Monday 27 May 2019

یومِ تکبیر

آج سے قریب 21 برس قبل ایک شام اشفاق احمد، منیر احمد خان، ایئر چیف مارشل پرویز مہدی قریشی، ایڈمرل فصیح بخاری، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل جہانگیر کرامت، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، وزیر خزانہ سرتاج عزیز، وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر مشاہد حسین سید، سول و ملٹری قیادت اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت ایک میٹنگ میں اس بات پر غور کر رہے تھے کہ اگر بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب ایٹمی دھماکوں کی صورت میں دیا جاتا ہے تو اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ چند دن قبل جی ایٹ سربراہ کانفرنس نے پاکستان کو اس بات کا اشارہ دے دیا تھا کہ اگر بھارتی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیئے تو پاکستان کو سنگین نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ جن میں عالمی برادری کی طرف سے بائیکاٹ اور پابندیاں شامل تھیں۔
ایسے میں اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر مشاہد حسین سید وہ پہلی آواز بنے جس نے عالمی دباؤ برداشت کر کے ایٹمی دھماکوں کا جواب ایٹمی دھماکوں سے دینے کا مشورہ دیا۔ اور پھر اس میٹنگ میں موجود دیگر لوگوں نے اُن کا ساتھ دیتے ہوئے حکومت کو ایک دلیرانہ فیصلہ کرنے کا مشورہ دیا۔ ایسے میں ایٹمی سائنسدانوں سے جب اُن کی رائے مانگی گئی تو اُنھوں نے یک زباں ہو کر کہا کہ دھماکے کرنا یا نہ کرنا ایک سیاسی حکومت کا فیصلہ ہونا چاہیئے لیکن وہ حکومت کو اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ حکومت اگر دھماکے کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اُس کو کسی قسم کی سُبکی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
پھر اگلے ہی روز 28 مئی 1998 کو پاکستان کی تمام اعلیٰ سول اور ملٹری قیادت بلوچستان کے علاقہ چاغی میں موجود تھی جہاں پاکستان نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کر کے دُشمن کے اوسان خطا کر دیئے۔ اور بھارت جو اس قسم کے رد عمل کی بالکل توقع نہیں کر رہا تھا پاکستان کے دھماکوں کے نتیجے میں سہم گیا۔
بحرحال پاکستان کو ان ایٹمی دھماکوں کے بعد دنیا کے کئی ممالک کی طرف سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا، اور یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستان پر کئی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ وہ وقت پاکستان کے لیئے ایک بے حد مشکل وقت تھا جب دشمن تو دشمن پاکستان کے کئِی دوست ممالک نے پاکستان کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا۔ پاکستان ان دھماکوں کے نتیجے میں دنیا کی ساتویں جبکہ اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن کر سامنے آیا۔
پاکستان ایک ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہے لیکن پاکستان نے یہ طاقت کبھی جارحیت کے لیئے نہ ہی استعمال کی اور نہ ہی کبھی مستقبل میں ایسا کرے گا۔ بلکہ پاکستان نے ایٹمی تجربات اس لیئے کیئے کہ خطہ کو جنگ سے دور رکھا جائے۔ اور خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھا جائے۔ 
28 مئی 1999 کو ملک میں پہلی مرتبہ یومِ تکبیر سرکاری طور پر منایا گیا اور اس کے بعد سے آج تک ہر سال یومِ تکبیر نہایت شان و شوکت سے منایا جاتا ہے، ملک کے طول و عرض میں دن کا آغاز توپوں کی سلامی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خصوصی پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ قومی ہیروز کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے، اور ایٹمی ہتھیاروں کی نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ملکوں کی تاریخ میں کئی مواقع ایسے آتے ہیں جب مشکل فیصلے لینے ضروری ہو جاتے ہیں اور یہ فیصلے وقتی طور پر مشکل ضرور ہوتے ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمام مشکلات کا خاتمہ بھی ہو جاتا ہے۔ آج پاکستان پر سے تمام پابندیاں ہٹ چکی ہیں اور دنیا کے کئی ممالک پاکستان کے ساتھ نہ صرف کاروبار کر رہے ہیں بلکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، سی پیک اس کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ سی پیک اور OBOR ایسے پراجیکٹ ہیں جن کے ذریعے پاکستان ترقی کی منازل نہایت تیزی کے ساتھ طے کر رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ہاکستان دنیا کی ایک عظیم معیشت ہو گا۔ پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے ابھی صرف 70 سال کا عرصہ ہوا ہے اور اس قلیل عرصہ میں پاکستان نے دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے۔ جن لوگوں کو یورپ اور امریکہ کے سامنے پاکستان کُچھ نظر نہیں آتا اُن لوگوں سے میری التجاء ہے کہ وہ ذرا دنیا کی تاریخ پرایک سرسری سی نگاہ دوڑائیں۔ وہ امریکہ جو آج ورلڈ پاور ہے وہاں آج سے تین سو سال پہلے قتل و غارت گری عام تھی لاقانونیت کی انتہا تھی اور وہ برطانیہ جس کی مثالیں آج ہمارے یہاں دی جاتی ہیں وہاں آج سے دو ڈھائی سو برس پہلے غنڈہ گردی کا راج تھا قانون نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ 
پاکستان کا مقابلہ اس لیئے بھی دنیا کے دوسرے ممالک سے نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اپنی نوعیت کا دوسرا ملک ہے جو دنیا کے مختلف حصوں سے مسلمانوں کو لا کر آباد کیا گیا، دنیا میں ملکوں کی تاریخ میں سال دنوں کے برابر ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے پاکستان ابھی ایک نوزائیدہ ملک ہے جو اپنی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے اور چھوٹی سی تاریخ میں تین جنگیں لڑنے اور دہشت گردی کے خلاف گزشتہ دو عشروں سے برسرِ پیکار ہے اور اس جنگ میں عالمی امداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہر سال چند سو مہاجرین کو قبول کرتے ہیں اور دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں بھی یہ تعداد ہزاروں میں بھی نہیں ہے جبکہ پاکستان ایک غریب ملک ہونے کے با وجود لاکھوں افغان مہاجرین کو گزشتہ تین عشروں سے سنبھالے ہوئِے ہے اور دنیا میں واحد ملک پاکستان ہے جہاں افغان مہاجرین کو کاروبار کی اجازت ہے ورنہ دنیا کے کسی بھی اور ملک میں مہاجرین کر کاروبار کی اجازت نہیں ہوتی اور وہ اقوام متحدہ کے مقرر کردہ کیمپس میں اقوام متحدہ کی امداد پر زندگی گزارتے ہیں اگر ہم ان سب چیزوں کا بغور معائنہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہمارا ملک محدود وسائل کے باوجود کتنا بوجھ برداشت کیئے ہوئے ہے۔ اور مُجھے یقین ہے کہ جلد ہمارا ملک پاکستان ایک عظیم الشان ریاست کی صورت میں دنیا کے صفِ اول کے ممالک میں شمار کیا جائے گا، پاکستان آج بھی دنیا کا سب سے خوبصورت ملک ہے اور آئندہ بھی ایک عظیم الشان مستقبل پاکستان کا منتظر ہے!
پاکستان زندہ باد!

