح صابر بالکل بھی نہیں ہیں🤭😜 چلیں باقی باتیں رہنے دیتے ہیں۔۔۔۔😄
اب جانے کا وقت ہو رہا تھا سر نے گاڑی نکالی' بیلا کو ٹیوشن جانا تھا(ارے وہی جہاں جاتے ہوئے وہ مختلف تحریریں لکھتی ہے) ہم نے اسے ڈراپ کیا میری سیٹ بُک کروائی جو شام 5:45 کی ہوئی۔ وقت کافی تھا تو سوچا گیا کہ کھانا کھالیا جائے(یعنی گنتی میں اضافہ)  شعیب بھائی کے مشورے پہ عمل کرتے ہوئے ہم سٹون او گئے جہاں کا ماحول کافی اچھا تھا(اسلا مآباد جیسا) وہاں فرائز، سپرنگ رولز اور پیزا منگوایا۔ اب کی بار تو حد ہو گئی ولید صاحب نے کیچپ اور کولڈ ڈرنک کو بھی ڈشز میں گننا شروع کر دیا۔ سر عابد کو بھی خیال آگیا اور ہم نے فیصلہ کیا کہ اب کی بار ہم بھی گن گن کے کھلائیں گے (IUKWIM) 😉 
شعیب بھائی نے کتاب "عورت معمارِانسانیت" تحفے میں دی(خوبصورت تحفہ) وقت کم رہ گیا تھا اور اب تک میں نے فیصل آباد کی سب سے خاص جگہ دیکھی نہیں تھی یعنی UAF. سر عابد، سر ولید، مہران اور میں یونیورسٹی گئے، ارے کیا منظر تھا وہاں کا۔ شام، خاموشی، خنک ہوا، چڑیوں کی چہچاہٹ اور ہر طرف سبزہ۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں یہاں پہلے کیوں نہیں آئی جی چاہا کہ وقت پیچھے چلا جائے اور میں یہاں داخلہ لے لوں لیکن افسوس۔۔۔۔۔۔۔
اب گاڑی کا وقت ہو چکا تھا مجھے سٹاپ پہ ڈراپ کیا گیا اور میں نے واپسی کی راہ لی۔ شعیب بھائی کی دی ہوئی کتاب اچھی ہمسفر ثابت ہوئی۔
یقیناً فیصل آباد کے لوگ صرف جگتوں میں ہی نہیں بلکہ مہمان نوازی اور محبتوں میں بھی ماہر ہیں۔ یہ وہاں کی آب و ہوا کا ہی اثر ہےکہ میرا ایک لمبے عرصے بعد لکھنے کا دل کرنے لگا۔ شاید فیصل آباد کا پہلا اور آخری سفر ہو لیکن ناقابلِ فراموش ہے۔
آپ لوگوں کی محبتوں کو ہمیشہ یاد رکھوں گی۔
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
کون سے آسماں سے آتے ہیں
گل تو اس خاکداں سے آتے ہیں
رنگ ان میں کہاں سے آتے ہیں
تم بھی شاید وہیں سے آئے ہو
اچھے موسم جہاں سے آتے ہیں

شکریہ لائل پور♥♥
سحرش امتیاز
ایمبیسیڈر پازیٹو پاکستان 

ہار سہنے کا فن

عدم کا شعر ہے...
وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں...
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں!
یونیورسٹی میں مضمون نویسی کا ایک مقابلہ منعقد ہوا....اور میں اُس مقابلہ مہم میں پیش پیش تھی... میری بھرپور کوشش سے ہاسٹل میں تین دوستوں نے مضمون نویسی میں حصہ لیا...بلکہ ایک دو کو تو لکھنے میں بہت حد تک میں نے مدد کی...میں خود بھی مقابلے میں حصہ دار تھی...
نتیجہ آیا تو میری دو دوستوں کی پہلی اور دوسری پوزیشن تھی اور یونیورسٹی میں کسی لڑکے کی تیسری پوزیشن...
یہ یونیورسٹی میں میرا دوسرا سال تھا..اور مضمون نویسی کے حوالے سے پہلا دھچکا...
کیونکہ اس سے پہلے میں کالج میں بے شمار مضمون نویسی کے مقابلے جیت چکی تھی...ضلعی اور صوبائی لیول کے بعد قومی لیول کے بھی....اور پھر یونیورسٹی میں بھی...حیرانی اتنی تھی کہ مجھے مقابلہ ہارنے کا افسوس بھی یاد نہیں رہا....
میں مقابلہ جیتنے کے بارے میں کبھی پوزیسو نہیں رہی...مگر اس دھچکے نے پوری رات بلکہ اگلے بہت سے دن مجھے اسی سوچ میں مبتلا رکھا...کہ آخر ایساکیوں ہوا...میرا مضمون اتنا بھی بے کار نہیں تھا کہ وہ تیسرے نمبر پہ بھی پورا نہ اترا...
شاید کوئی دس پندرہ دن بعد ایک کشف کا لمحہ اترا....اور مجھ پہ وہ بات ُکھلی....
قدرت آپ کو کبھی بھی independent "سب کچھ" نہیں بننے دیتی...ورنہ آپ تو آپ ہی نہ رہیں...وہ کامیابی اور ناکامی کے پلڑوں کو توازن میں رکھتی ہے...ورنہ آپ کا انا کا غبارہ اُڑتا ہی چلا جائے...وہ آپ سے پیار کرتی ہے...سو آپ کو "ہارنا" بھی سکھاتی ہیں...کیونکہ ہار کو سیکھنا پڑتا ہے...جیت تو خودبخود انسان کے اندر خمار بن کے دوڑنے لگتی ہے...مگر "ہار" کی تربیت کرنا پڑتی ہے....وہی جسے سپورٹس مین سپرٹ کہتے ہیں❣
شاید کہیں اندر ہی اندر لاشعوری طور پہ میں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ مضمون مقابلہ تو میرے لیے چٹکی کا کام ہے...مگر قدرت نے بتایا کہ انسان کُل کامل نہیں....نہ ہی اُسے خود پہ اکتفا کرلینا چاہئیے....
وہ ذات....ہمیں احساس دلاتی ہے کہ ہم اُس کی مرضی کے بغیر...واقعی یار اُس کی مرضی کے بغیر کسی کام کے نہیں!!
زندگی میں خود کو عقلِ کُل کبھی نہ سمجھیں...اور ہمیشہ جیت ہی جانا کمال تھوڑی ہے...
ہارنا بھی سیکھیں!!❣
یہی توازن زندگی کا حُسن ہے...

سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Tuesday 25 December 2018

جنم دن کا تحفہ

اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا...یہاں کا ماحول یونہی گندا رہے گا...کوئی قانون نہیں....کوئی اصول نہیں...سب لوگ کرپٹ اور بے ایمان ہیں...
میں نے گاڑی میں بیٹھے اپنے دوست کے ساتھ گرما گرم بحث کرتے ہوئے کہا..میں گاڑی ڈرائیو کررہا تھا...اور میرا دوست جوس کا ٹِن منہ کو لگائے میری بات سن رہا تھا...ٹریفک سگنل پہ گاڑی رکی...میرے دوست کا ٹِن خالی ہوا....اُس نے کار کا شیشہ نیچے کیا اور خالی ٹن پیک باہر سڑک پہ اُچھال دیا..
سگنل ابھی سبز نہیں ہوا تھا...ٹریفک سارجنٹ چوک کی دوسری سمت کھڑا تھا....میں نے ایک لمحہ اُسے دیکھا اور دھیان نہ پاکر فُل سپیڈ میں گاڑی بھگادی... 
ریڈیو پہ گانے لگے ہوئے تھے...اور آج شام ہم نے سینما میں نئی انڈین مووی دیکھنے کا پلان بنایا تھا..وہی جو ابھی آئی ہے "زیرو" مگر اتنا فلاپ بزنس کرنے کے باوجود شام 4 بجے والا ٹکٹ نہیں ملا..25 دسمبر کی چھٹی تھی...ہم دونوں ذرا آؤٹنگ کے لیے نکلے تھے...مگر یہ سالا سسٹم...اس ملک میں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے..
سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

سفرنامہ (حصہ دوم) - لائل پور کی کہانی

ہم FCCI پہنچے تو وہاں سب انتظامیہ پہلے سے ہی موجود تھے اور سب پازیٹیوینز اپنا اپنا کام کرنے میں مگن تھے۔ ہم تینوں بھی کمپیئرنگ میں کچھ  مزید اچھے الفاظ کا اضافہ کرنے بیٹھ گئے۔ وہاں ہی میری ملاقات فیصل آباد کے تقریباً سب ہی ٹیم ممبران سے ہوئی جن کے صرف نام ہی سن رکھے تھے( کچھ کے تو نام بھی نہیں پتہ تھے)۔ اسی دوران عبد الرزاق کو جوش آیا اور اس نے سٹیج سنبھال کر اپنی پُرجوش گفتگو سے آنے والے مہمانوں کے لہو کو گرمایا اور اٹھ جوانا پہ آئے ہوئے جوانوں کو حقیقتاً اٹھا دیا۔ 
11:30 بجے سر عابد، سید انیس اور فواد نصیر کی آمد پر پروگرام کا با قاعدہ آغاز کیا گیا۔
میرا قطعاً ارادہ نہیں تھا کہ پروگرام کی بھی تفصیل لکھوں گی لیکن مجھ سے رہا نہیں جا رہا۔ چلیں مختصراً بیان کیے دیتی ہوں۔  
سلمان نے انتہائی خوش الہانی سے قرآنِ مجید کی تلاوت کی۔ حمنہ جن کا تعلق تو ملتان سے ہے لیکن اس وقت اپنی تعلیم کے لیے فیصل آباد میں رہائش پذیر ہیں، نے اپنی خوبصورت آواز میں نعتِ رسولِ مقبولؐ سے ہمارے دلوں کو معطر کیا۔ شہباز ارشاد(رہبر) نے پازیٹو پاکستان کا جبکہ مہران مختار نے سائیبریگیڈ کا تعارف کروایا۔ اس کے بعد ولید اصغر حسینی، فواد نصیر، سید انیس، سر عابد اور مہمانِ خصوصی فرخ حبیب نے مختلف موضوعات پر اظہارِ خیال کیا۔
پروگرام کے دوران سرائیکی، پختون اور گلگتی کلچرل ڈانس بھی دکھایا گیا۔ کوئی شک نہیں کے منتظمین نے سب انتظامات بہت اچھے کیے ہوئے تھے۔ اور آنے والے مہمانوں نے بہت کچھ سیکھا کیونکہ ہمارا پروگرام " entrepreneurship اور فورتھ انڈسٹریل ریوولوشنز" کے متعلق تھا۔
پروگرام کے اختتام پر ارادہ کیا گیا کہ سب منتظمین کھانا باہر کھائیں گے(😜) بھلا ایسی بات پہ کون خوش نہ ہوتا سبھی تیار بیٹھے تھے۔ کہیں سے آواز آئی کہ سحرش اور سیماب شہباز بھائی کی گاڑی میں پہنچ جاؤ، ہم باہر نکلے اور اتنے میں سر عابد اور ولید صاحب بھی آگئے اور ہم نے ہزارہ ہوٹل کی طرف رختِ سفر باندھا۔ 
راستے میں پُر مزاح گفتگو چلتی رہی اور ساتھ ساتھ مجھے فیصل آباد کے راستوں سے روشناس بھی کروایا جاتا رہا۔
وہاں پہنچ کے مرد حضرات الگ اور ہم دوشیزائیں الگ بیٹھ گئیں😜۔ کھانے میں قیمہ، مکس سبزی اور ہزارہ ہوٹل کی مشہور دال منگوائی گئی۔ ساتھ ہی ولید صاحب تشریف لائے اور مجھے یاد کروایا کہ 8 ڈشیز ہو گئی ہیں بشمول صبح کیے ہوئے ناشتے اور ایک دن پہلے کھائے ہوئے منچورین اور چکن اچاری کا ایک دفع پھر وہاں موجود سب لوگوں کو سیور کھلانے والی زیادتی کا قصہ سنایا گیا۔ وہاں موجود سب لڑکیوں نے مجھے یوں دیکھا جیسے پتہ نہیں ہم کیا عجیب چیز کھلاتے ہیں😥 (آخر کو منظر کشی ہی ایسی ہوئی)۔ لیکن ہزارہ ہوٹل کا کھانا لذیذ تھا یا شاید بھوک کی شدت تھی۔😜
کھانا کھانے کے بعد سب کو الوداع کہا اور ہم (بیلا، میں، سر عابد، ولید اور عدنان) گھنٹا گھر کی طرف چل پڑے۔ پیدل جاتے ہوئے بیلا اور سر عابد کسی اہم مسئلے پہ گفت و شنید میں مگن تھے اور ولید صاحب گائیڈ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ گھنٹا گھر پہنچنے تک مجھے فیصل آباد کی تاریخ بتائی جا چکی تھی کچھ مقامات پہ سر بھی اپنے شہر کا تعارف کرواتے رہے۔ ایک دفعہ تو ایسا لگا میں کہیں باہر سے پاکستان دیکھنے آئی ہوں۔
گھنٹا گھر پہنچنے پر مجھے وہاں کے آٹھ بازاروں کا تعارف کروایا گیا ( امین پور بازار، کچہری بازار، کارخانہ بازار، جھنگ بازار، ریل بازار، چنیوٹ بازار، مینٹگومری بازار اور ایک کا نام میں بھول گئی)۔ اسی دوران بیلا نے آئس کریم کھلانے کا اعلان کیا، آواز اتنی اونچی تو نہیں تھی پھر بھی ارسلان بھائی تک نجانے کیسے پہنچ گئی🤭 ہم سب بشمول مہران بٹ آئس کریم گئے اور وہاں کی لذیذ آئس کریم اہلِ ذوق لوگوں کی خوبصورت شاعری اور ادبی گفتگو کے ساتھ کھائی۔
 کھلی آنکھوں سے سونے کا تجربہ... 
ہم مزیدار آئس کریم سے لطف اندوز ہو چکے تو کھاری صاحب کو کہیں کام سے جانا تھا جس کے لیے وہ مہران کو لے کر نکلے، عدنان اور ارسلان بھائی کو بھی شاید ہاسٹل جانا تھا، ایونٹ کی وجہ سے سب تھک چکے تھے تو وہ بھی چلے گئے۔ پیچھے رہ گئے میں، بیلا اور ولید صاحب.. دراصل وہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ میں شکوہ کروں کہ مجھے فیصل آباد دکھانے کے بجائے جلد ہاسٹل میں قید کر دیا گیا۔ اسی لیے ہم وہاں ہی محوِ گفتگو ہو گئے۔ آغاز ہوا UAF سے اس کی تعریفیں شروع ہوئیں پھر FLF ( فیصل آباد لیٹریچر فیسٹیول) کی کہانی وہاں آئے ہوئے مہمانوں کا ذکر(جن کو صرف وہ دونوں جانتے تھے، مجھے کیا خبر🙄) اچانک خیال آیا سحرش بھی تو ساتھ ہے۔
بیلا: تم بور تو نہیں ہو رہی۔
میں: نہیں نہیں میں تو enjoy کر رہی ہوں۔
ولید: نہیں تم بور ہو رہی ہو تو بتا دو۔
بیلا: اچھا اب کوئی اور بات کر لیتے ہیں۔
اور پھر شہر کے شعراء کا ذکر ہوا۔ ارے حافی کیا لکھتا ہے، اف عمیر نجمی کے تو کیا کہنے، تم نے وہ شعر سنا (اب شعر تو مجھے یاد رہتے نہیں🤫) جون جیسا انداز تو کسی کا ہے ہی نہیں، سحرش تمہیں پتا ہے یہ سارے بڑے بڑے شاعر اور ادیب فیصل آباد سے ہی تو ہیں اور میرے جوابات اچھا، ارے واہ، گریٹ (اب اور کیا کہتی.. )
مذاق اپنی جگہ میں محظوظ ہو رہی تھی گفتگو سن کے (اچھی سامع جو ہوئی) لیکن بور بھی بہت ہوئی😜 اس کے بعد خیال آہی گیا اور ایک قصہ شروع ہوا جو دونوں مل کے مجھے سنا رہے تھے ( دوست کی یاد آرہی تھی نا😉)
جاری ہے... 
سحرش امتیاز 
ایمبیسڈر پازیٹو پاکستان 

