Wednesday 26 December 2018

سفرنامہ (حصہ سوم) - عمر و عیار کی زنبیل

عمر و عیار کے قصے تو بچپن میں بہت پڑھے اور تب دل کرتا تھا ایسی ایک زنبیل ہمارے پاس بھی ہو جس میں سے با وقتِ ضرورت سب کچھ نکل آئے۔ سوچا جائے تو بہت سے لوگوں کے پاس یہ زنبیل ہوتی ہے۔ ( زیادہ سوچیں نہیں سمجھ آجائے گی کہ میں نے ایسا کیوں کہا۔)
قصہ بیلا اور ولید صاحب کی زبانی ہی سناتی ہوں آپکو۔
"تم اس سے نہیں ملی، کیا بندہ ہے وہ، سب کا دوست، سب کے لیے اچھا۔ تمھیں پتہ ہے اس کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے، بعض اوقات حل ایسا پیچیدہ ہوتا ہے کہ انسان مسئلہ ہی بھول جائے۔"
میں حیران تھی کہ آخر پازیٹو پاکستان کی اس شخصیت کو جاننے سے میں محروم کیسے رہ گئی۔ ویسے ایک دفعہ میں نے انھیں پازیٹو پاکستان کا حصہ بننے کے لیے میسج ہی کر ڈالا، جانتی ہی نہیں تھی نا تب اور پھر ان کے بتانے پہ جو مجھے شرمندگی ہوئی۔۔
اس کے پاس ایک ایسا *منجن* ہے جس کے ذریعے وہ ہر کام کر اور کروا لیتا ہے😳 وہ سائنسدانوں کے ساتھ سائنس دان، استادوں کے ساتھ استاد، بچوں کے ساتھ بچہ، لڑکیوں کے ساتھ لڑکی🤭 غرض وہ ایک انسان سب کچھ ہے۔ بات فیشن کی ہو یا بزنس کی، سائنس کی ہو یا ریاضی کی اس کو سب پتہ ہوتا ہے۔ کوئی اس کو کوئی کام کہہ دےتو ناممکن ہے کہ وہ انکار کرے۔ دنیا کے ہر کونے میں اس کے دوست موجود ہیں، وہ جہاں جاتا ہے لوگوں کو اپنا بنا لیتا ہے۔
میں تو سوچ میں ہی پڑ گئی کہ وہ انسان ہے یا کیا چیز۔ مطلب عمر و عیار کی زنبیل کی طرح اس کے پاس سے بھی بروقت ہر مسئلے کا حل نکل آتا۔
ایک اور بات یاد آئی... 
فوڈز اینڈ موڈز جہاں سے وہ ہر دفعہ چائے اور سپرنگ رولز ہی لیتے تھے۔ جب وہ کہیں نہ ملتے تو مطلب کسی دوست کے ساتھ وہاں ہی ہوں گے۔ اور اس بات سے ان کے استاد بھی واقف ہو چکے تھے، دراصل وہاں سگنلز نہیں آتے تھے تو جب ان کا فون نہ ملے تو مطلب وہ فوڈز اینڈ موڈز کو رونق بخش رہے ہیں۔😍
اور تو اور ان کی جس کے ساتھ بھی دوستی ہوتی ناممکن تھا کہ اس کی امی کے ساتھ جان پہچان نہ بنائیں۔ مطلب وہ دوستوں کی امیوں (آنٹیوں) کے بھی بہت لاڈلے بن جاتے کیونکہ وہ بیٹھ کے ان کے مسئلے سنتے اور ان کے حل دینے سے بھی باز نہ آتے۔
ارے آپ اب تک سمجھے نہیں میں کس کی بات کر رہی ہوں؟؟
میں کامی بھائی میرا مطلب ہے ڈاکٹر محمد کامران اکرم (برا منا جاتے پورا نام نہ لیا جائے تو) کی بات کر رہی ہوں۔
مجھے سنتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا وہ ایک شخص اکیلا ہی سب کچھ ہے، جو دور جائے تو اس کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جائے اور اس بات کی آکاسی ان کے دوست کا لہجہ کر رہا تھا۔ اچھے دوست بھی بہت بڑی نعمت ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر کامران کے بارے میں بہت کم بتا پائی میں کیونکہ ہمیں سلسلہِ گفتگو منقطع کرنا پڑا تھا، سر عابد کی کال آگئی تھی اور ہمیں اپنی اگلی منزل کی طرف جانا تھا۔ (جب وقت تھا تب یہ لوگ اور باتوں میں جو لگے رہے، اپنا کیتھارسس کرنے کا یہی موقع ملا تھا)