سید فرحان الحسن
مشن ہولڈر پازیٹو پاکستان 

Tuesday 21 May 2019

BRIEF INSIGHTS ABOUT INTERNATIONAL BIODIVERSITY DAY 2019


International Biodiversity day is celebrated on 22nd May every year. The international day for biological diversity falls within the scope of UN Post-2015 Development agenda’s Sustainable Development Goals. By the international cooperation, the stakeholders from different concerned fields like sustainable agriculture, water and sanitation, improved health and development, science and technology, urban resilience, climate change, disaster risk reduction, deforestation and food security assembled to have a discussion and propose a better plan for the present and for the future as well. Recognition of the critical role of biodiversity in sustainable development was found in the Rio+20 outcome document. “The world we Want: A future for All.”
Biodiversity is undoubtedly a global asset which bears tremendous values for the present and future generations. Biodiversity is an exclusive term which includes the broad-spectrum perspectives of securing and preserving the living contents of the world which contributes to the maintenance of equilibrium in the ecosystems. As UN Secretary-General Antonio Guterres briefs the importance of this day saying, “Biological diversity is vital for human health and well-being. I urge all governments, businesses and civil society to take urgent actions to protect and sustainably manage the fragile and vital web of life on our one and only planet.”
The theme selected by the Secretariat of the Convention on Biodiversity (CBD) for International Biodiversity day 22 May 2019 is “Our Biodiversity, Our Food, and Our Health.” We as a generation of the 21st century have easy approachable access to the varieties of food that probably our forefathers or our parents never witnessed. But with the diverse offerings and availabilities, global diet is wholly increasing in proportion, factually what people eat is becoming more homogenized, and this is an alarming situation. This year, the International Biodiversity day focuses on the biodiversity which lays the foundations of our food and health for its reservations, preservations depicting it to be the key catalyst in transforming the food system and improved human health. The main objective of this theme is to disseminate more awareness to the reliance of our food, our nutrition and improved health on biodiversity, and a healthy ecosystem. The theme for 2019 offers the contribution in Sustainable development goals by giving the strategic plans for climate change mitigation and adaptations, availability of clean water, zero hunger and preservation and restoration of natural ecosystems while the theme celebrates the diversity of natural ecosystems for the existence and survival of the human and their well-being on earth. Since the last few decades, the world is facing a continuous decline in the diversity of field crops and various domestic animal breeds.  All the 17 fishing grounds of the world are at the verge of their nonrenewable limits due to overfishing and are hitting the unsustainable limits of fishing without any stringent measures. Due to this rapid decline in the agrobiodiversity, food, and poultry, our world is on the serious threats of famine.  Poor diet, health risks, fatal diseases, infectious diseases, contagious diseases like obesity, malnutrition, diabetes, rickets, pneumonia, typhoid, AIDS and hepatitis are reciprocated due to the loss of diverse food and diet. Fall in agrobiodiversity also has resulted in a lack of essential knowledge about the traditional medication and so is the world facing decrement in the availability of traditional medicines.

Goals to halt the loss in biodiversity and promotion of the sustainable utilization of terrestrial and inland ecosystems are set in the strategic plan. These objectives are the main components of the Sustainable Development Goal.15  Millions of the species are on the risk of extinction due to the anthropogenic activities which is the biggest dilemma of the present we need to worry about. The consolidated Strategic Plans for biodiversity 2011-2020 deeply intend to tie a knot between biodiversity, ecosystems and the provision of victuals for better human health. The focus on this nexus of biodiversity, food systems, and human health lays foundations for creating a well-defined infrastructure. This link gives an opportunity to generate discussions to draw out ways and means to achieve Aichi Targets till 2020 for global biodiversity framework and aids to bend diversity loss curve by 2030.

Why do we celebrate Biodiversity day?
To spread awareness, to educate people on the basic issues of concern i.e. the worth of biodiversity and its safety, to assemble the will of Governments and its resources to address the global problems that certainty of biodiversity faces. Marking and celebrating these days reinforces the achievements of humanity. Being a catalyst for change we must follow some collective actions, share them to aware more people and save the globe. These actions include
·         Reduction in meat consumption.
·         Consumption of seasonal foods.
·         Try buying local foods.
·         Check the food waste to zero.
·         Compost food scrap.
·         Reduction of food packaging by using reusable bags or using glass jars and containers.
·         Single-use plastics like a plastic straw, coffee cups, plastic cutlery, take out containers, and plastic water bottles must be avoided.
·         For food and nutrition promote indigenous and local biodiversity.
Sidra Aleem
The author is a blogger, reader, M.Phil. scholar and member Positive Pakistan.