قائد کا پاکستان

بے اثر ہو گئے سب حرف و نوا تیرے بعد
کیا کہیں دل کا جو احوال ہوا تیرے بعد
تو بھی دیکھے تو ذرا دیر کو پہچان نہ پائے
ایسی بدلی تیرے کُوچے کی فضا تیرے بعد
اور تو کیا کسی پیماں کی حفاظت ہوتی 
ہم سے اک خواب سنبھالا نہ گیا تیرے بعد
وقت کسی کا نہیں ہوتا اور کبھی کسی کے لیے نہیں رکتا، کوئی امیر ہو یا غریب، بچہ ہو یا بڑا سب کے لیے وہی 24 گھنٹے ہوتے ہیں۔ لیکن یہی 24 گھنٹے کسی کو بہت زیادہ اور کسی کو بہت کم لگتے ہیں۔
وقت کا کم یا زیادہ ہونا اس کے صحیح استعمال پہ منحصر ہے۔ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو ان چوبیس گھنٹوں کا صحیح استعمال کرتے ہیں...بروقت فیصلے کرتے ہیں اور اپنی خواہشات سے زیادہ مقدم اپنی قوم، ملک اور آنے والی نسلوں کی بہتری کو رکھتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں تاریخ کا باب سنہرے الفاظ میں یاد رکھتا ہے۔
انہی لوگوں میں قائداعظم محمد علی جناح کا نام سرِ فہرست ہے جنہوں نے اپنی قوم کے لیے اپنے وقت کا صحیح استعمال کیا، ڈٹ کے آنے والی مشکلات کا سامنا کیا۔ کیونکہ کامیابی مسلسل محنت اور وقت کے صحیح استعمال سے ہی ممکن ہے۔
اُس ملک کا خواب دیکھا جہاں مسلمان سکون سے رہیں، اسلامی اقدار کا تحفظ ہو، امن ہو، انصاف ہو.....لیکن نہیں! یہاں تو نوجوان نسل مغربی دنیا کی دلدادہ ہو گئی ہے ان کا اوڑھنا، بچھونا، کھانا پینا سب مغربی ہے جس کو اس وقت وہ ماڈرنزم (modernism) کا نام دے رہے ہیں۔ تو کہاں گیا وہ ملک جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا جسے تعبیر قائد نے دی تھی۔
ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا...اب بھی غفلت کی نیند سے جاگو... اس سے پہلے کہ اس اسلامی مملکت میں کچھ بھی ویسا نہ رہے جو اس کے حاصل کرنے کی وجہ تھی۔ جس کے لیے ہزاروں جانیں قربان ہوئیں، بہنوں کی عزتیں لٹیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔
آئیں آج کے دن عہد کرتے ہیں کہ پاکستان کی حفاظت کریں گے، ان اقدار کی حفاظت کریں گے جو اس کی وجۂ تخلیق ہیں۔ پاکستانی ہونے کا حق ادا کریں گے اور اپنے اجداد کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
سحرش امتیاز 
ایمبیسیڈر پازیٹو پاکستان 