اور لائلپور کی داستان ختم ہونے کو ہے...
سر کی کال آچکی تھی لٰہذا ہم بھی سر کے ایک دوست پازیٹو پاکستان کے سپورٹر جناب فرخ الٰہی صاحب کے گھر جانے کے لیے نکلے۔ جاتے ہوئے بھی کون سا میری جان بخشی ہو، ولید صاحب پہلے مجھے مختلف اطرف میں جاتی سڑکوں کے بارے میں بمع تاریخ بتانے لگے اور جب کچھ نیا نہیں رہا تو مختلف برنڈز کی "دکانوں" کی تعریفیں (مذاق کے طور پر) جو بھی تھا بیلا اور سر ولید کا مجھے اتنا وقت دینا مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔
ہم فاروق صاحب کے گھر پہنچے جہاں ہمارا ہی انتظار ہو رہا تھا اور ہمارے جاتے ہی پہلے طعام پھر کلام والی بات پہ عمل کرتے ہوئے کھانا لگا دیا گیا۔ کھانا بھی کیا کوئی سات طرح کے کھانے تھے، جس کو متنجن یا نولکھا کہا تھا انہوں نے اور ولید صاحب نے وہاں بھی کریڈٹ لیتے ہوئے میری ڈشیز میں اضافہ کیا اور یاد کروایا کہ سیور کے بدلے 15 مختلف طرح کے کھانے کھلا چکے ہیں اور تو اور وہاں تو سر عابد نے بھی ساتھ نہ دیا انہیں یاد بھی کروایا کہ سر واپس آپ نے اسلام آباد ہی جانا ہے لیکن نہیں اس وقت تو وہ فیصل آباد تھے نا😏😏 ۔ فاروق صاحب کی فیملی سے بھی ملاقات ہوئی، ان کی تینوں بیٹیاں بہت اچھی تھیں اور ان کی والدہ بالکل دوستوں جیسی(ان کی پنجابی ذرا مشکل سے سمجھ آ رہی تھی😞) دیر ہو رہی تھی اور ہمیں واپس بھی جانا تھا لٰہذا بیلا نے سر کو یاد کروایا کے ہاسٹل پہنچنا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہمیں کسی کام سے اس تاریخی جگہ جانا تھا جہاں پریزیڈنٹ پازیٹو پاکستان جناب عابد اقبال کھاری نے جنم لیا تھا میرا مطلب ہے سر کے گھر کے پاس سے گزرنا تھا🤭 اور وہاں پہنچ کے سر ولید نے بتایا کہ گاڑی میں بیٹھ کے سر کے گھر کو دیکھنا گستاخی ہے تو میں فوراً نیچے اتر آئی۔ سر کا گھر واقعی خوبصورت تھا جس کی خوبصورتی میں اضافہ دیوار پر لگی سر کے والد صاحب کی تصاویر کر رہی تھی (جیسے فاطمہ جناح یونیورسٹی پہ تصاویر لگی ہیں بالکل ویسے)۔ وہاں سے ہم نے اپنے ہاسٹل کی راہ لی۔
ہاسٹل پہنچے تو سندس(بیلا کی چلبلی سہیلی) ہمارے پاس آئی کہ ہمارا ایونٹ کیسا رہا۔ وہ اتنی معصوم لگتی ہے کہ بس۔ اور مجھے دکھ ہے کہ میں واپسی پہ سندس اور فروا کو مل کے نہیں آ سکی😞
رات پھر سے نیند 3 بجے کے بعد آئی جس کی وجہ سے صبح بھی اٹھنے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ لیکن اٹھنا تو تھا کیونکہ 11 بجے ہمیں میٹنگ کے لیے پہنچنا تھا اور اس سے پہلے فیصل آباد کا مشہور ناشتہ بھی کرنا تھا۔
لیکن تیار ہونے سے پہلے بیلا نے میرے ہاتھ پہ مہندی لگائی، مجھے مہندی بہت پسند ہے تو بھلا میں کیسے انکار کرتی🤭