Thursday 16 May 2019

حضرت خدیجہ ایک عہد ساز ہستی

؎اے شمع شبستان دل سرور کونین 
اے روشنئ انجمن سید ثقلین!
اے مصدر انوار حریم رخ حسنین
اے مومنۂ ہستی و صدیقۂ دارین
تاریخ میں اتنا بڑا اعزاز کہاں ہے
حد یہ کہ تو خاتون قیامت کی بھی ماں ہے
تاریخ اسلام جہاں کئی بے مثل مردوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے وہیں اس بات کو فراموش کرنا بھی مشکل ہے کہ چمن اسلام کی آبیاری میں مجاہدات اسلام کا کردار بھی بے مثل رہا ہے ۔ ۱۰ رمضان المبارک ہمیں اس عظیم خاتون کی یاد دلاتا ہے جو ملیکۃ العرب بن کر بیت رسولﷺ  میں داخل ہوئیں اور کنیز رسولﷺ بن کر اپنی تمام زندگی خدمت اسلام میں گزار دی۔ حضرت خدیجۃ الکبری وہ ہستی ہیں جو رہتی دنیا تک کی عورتو‏ں کے لیے مینارۂ نور ہیں۔ 
؎ پھیلا تیرے دم سے رخ ہستی پہ اجالا 
ظلمات کو اک صبح ابد رنگ میں ڈھالا
حضرت خدیجۃ الکبری کا تعلق مکہ قبیلہ قریش سے تھا ۔ آپ اس زمانے کی مالدار خواتین میں شمار ہوتی تھیں۔ بے انتہا مال اور مرتبے کے باوجود آپ نے اس دور جاہلیت میں جس طرح زندگی گزاری وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسی اعلٰی اخلاق کی وجہ سے آپ کو اہل عرب طاہرہ کے نام سے جانتے تھے ۔ ٤٠ برس کی عمر میں اپنا سامان تجارت حضرت محمدﷺ کے حوالے کیا اور پھر واپسی پر کردار رسالت نے ایسی دھاک بٹھائی کی آپ ﷺ کو رفیق حیات منتخب کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوں تاریخ آدمیت کو خانہ نبوت میں وہ ہستی نظر آئی جو ہر موقع، ہر مقام، ہر منزل پر معاون و مددگار نظر آئیں۔ غار حرا کی خلوت ہو یا شعب ابی طالب کی تنہائی آپ کا ساتھ ہمیشہ رسالت کی ڈھارس بنا رہا۔ وہ بی بی جس کے خزانوں کا شمار نہیں تھا اس نے سب کچھ رسالت کے قدموں میں نچھاور کر کے عاجزی اور انکساری کی حیات کو ترجیح دی۔ 
حضور ﷺ حضرت خدیجہ سے بہت محبت کرتے۔ آپ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی رسول خدا اپنی اس وفادار بیوی کو بہت یاد کرتے۔ حافظ ابن کثیر کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایکبار سوال کیا کہ حضرت خدیجہ کو یاد کرنے کی وجہ کیا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ:
خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی کیونکہ انہوں نے ایمان لا کر اس وقت میرا ساتھ دیا جب کفار نے مجھ پر ظلم و ستم کی حد کر رکھی تھی، انہوں نے اس وقت میری مالی مدد کی جب دوسرے لوگوں نے مجھے اس سے محروم کر رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے بطن سے مجھے اللہ تعالٰی نے اولاد کی نعمت سے سرفراز فرمایا جب کہ میری کسی دوسری بیوی سے میری کوئی اولاد نہیں ہوئی۔

؎ سرمایہ انفاس پیمبر ترا کردار
زہرا کی طبیعت سے بھی نازک تری گفتار
ارباب جہالت کو کچلتی ہوئی رفتار