Sunday 23 December 2018

سفرنامہ (حصہ اول) - جگتوں کی سرزمین

زندگی کے طویل سفر  میں ایک چھوٹے سفر کا اضافہ ہوا۔جی ہاں میں فیصل آباد کے سفر کی بات کر رہی ہوں۔
فیصل آباد جانا تھا اور یہ طے ہی نہیں ہو پا رہا تھا کہ کب نکلنا ہے۔ خیر آفس گئی اور فیصلہ یہ ہوا کہ ہم شام 4 بجے نکلیں گے۔ میں بھی پرسکون ہوگئی، کوئی تیاری بھی نہیں کی اور لمبی تان کر سو گئی۔ 
صبح آنکھ کھلی تو خبر ہوئی کہ کافی دیر ہو چکی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ مجھے 4 کی بجائے 1 بجے نکلنا تھا۔  
راستے میں ایک خاتون جو غالباً کسی اسکول کی استانی تھیں میری ساتھ والی نشست پہ براجمان تھیں۔ انھیں کہا کہ کھڑکی والی نشست میری ہے لہذا بیٹھنے دیں جواباً انھوں نے اپنی میڈیکل رپورٹ سنانی شروع کر دی اور مجھے اپنی معصومانہ خواہش دل میں ہی دبانا پڑی۔ اب انھوں نے سو کے اور میں نے بور ہو کے سفر گزارنا تھا۔ پھر میں نے اپنی سوچوں کی پٹاری کھولی اور کھو گئی تخیل کے حسین موسموں اور دلکش وادیوں میں۔ 
اچانک فون بج اٹھا ولید صاحب کی کال تھی، جگہ کا پوچھا کہ کہاں پہنچی ہو لیکن مجھے تو خبر ہی نہیں تھی
خیر اندازاً انھیں کچھ جگہ کا بتایا جس سے مجھے پتا چلا کہ میں نزدیک پہنچ چکی ہوں۔ سر ولید اور مہران مجھے رسیو کرنے اسٹاپ پہ موجود تھے۔ جہاں سے ہم ریڈ بیری پہنچے۔ بیلا اور عبدالرزاق (زید بھائی آف فیصل آباد )🙊 بھی کچھ ہی دیر میں آگئے اور گپ شپ کے ساتھ اگلے دن کی کمپیئرنگ کو حتمی شکل دی گئی۔ آخر کو  فیصل آباد والوں کی خاص تقریب تھی۔ اسی دوران سوچا جانے لگا کہ کھانا کہاں کھایا جائے اور ساتھ ہی ولید صاحب کو یاد آیا کہ ان کے اسلام آباد آنے پہ انھیں صرف savour یا حلیم گھر ہی لے کر جایا جاتا ہے پتا نہیں وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم انھیں lasania اور بٹ کڑاھی بھی لے کر جاتے ہیں(اچھائی یاد ہی کون رکھتا ہے😜) ویسے بھی اس میں قصور رہبرز کا ہے مجھ معصوم کا نہیں🙊۔ اور انہیں کیا خبر ہماری تو پسندیدہ چیزیں ہیں یہ😉۔ اس دوران بیلا اور مہران ہنسنے کے فرائض سر انجام دے رہے تھے اور عبدالرزاق باتوں کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف تھا 😜 خیر ہم نے آل طیبہ پہ کھانا کھایا اور میں بیلا کے ساتھ اس کے ہاسٹل آگئی جہاں میرا استقبال ان الفاظ کے ساتھ ہوا " hey sweetie جگتوں کی سرزمین پہ خوش آمدید " 😍 ۔ یعنی میں تیار ہو جاؤں جگتوں کے لیے🙈۔ 
ارے یاد آیا ہاسٹل آتے ہی سیماب مجھے بہت محبت سے گلے لگ کے ملیا اور جس سیماب کو میں جانتی تھی یہ تو اس سے بہت مختلف تھی اور تبھی مجھے احساس ہوا اس پہ تو بیلا نام زیادہ جچتا ہے۔ 💕
یوں باتوں باتوں میں سونے کا وقت ہو گیا اور میں بھی سونے کی کوشش کرنے لگی لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ 
ایک نئی صبح... 
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں 
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں
بلکل ایسا ہی ہے.. یہ قسمت ہی تھی اور میں نے اتنے اچھے لوگوں سے ملنا تھا جو اچانک ارادہ کیا اور فیصل آباد کے تین دن کے سفر پر روانہ ہوگئی ورنہ مجھے تو ایک دن کی اجازت ملنا بھی گویا ناممکن تھا۔
 اگلی صبح 7 بجے کے قریب آنکھ کھلی بیلا اٹھ چکی تھی اور میرے اٹھنے کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ ہمیں بیلا کے اسکول جانا تھا۔ میں اٹھی تو بیلا ناشتہ کا مینو طے کرنے لگی اور کچھ ہی دیر میں فروا (بیلا کی ایک خوش مزاج دوست) ہمارے لیے سینڈویچز، انڈے، فروٹ کیک اور چائے لے آئی(یعنی ہاسٹل میں بھی اتنا اہتمام)  اور ہم نے مل کے ناشتہ کیا فروا کا اسکول جانے کا ارادہ نہیں تھا، ہمیں امید تھی کہ وہ ہمارے ایونٹ پہ ضرور آئے گی لیکن دھوکا ہو گیا😜۔ 
بیلا کو 8:30 بجے اسکول پہنچنا تھا، ہم جلدی سے تیار ہوئے اور نکل پڑے۔ ہلکی دھند اورخنک ہَوا ایک الگ ہی منظر پیش کر رہی تھی (بہت عرصے بعد صبح باہر نکلی تھی نا)۔ راستہ تھوڑا سا لمبا تھا اور بیلا نے بتایا کہ وہ روز چل کے آتی ہے میں اب تک پریشان ہوں کہ آخر وہ سمارٹ کیوں نہیں ہوئی🤔 ارے نہیں ویسے وہ بہت سمارٹ ہے میں تو کمزور ہونے کی بات کر رہی🤭
وہاں بیلا کے پرنسپل ملے یقین جانیں مجھے لگا میں عثمان بھائی (عثمان رضا جولاہا) کا مستقبل دیکھ رہی ہوں😜 دراصل ان کے بات کرنے کا انداز ایسا تھا۔ انھوں نے مجھ سے میرے گاؤں کا نام پوچھا اور ساری ہسٹری انھوں نے بتائی۔ ویسے ایک الگ ہی قسم کے انسان تھے، خوش مزاج، ہنس مکھ لیکن بہت گہرے۔ انھوں نے بتایا سیماب یہاں استانی نہیں میڈم ہے (یعنی کوآرڈینیٹر😉۔ آخر دوست کس کی ہے🤭) ۔
وہاں سے ہم 10 بجے ایونٹ پہ جانے کے لیے نکلے ہمیں کنال روڈ جانا تھا یعنی اس روڈ کے پاس کنال تھی تبھی تو یہ نام رکھا گیا۔ اور ہم 10:30 بجے FCCI پہنچے۔
جاری ہے....