میں تیار ہونا شروع ہی ہوئی تو کال آئی مہران اور سر ولید ناشتہ کے لیے پہنچ بھی چکے تھے۔ بیلا بھی تیار تھی اور میں۔۔۔۔۔۔۔خیر ہو وہاں پہنچے اور ایک دفعہ پھر مجھے ڈشز گنوائی گئیں، اب تو میں نے خود بھی گننا شروع کر دی تھیں🤭 وہاں سے ہم سر کی بہن جو ایک لکھاری بھی ہیں ان کے گھر گئے وہاں سب رہبرز اور ایمبیسڈرز آچکے تھے۔ ایونٹ پے سب کا موقف لینا تھا اس سے پہلے اپنی روایت کو قائم رکھتے ہوئے تلاوت، ورڈز آف وزڈم اور پھر سب کا تعارف ہوا اس کے بعد سب نے اپنی اپنی رائے دی اور جہاں جہاں اصلاح کی ضروت تھی اس پہ بھی بات کی۔ آخر میں ایونٹ انچارج عدنان صابر کی باری آئی اور مجھے پتہ چلا وہ اپنے نام کی طرح صابر بالکل بھی نہیں ہیں🤭😜 چلیں باقی باتیں رہنے دیتے ہیں۔۔۔۔😄
اب جانے کا وقت ہو رہا تھا سر نے گاڑی نکالی' بیلا کو ٹیوشن جانا تھا(ارے وہی جہاں جاتے ہوئے وہ مختلف تحریریں لکھتی ہے) ہم نے اسے ڈراپ کیا میری سیٹ بُک کروائی جو شام 5:45 کی ہوئی۔ وقت کافی تھا تو سوچا گیا کہ کھانا کھالیا جائے(یعنی گنتی میں اضافہ)  شعیب بھائی کے مشورے پہ عمل کرتے ہوئے ہم سٹون او گئے جہاں کا ماحول کافی اچھا تھا(اسلا مآباد جیسا) وہاں فرائز، سپرنگ رولز اور پیزا منگوایا۔ اب کی بار تو حد ہو گئی ولید صاحب نے کیچپ اور کولڈ ڈرنک کو بھی ڈشز میں گننا شروع کر دیا۔ سر عابد کو بھی خیال آگیا اور ہم نے فیصلہ کیا کہ اب کی بار ہم بھی گن گن کے کھلائیں گے (IUKWIM) 😉 
شعیب بھائی نے کتاب "عورت معمارِانسانیت" تحفے میں دی(خوبصورت تحفہ) وقت کم رہ گیا تھا اور اب تک میں نے فیصل آباد کی سب سے خاص جگہ دیکھی نہیں تھی یعنی UAF. سر عابد، سر ولید، مہران اور میں یونیورسٹی گئے، ارے کیا منظر تھا وہاں کا۔ شام، خاموشی، خنک ہوا، چڑیوں کی چہچاہٹ اور ہر طرف سبزہ۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں یہاں پہلے کیوں نہیں آئی جی چاہا کہ وقت پیچھے چلا جائے اور میں یہاں داخلہ لے لوں لیکن افسوس۔۔۔۔۔۔۔
اب گاڑی کا وقت ہو چکا تھا مجھے سٹاپ پہ ڈراپ کیا گیا اور میں نے واپسی کی راہ لی۔ شعیب بھائی کی دی ہوئی کتاب اچھی ہمسفر ثابت ہوئی۔
یقیناً فیصل آباد کے لوگ صرف جگتوں میں ہی نہیں بلکہ مہمان نوازی اور محبتوں میں بھی ماہر ہیں۔ یہ وہاں کی آب و ہوا کا ہی اثر ہےکہ میرا ایک لمبے عرصے بعد لکھنے کا دل کرنے لگا۔ شاید فیصل آباد کا پہلا اور آخری سفر ہو لیکن ناقابلِ فراموش ہے۔
آپ لوگوں کی محبتوں کو ہمیشہ یاد رکھوں گی۔
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
کون سے آسماں سے آتے ہیں
گل تو اس خاکداں سے آتے ہیں
رنگ ان میں کہاں سے آتے ہیں
تم بھی شاید وہیں سے آئے ہو
اچھے موسم جہاں سے آتے ہیں

شکریہ لائل پور♥♥
سحرش امتیاز
ایمبیسیڈر پازیٹو پاکستان 

8 comments:

  1. Dil aise q kr rha K Ye Safarnama kbi khtm na hu

    ReplyDelete
  2. Sahar bhar dia ha ap ny apny safarnamy me :)

    ReplyDelete
  3. masha Allah lag raha kisi Naseem Hijazi jesey writer ese safar nama likha ha

    ReplyDelete
    Replies
    1. Sir Naseem Hijazi dukhi hojay ga :p

      Delete
    2. Hahahaha... 😂😂
      Don't underestimate your power of pen 😍

      Delete
  4. UAF mein sirf sir aa sakta ha🙈
    Wo be central office of PPk in FSD😂😂

    ReplyDelete

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...