اے دین مکمل کی لیے دولت بیدار
اسلام کی عظمت تری مرہون رہے گی
تا حشر نبوت تری ممنون رہے گی
آج کی عورت کے لیے جناب خدیجہ کی ذات ایک مکمل لائحہ عمل ہے۔ آپ نے بحیثیت عورت ہر کردار میں ایک ایسا سبق چھوڑا جو رہتی دنیا تک کی عورت کے لیے ایک مکمل نمونہ حیات ہے۔ وہ جو اسلام کو محض پابندیوں کا مذہب تصور کرتے ہیں حضرت خدیجہ نے اپنی حیات سے یہ ثابت کیا کہ جو عزت و توقیر اسلام نے عورت کو دی وہ اسی مذہب کا طرہ امتیاز ہے۔
حضرت خدیجہ نے اگرچہ اسلام کو اس زمانے میں دیکھا جب اسلام ابھی پنپ رہا تھا ۔ ہجرت مدینہ کے بعد اسلام کے عروج کا زمانہ آپ کی رحلت کے بعد آیا لیکن آپ کی نگاہ جہاں بین نے عظمت اسلام کو پرکھ لیا تھا اس لیے آپ بھرپور طریقے سے معاونت رسالت کے ذمہ داری ادا کرتی رہیں۔ ٓا پ کسی ذاتی مفاد اور لالچ کے بغیر اسلام کی خدمت میں مشغول رہیں۔ آ پ کو یقین تھا کہ جو پیغام ذات محمد ﷺ پر نازل ہوا ہے وہ دائمی اور ابدی ہے۔ آپ کے کردار کی یہی مضبوطی اور ثابت قدمی آج کے پر آشوب دور میں ہمارے لیے مشعل راہ ہے کی یہ مت دیکھو کہ کیا ہوگا بلکہ یہ دیکھو کہ میں بحیثیت فرد کیا کر سکتا ہوں۔ جب نگاہیں آسمان پر ہوتی ہیں اور امید صرف رب سے تو ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔
دور حاضر کا سب سے بڑا مسئلہ ذہنی آسودگی کا فقدان ہے۔ اس کی بڑی وجہ قناعت کی کمی ہے۔ جناب خدیجہ کی ذات نے اپنے رب کی ذات پر کامل یقین سے ثابت کیا کہ حالات جیسے بھی ہوں صرف وہ رب ہی ہے جو مددگار ہے۔ آپ چاہے حالت عشرت میں تھیں یا شعب ابی طالب کی گھاٹیوں میں ہر لمحہ شاکر اور قانع رہیں۔ 
جہاں تک خانگی ذمہ داریوں کی بات رہی تو آپ ایک مثالی بیوی اور مثالی ماں بن کر سامنے آئیں۔ ایک طرف نبوت کے ابتدائی ایام میں شوہر کی معاون رہیں، ڈھارس بندھاتی رہیں تو دوسرے جانب جناب فاطمہ جیسی عظیم بیٹی کی پرورش کی۔ صحیح بخاری اور مسلم میں درج ہے کہ ایک مرتبہ آپ کھانا لے کر رسول خدا ﷺ کے پاس جا رہی تھیں کہ پروردگار عالم نے حضرت جبرائیل کو پیغام دے کر بھیجا کہ جاو اور میرے حبیب سے کہو کہ خدیجہ آپ ﷺ کی طرف آرہی ہیں۔ جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان سے کہیں کہ پروردگار آپ پر درود و سلام بھیجتا ہے۔ ان کو خوش خبری سنا دیں کہ اللہ نے ان کے لیے جنت میں جواہرات کا قصر مخصوص کیا ہے جہاں نہ شور و غوغہ ہوگا نہ کوئی تھکاوٹ۔ 
آپ کی رحلت کے سال کو رسول خدا ﷺ نے عام الحزن قرار دیا۔ پروردگار سے دعا ہے کی ہمیں سیرت حضرت خدیجہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہاں قصر نبوت میں چراغاں کیا تو نے
ایماں کو اک صبح درخشاں کیا تو نے
اسلام کے ہر درد کا درماں کیا تو نے
جو کچھ تھا تیرے گھر میں وہ قرباں کیا تو نے
جب تک یہ زمانہ یونہی پرواز کرے گا
اسلام تیرے نام پہ سو ناز کرے گا