سحرش امتیاز 
ایمبیسیڈر پازیٹو پاکستان 

آوازوں کے ہجوم میں کچھ قیمتی آوازیں

مگر ہم مصر تھے کہ ہم نے کتابیں بہت پڑھ رکھی ہیں....
بڑوں نے کہا بھی کہ دیکھو میاں تجربہ تجربہ ہے!
جواد شیخ کا یہ خوبصورت شعر بڑے سچّے شعروں میں سے ہے....♥ اور میرا پسندیدہ بھی...
شام ایک دوست سے ملنے گئی تو اس کی والدہ سے گپ شپ ہونے لگی....خالہ جان مجھ سے چھوٹی چھوٹی باتیں پوچھ رہی تھیں...کس گاؤں سے ہو...کیسا ہے...وغیرہ...میں جواب دیتی تو انہیں اس سے متعلق اپنی کوئی بات یاد آجاتی...اپنے بچپن...لڑکپن...جوانی کی....اور وہ مجھے اپنے گئے دنوں کے قصے سنانے لگیں....
بیتے وقت کی باتیں کرتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں بے پناہ چمک اور چہرے پہ اتنی نرم مسکان تھی کہ میں اپنی باتیں روک کر قصداً اُن سے ان کے بارے میں سوال کرنے لگی..🙂
بڑی عمر کے افراد خصوصاً بزرگ...دادا دادی نانا نانی یا کوئی بھی بوڑھا فرد ہو...ان سے باتیں کرنے سے زیادہ سنا کریں..ان کے بچپن کے قصے..پرانے دور کے حالات و واقعات..کہانیاں..داستانیں..اور تجربے...💕
میں کبھی دادی اماں کے پاس بیٹھوں تو ریکارڈر آن کر لیتی ہوں....وہ بیتے وقت کی باتیں سناتی ہیں....تحریکِ پاکستان کا دور...اور اس سے پہلے کی کہانیاں....پھر اپنی زندگی کے سیکھے گئے اسباق....تجربوں کے نچوڑ....اور کچھ حاصلِ عمر باتیں....💖
اگر آپ کے آنگن میں کوئی بزرگ پیڑ ہے تو آپ بڑے نصیبوں والے ہیں.....ورنہ سچ پوچھیے...
اب تو وہ نسل بھی معدوم ہوئی جاتی ہے
جو بتاتی تھی فسادات سے پہلے کیا تھا
(شناور اسحاق)
یہ بڑی قیمتی آوازیں ہیں...💖
انہیں توجہ سے سنیے....ورنہ انہیں سننے کو کان ترس جائیں گے....
سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Saturday 22 December 2018