 سیدہ ندرت فاطمہ

Sunday 12 May 2019

What MOTHER stands for?


A man came to the Prophet SAW and asked, ‘O Messenger of Allah! Who among the people is the most worthy of my good companionship? The Prophet SAWW said: Your mother. The man said, ‘Then who?' The Prophet SAWW said: Then your mother. The man further asked, ‘Then who?' The Prophet SAWW said: Then your mother. The man asked again, ‘Then who?' The Prophet SAWW said: Then your father.
(Bukhari, Muslim)                                                
Indeed a Mother is the most trustworthy person among all when we hung between many harsh circumstances. She's a best friend who always listens to us, she's the one who spends all her night awaken when we get ill. She is a shelter for us in this horrible world. A one who always tries hard to finish out our miseries. She's a one who teaches us to face trouble and worries with patience and courage. A mother is a whole world for her child in an individual soul.

Allah’s greatest gift to us is a mother, who carries heaven under her feet. Mother is the name of an eternal feeling of love, care, understanding, selflessness, a beautiful combination of six alphabets as Howard Johnson said:

M is for the million things she gives me
O means only that she's getting old
T is for the tears she shed to save me
H is for the heart of purest gold
E is for her eyes with love
R means the right and right she will always be.

Thus, a  Mother is the most precious pearl in the world and we should be thankful to Allah Almighty for this beautiful irreplaceable blessing.
May Allah SWT protect our mothers, give them a healthy and prosperous life. Ameen.

Tehreem Choudhry
The author is a blogger and mission holder Positive Pakistan.