پازیٹو پاکستان

پاکستان میں معاشرتی بہتری، مرتبۂ عمل، سیاحت،  نفس، شخصی تحسین کو اجاگر کرنے اور نوجوانوں میں جذبۂ حب الوطنی جیسے حساس نظریوں پر کام کرنے کے لیے مختلف ناموں سے تنظیموں کی بنیاد رکھی گئی لیکن محدود اغراض و مقاصد کی وجہ سے استحصال کی جانب بڑھتے گئے اور کچھ نے سیاست کو پہنائے خواہش رکھا اور کچھ تو وسائل کی نا امیدی میں درکِ اسفل کی نظر ہوئیں۔
باوجود اسکے کہ فلاحی و سماجی سوچ استحکام کی طرف بڑھتی گئی اسکی خاصی وجہ یہ تھی کہ معاشرتی بہود کے لیے کچھ کرنے کا جنون کچھ لوگوں کا رختِ سفر رہا۔
سیاسی و مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی رکنیت میرے لیے طرّہ امتیاز ہے۔ اسکے سبب مجھے مختلف پلیٹ فارمز پر عملی کام کا موقع ملا اور خندہ دلی سے کام کیا اور بفضلِ اللہ تعالٰی حسبِ توفیق مصروفِ عمل بھی ہوں۔
سب کچھ اچھا ہونے کے باوجود قلبی تسکین میسر نہ تھی کیونکہ خواہش یہ تھی کہ معاشرے کے بگڑتے عکس کے ذمہّ دار ہم نوجوان طبقہ ہیں، بس خواہش تھی کہ مستحکم ادارہ ہو جو نوجوانوں میں شعور، تخلیقی سوچ، آدابِ معاشرت اور کچھ کرنے کے لیے آگے بڑھنے جیسے معاملات میں رہنمائی کرے۔
حلقہِ احباب کے توسط سے میری ملاقات شاعرِ مشرق اور خودی کی سوچ میں میرے مرشد علامہ اقبال کے شاہین اور میں کہونگا کہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی فہمی سوچ میں مستغرق صدر پازٹیو پاکستان محترم عابد اقبال کھاری صاحب سے ہوئی۔
آپ پازیٹو پاکستان کے نام سے تمام مسلکی، لسانی، تعصبات سے در کنار نوجوانوں کی تربیتی نیٹورک چلاتے ہیں۔ آپ سادہ طبیعت اور نفیس شخصیت ہیں جس کی بدولت اللہ رب العزت نے بہت نوازا ہے۔۔محترم اقبال کھاری صاحب نوجوانوں میں عقابی روح دیکھنا چاہتے ہیں اور حدِ لا متناہی تک تربیت کی سیڑھی پار کرانا چاہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں آپ کے مدلل پُرمغز خطابات اور آپکی سوچ  پازیٹو پاکستان کی شکل میں نوجوان نسل کے لیے گلدستہ ہیں جس کی خوشبو تسکینِ ِقلب ہے۔
یقیناً ابتدائی ملاقات تعرفاً ہوتی ہے کچھ عرصہ نظر میں رکھنے کے بعد پازیٹو پاکستان کو پرکھنے سے نتیجتاً اخذ یہ ہوا کہ جو لوگ علامہ اقبال کی سوچ پر گامزن ہیں وہ ضرور مضبوط نظریات کے وارث ہونگے۔
رکنیت حاصل کرنے کے بعد مختلف قسم کی تربیتی نشستیں اور سیمیناروں میں شرکت سے محسوس ہوا کہ دیر آید درست آید۔
پازیٹو پاکستان یقیناً تربیت کی گلشن سے مہکتی خوشبو کی مانند ہے جو بلاتفریق و تمیز سب کو مہکاتی ہے ۔ نوجوان نسل کی معاشرتی تربیت میں کوشاں پازیٹو پاکستان کی ٹیم قابلِ تحسین ہے۔
میں ضمناً یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سربراہ پاکستان سنی تحریک انجینئر محمد ثروت اعجاز قادری صاحب کے بعد میرے لیے آئیدیل کردار صدر پازیٹو پاکستان عابد اقبال کھاری صاحب ہے کیونکہ آپ تخلیقی سوچ کے مالک اور امت کے ہر فرد سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔
پازیٹو پاکستان چاروں صوبوں کا مشترکہ فارم ہے جہاں تربیت کے ساتھ ساتھ قائدانہ صلاحیتوں سمیت کئی اصولی نظریات سے روشناس کرایا جاتا ہے جوکہ قابلِ تعریف ہیں۔
اسلامی معاشروں کی بنیادوں میں بھی سب سے بڑا کردار آدابِ معاشرت کا ہے۔ معاشرے بنتے بھی باہمی تعاون سے، محبت و اخلاص اور بھائی چارہ سے ہیں۔ ہر مسلمان پر حق ہے کہ وہ معاشرتی رہن سہن میں تعاون کرے، یقیناً فرداً فرداً یہ عمل ممکن ہے لیکن محدود اس لئے کہ جو کام پانچ انگلیاں کر سکتی ہیں وہ ایک نہیں۔
تو ان دشواریوں سے بچنے کے لیے پازیٹو پاکستان جیسے  پلیٹ فارمز ہیں جہاں تربیت کے ساتھ شخصی تعاون سے بول چال، میل جول، مدلل گفتگو، قومی معاملات، تعلیم و تربیت جیسے معاملات میں نکھار لایا جاتا ہے۔
پازیٹو پاکستان میرے لیے ایک کتاب ہے جس کا ہر صفحہ کوئی نہ کوئی سبق دیتا ہے تو میں لازم سمجھوں گا کہ اس کتاب کو ضرور پڑھیں یعنی معاشرتی تربیت کے اس گہوارے کا حصّہ ضرور بنیں۔
شکریہ پازیٹو پاکستان
⁩نجیب زہری
ہیڈ علماءونگ اور ایمبیسڈر پازیٹو پاکستان

Thursday 20 December 2018

آدمی آدمی کا مرہم ہے

لوگ لوگوں کا مرہم ہوتے ہیں....سانجھ کی برکتیں بڑی ہیں....
پیپل کی چھاوں کے نیچے بچھے بان کے پلنگ پہ بیٹھے گاوں کے بوڑھے داستان کی ابتدا ہیں....حقہ گڑگڑاتے...اور حقے کی نال باری باری سب میں گھومتی تو گویا بات کا ہر زاویہ کُھلتا....❣
چائے خانوں میں ہونے والی نشستیں....گرما گرم چائے کے ساتھ ہونے والی بحثیں....ادب...شعر....گفتگو کی کئی جہتیں.....ایک اور داستان...❣
خاندانی تقریبات میں اکٹھے ہونے والے تمام رشتہ دار....بچوں کا الگ گروپ...نوجوانوں کی الگ اور بڑوں کی الگ بیٹھک....چہروں سے پھوٹتی خوشی...باتوں کی مہک....قہقہے....دکھ سکھ....ایک الگ قصہ❣
یار دوست....یونیورسٹی....اور اس کی شامیں....دوستوں کی محفلیں...ہنسی...بے فکری...اور خول سے باہر آ کرجینا....بے ساختہ جملے....بغیر سوچے باتیں....ایک نئی کہانی❣
لوگوں میں بیٹھیں....محفلوں سے سیکھیں....نشستوں کا لطف اٹھائیں....یہاں زندگی سیکھنے کو ملتی ہے....💖
وہ....جو کتابوں میں نہیں ملتی..تجربوں کا سرمایہ لیے بزرگ.....مختلف مزاجوں کے لوگ...طرح طرح کی رائے...اختلاف رائے کا احترام کرنا آجاتا ہے....ہر ڈھنگ کے موضوعات....
ٹیکنالوجی بری نہیں....مگر تب تک...جب تک آدمی آپ کی نظر میں اُس سے زیادہ اہم رہے...!!
ورنہ...اقبال کا کہا سچ ہو جائے گا....کہ
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت...
احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات!
لوگوں سے جُڑیے کہ یہ میرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے!!

سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Wednesday 19 December 2018

آدھی قیمت ہم دیں گے

پچھلے سال جب میں گوجرانوالہ تھی تو sage کےپوسٹر راہوالی کی سڑکوں پہ روزانہ سفر کے دوران میری نظر سے گزرتے تھے..... ( sage کوئی برینڈ ہے معلوم نہیں کپڑوں کا یا جوتوں کا...کہ اپنی معلومات اس معاملے میں صفر ہیں).
اُن پوسٹرز پہ ایک جملہ لکھا ہوتا تھا...
"آدھی قیمت ہم دیں گے"...
 پہلی بار جب میری نظر پڑی تو اس جملے نے مجھے بہت متاثر کیا♥
اور خصوصاً اس بات نے کہ یہ آفر تو ہر برینڈ سال میں ایک دو بار دیتا ہے....50% سیل....
لیکن یہ جملہ بڑا موثر اور اپنایت والا تھا...گویا وہ ہماری خریداری میں آدھے پیسے جیب سے چُکائیں گے...🙂🙃
حروفِ تہجی تو وہی 38 ہیں مگر ان کی ترتیب سے جو جملے بنتے ہیں ان میں کچھ الفاظ بڑے موثر ہوتے ہیں....💖
بات کا بھی ایک ذائقہ ہوتا ہے....اور لہجہ اس میں نمک کی طرح ہوتا ہےء....ایک دم متناسب ہو تو ذائقہ پرفیکٹ....اور ذرا سا کم زیادہ ہو جائے تو کھانے کا مزا کرکرا....
متناسب بات کا ہنر بھی ایک آرٹ ہے....کہاں کم بولنا ہے کہاں زیادہ....کہاں اونچا کہاں آہستہ....اور پھر کہاں بولنا ہے کہاں نہیں...
الفاظ کا چناو کس موقع پہ کیسا ہو....پھر لہجے اور بات کا کمبینیشن کیسا ہو....
گفتگو ہماری عکّاس ہوتی ہے....اور مخاطب پہ گہرا اثر چھوڑے بغیر نہیں جاتی....
خدا ہماری بات کو مرہم بنائے...زخم نہ بننے دے....

سیماب عارف
ایڈیٹر ای- میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Tuesday 18 December 2018

راستہ باقی رہے...

بچپن میں جب ریل گاڑی پہ کراچی سے پنجاب کا سفر کیا کرتے تھے....تو اتنی دلچسپی پنجاب پہنچنے میں نہیں ہوتی تھی...جتنی سفر میں ہوتی تھی....ریل کی چھک چھک...دلکش مناظر...کھڑکی والی سیٹ کی لڑائی....خوانچہ فروشوں کی آوازیں....سٹیشن....گاڑی رُکنے اور چلنے کی وسل.....اور کبھی کبھی پچھلی برتھ پہ سوئے ہوئے بچے کی مہربانی سے اگلی سیٹ پہ ہونے والی ناگہانی بارش....😂
غرض کہ ٹرین سے جُڑی ڈھیر ساری چیزیں.....
کبھی کبھی کچھ راستے بذاتِ خود منزل سے اہم ہوتے ہیں....راستہ طے کرنے کا لطف منزل کو پالینے سے زیادہ ہو جاتا ہے....زندگی کے راستے میں  اہم یہ ہے کہ ہم صحیح سمت میں ہوں.....منزل کب کہاں کیسے ملے گی...اُسے متعین تو ضرور کریں....مگر اُسے "حاصل نہ بنائیں....حاصل...آپ کا راستہ ہے...آپ کی کوشش....آپ کی لگن.....پہنچنا نہ پہنچنا آپ کے اختیار میں نہیں....یہ اُس کے اختیار میں ہے جس کا راستہ ہے....💕
وہ چاہے گا تو یہ بھی ہوسکتا ہے....ایک ہی جست میں یہ حدود اربع سمیٹ دے....اور چاہے تو عمر راستے میں ہی تمام ہوجائے....
کچھ بھی ہو پر سمت کے تعیّن میں یہ غلطی نہ ہو کہ....
جنہیں راستے میں پتہ چلا کہ یہ راستہ کوئی اور ہے...💔
خدا ہمیں صراطِ مستقیم پہ چلائے...اور پھر قائم بھی رکھے!!
ہر ابنِ آدم کی خیر ہو....

سیاب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Wednesday 12 December 2018

رستے اور رشتے

مسافروں کو یہ رستے بھی یاد رکھتے ہیں
ابھی فلاں نہیں گزرا، ابھی فلاں گزرا...
کاشف حسین غائر کا ایک خوبصورت شعر نظر سے گزرا..
یہ راستے..گلیاں....مکان...درودیوار....ان کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے.....
گاوں اس معاملے میں فوٹوگرافک میموری کے مالک ہیں..شہر اکثر بھول جاتے ہیں..شہر پہ بہت محنت کرنا پڑتی ہے....تعلق بنانے کے لیے.. 
گاؤں ماں جیسے ہوتے ہیں..اولاد جیسی بھی ہو...ماں کی آغوش اسے سمیٹنے کے لیے ہمیشہ موجود ہوتی ہے..
زندگی میں کہیں بھی کسی بھی جگہ چلے جائیں..اپنی جڑوں سے خود کو ٹوٹنے مت دیں...جڑوں سے کٹے ہوئے تنے کھڑے نہیں رہ سکتے..
ان آبائی مکانوں میں رہنے والے آپ کے پرکھوں کی محبت..ماں باپ...بہن بھائی....اور آنگن میں لگے سایہ دار پیڑ جیسے بوڑھے بزرگ..♥ خود کو ان سب سے جوڑے رکھیں...رشتے نبھائیں...تعلق کی گانٹھ ٹوٹنے نہ دیں کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"قطع تعلق کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا"
خدا دلوں کی سختی سے بچائے..امین
سیماب عارف
رہبر پازیٹو پاکستان 

Tuesday 11 December 2018

Letters to Lord

بچپن میں کہیں دینیات کی کتاب میں پڑھا تھا کہ جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو اللّٰہ سے مانگو..
کسی چیزکی ضرورت پڑی تو اُس نے سوچا اللّٰہ سے مانگنا ہے....ننھا دماغ سوال کرنے لگا...اللّٰہ سے ملنا ہے..فلاں چیزچاہئیے..کیسے ملوں؟ 
سوال سننے والے کسی سیانے نے کہا...ابھی تم اس کے گھر نہیں جاسکتی..خط لکھ کے بھیج دو..
ننھے دماغ نے بات نوٹ کر لی...اور خط لکھ کے دیا کہ یہ پہنچادیں...شایدپہنچادیا گیا...تبھی تو اسی شام اس کا کام ہوگیا تھا..
پھر کیا تھا...بس...پکا کرلیا....جب کوئی فرمائش ہوئی فوراً چٹھی لکھنے بیٹھ گئے...عمر کے تھال میں سالوں کے دانے گرتے رہے مگر ننھا دماغ "آدھی ملاقات" میں اٹکا رہا...
کوئی ضرورت پڑی...غصہ آیا...جذباتی ہوئے...لڑنے لگے...یا شکایت لگانی ہوئی...فورآً سے خط لکھنے بیٹھ گئے..
میں اُس ننھے دماغ کی اختراع پہ بہت ہنستی ہوں....مگر کبھی کبھی cute سی بات لگتی ہے....کہ ہر شکایت لیے اللہ میاں کے ہاں پہنچ گئے 😄
کبھی کبھی میں بھی اُس کا طریقہ ٹرائے (try) کرتی ہوں...کبھی آپ بھی کر کے دیکھیے گا....دلچسپ ہے!!
سیماب عارف
رہبر پازیٹو پاکستان 

Monday 10 December 2018

بارش اور آنسو (توبہ کے قاصد)

سویرے جب آنکھ کھلی اور فرضِ "غیر کفایہ" سمجھتے ہوئے ہم نے پہلا کام سوشل میڈیا کنگھالنے کا کیا تو فیس بک اور واٹس ایپ کی گلیوں میں جگہ جگہ پانی کھڑا نظر آیا....معلوم یہ ہوا کہ گزشتہ شب دسمبر کی پہلی بارش اور دسمبری شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے...
کھڑکی کھول کے باہر جھانکا تو آسمان پہ بھی ابھی اس واردات کے آثار باقی تھے..
ہم نے بھی ناصر کاظمی کو یاد کیا اور گنگنانے لگے..
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا... 
پہلی بارش بھیجنے والے.. 
میں تیرے درشن کا پیاسا تھا.. 
بارش ہوں یا آنسو(مگر مچھ کو نکال کر) بہت سے گرد وغبار کو دھو جاتے ہیں..
دل بھی آئینے کی طرح ہوتے ہیں جن سے مسلسل گرد صاف کرنا اور انہیں عجز کے آنسووں سے دھوتے رہنا بہت ضروری ہے....ورنہ روح اندر سے گل سڑ جاتی ہے..
آنسو بھی عجیب چیز ہیں..
آنکھوں کو شفاف اور زرخیز رکھنے والی بارانِ رحمت..💕
رات کی تاریکی میں پڑنے والی وہ شبنم..جو خدا کو بہت محبوب ہے...💖
وہ قاصد جو توبہ کا پروانہ دستخط کرائے بغیر نہیں لوٹتے..♥
دل کو روئی کے گالے کی طرح ہلکا پھلکا کر دینے والے..
بس....انہیں بے وقعت جگہوں پہ ضائع نہ کیا جائے...

سیماب عارف
رہبر پازیٹو پاکستان 

اور میں بچ گیا چھلکنے سے

جیسے گلاس لبا لب پانی سے بھرا ہو تو چھلک رہا ہوتا ہے....بالکل ویسے ہی باتیں ہیں....لوگ بولنے کے لیے بے چین ہیں...بھرے پڑے ہیں...چھلک رہے ہیں.....
اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ پانی چھلک کر کہاں گرتا ہے....دھڑا دھڑ منہ سے باتیں گررہی ہیں...کوئی یہاں...تو کوئی وہاں....اور یوں گر پڑنے کی وجہ سے کسی بات کا چہرہ آدھا ہے تو کسی کی ٹانگ ٹوٹی....غرض سب معذور...ادھوری...نامکمل....
گفتگو اگرچہ فن سے پہلے انسان کی جبلّی مجبوری سہی....مگر...
بولنے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں.....!!
استادِ محترم ایک بات کہتے ہیں کہ ریپڈ فائر (Rapid fire) میں صرف گولیاں ضائع جاتی ہیں...نشانہ کہیں نہیں لگتا...."انّے واہ فائر...کوئی مریا اے نئیں مریا....کوئی پرواہ نئیں😄...
✅اپنی گفتگو کو بامقصد...مختصر مگر جامع بنائیں....
✅ جہاں کہہ دینے سے زیادہ چپ رہنا بہتر ہو وہاں زبان روک لیں...
✅ ماحول اور لوگوں کے مزاج کے مطابق گفتگو کیجیے....ورنہ
کہہ دینے سے بات گنوائی....
✅ ہر جگہ خود کو عالم فاضل اور انٹیلیکچوئل ثابت کرنا ضروری نہیں...اگر آپ چار کتابیں پڑھ لیں تو انہیں ہضم کرنا بھی سیکھیں....
✅ بہترین مقرر وہی ہوتا ہے جو بہترین سامع ہوتا ہے.....
ورنہ اندھا دُھند گولیوں میں نشانہ کہیں نہیں لگتا....
مالک ہمیں بامقصد بولنے کی توفیق دے....اور یہ عقل بھی...کہ خاموشی بھی عین عبادت ہے❣
صبح بخیر!
سیماب عارف
رہبر پازیٹو پاکستان 

Monday 3 December 2018

یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو لگتا تھا...اپنا ایک جہان ہے.....
سٹوڈنٹ لائف سے پریکٹیکل لائف (عملی زندگی) میں آئے تو لگا گویا جنت سے دنیا میں اُتارے گئے....
جیسے اپنی ریاست کا کوئی شاہزادہ غدر کے دور میں کسی دوسری ریاست کا بے مول آدمی ہو.....
دنیا آپ کو یونہی ٹریٹ کرتی ہے.....لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہر ابنِ آدم کو جنت سے دنیا میں آنا ہی پڑتا ہے....
اب کریں کیا...؟؟؟
اپنی جنت کو یاد کرتے اور دنیا کے سلوک پہ افسردہ ہو کر اپنی بے قدری کا ماتم کریں؟
نہیں....
اب کریں یہ کہ جو...جیسے حالات آپ کو درپیش ہیں انہی کو مفید بنانے کی کوشش کریں....انہیں ضائع نہ کریں....ممکن ہے یہ آپ کی تجربہ گاہ ہوں.....قدرت کے تکوینی امور آپ نہیں جانتے....کبھی کبھی دنیا کے معیار کے مطابق بظاہر ناکام فرد قدرت نے ایک کارآمد پرزے کی طرح کسی سسٹم میں جوڑا ہوتا ہے....♥
سو' کوشش کیجیے کہ زندگی کی مشین کا ایک کارآمد پرزہ بن کے جیا جائے....یہی اصل کامیابی ہے❣
مالک آپ سے راضی ہو!!
شب بخیر!🙂❣
(تحریر: سیماب عارف)
رہبر پازیٹو پاکستان

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...