Saturday 11 May 2019

چھوٹی سی نیکی

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ. (سورہ البقرہ  -۱۸۳)
ترجمہ: اےایمان والو! تم پر روزے فرض کر دئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم متقی ہو جاؤ۔
رمضان المبارک کا مہینہ جہاں بہت سی رحمتیں اور برکتیں لے کر آتا ہے، اسی طرح ہم انسانوں میں خوفِ خدا اور اس کی مخلوق کی خدمت کا جذبہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ سب کوشش کرتے ہیں کہ اس ماہِ مبارک میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کما لیے جائیں۔ کوئی راشن پیکٹس بنا کر تقسیم کرتا ہے تو کوئی افطار کیمپس لگا کر اس کا ثواب کماتا ہے، غرض یہ کہ سب حسبِ توفیق اور اپنی بساط کے مطابق اللہ کی رضا کی خاطر مخلوقِ خدا کی خدمت کرتے ہیں تاکہ آخرت میں اجرِ عظیم سے نوازے جائیں۔ 
جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
فَاٰتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (سورہ روم- ۳۸)
ترجمہ : تو اہلِ قرابت اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق دیتے رہو۔ جو لوگ رضائے خدا کے طالب ہیں یہ اُن کے حق میں بہتر ہے۔ اور یہی لوگ نجات حاصل کرنے والے ہیں۔
یہ ماہِ مبارک رحمتوں، برکتوں، نیکیوں، صبر و شکر، ایثار و قربانی، رب کی رضا و خوشنودی کا مہینہ کہلاتا ہے اور ہر مسلمان کے لیے اس مہینہ کی بہت اہمیت ہے، عبادات کے ساتھ ساتھ ہم ہر طرح کے نیک کام کر کے اس ماہ کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کی جستجو اور کوشش میں لگےرہتے ہیں۔
اس مقصد کیلئے جناب عبداللہ خان صاحب رہبر پازیٹو پاکستان نے پازیٹو پاکستان کی طرف سے سیکٹر جی-۱۱، اسلام آباد میں رمضان افطار کیمپ کا اہتمام کیا ہے جہاں پورے رمضان المبارک افطار کے وقت دسترخوان سجایا جاتا رہے گا اور الحمدللہ ہر روز بہت سے افراد اس دسترخوان سے سیر ہو کے جاتے ہیں۔
اس نیک عمل میں جناب وقار احمد صاحب رہبر پازیٹو پاکستان کے ساتھ امبیسیڈرز ، مِشن ہولڈرز اور  ممبرز مل کر رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی اس نیکی کے بدلے سب کو جزائے خیر عطاء فرمائے اور سب کی عمر و کمائی میں برکت عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
 

تحریم چوہدری
مِشن ہولڈر پازیٹو پاکستان

ماں

؎ ایک مُدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اِک بار کہا تھا "مُجھے ڈر لگتا ہے"

کاغذ اور پینسل اُٹھا کر لکھنے بیٹھا تو زندگی میں پہلی مرتبہ الفاظ کم پڑ گئے ہیں سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا لکھوں اور کہاں سے آغاز کروں۔ ماں کتنا خوبصورت رشتہ ہے یہ مُجھ سمیت اُن تمام لوگوں سے کوئی پوچھے جو ماں کا نام آتے ہی احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ گزشتہ تین برس سے جب کبھی ماں کے بارے میں بات ہوتی ہے تو ایک چہرہ میری نظروں کے سامنے گھومنا شروع ہو جاتا ہے۔ بےقراری اور بے بسی کی ایک ایسی ملی جلی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جو الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ 
کاش کہ میرے بس میں ہوتا کہ میں گزرے ہوئے لمحات کو واپس لانے کی قدرت رکھتا تو وہ تمام لمحات واپس لے آتا جو میں نے اپنی ماں کے ساتھ گزارے۔ آج تین برس بعد بھی میں اپنی ماں کے ہاتھ کا لمس اپنے گال پر محسوس کرتا ہوں تو پریشانی اچانک ہی جیسے غائب ہو جاتی ہے۔ دنیا کی وہ واحد ہستی جو میرے چلنے کے انداز اور میری ہنسی میں چھپی پریشانی کو بھانپ لیتی تھی۔ میں گھر سے کوسوں دور کسی تکلیف میں ہوتا تو گھر پر موجود میری ماں کو پتہ چل جاتا تھا۔ 
آج جب میں لکھنے بیٹھا تو میں پہلی مرتبہ یہ نہیں جانتا تھا کہ میں نہ لکھنا کیا ہے، کیونکہ میری گزشتہ تمام تحاریر قارئین کے لیے تھیں جبکہ یہ تحریر میرے اندر چھپے ہوئے غبار کو دھونے کی ایک ناکام کوشش ہے ناکام کوشش اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ خلا کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ اپنا سب کُچھ لُٹا کر بھی میں اپنی ماں کی ایک جھلک نہیں دیکھ سکتا۔ اب اس دنیا میں کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ میری خاموشی میں پنہاں میری پریشانیاں مُجھ سے بہتر جانتی ہے، اب کوئی مجھے زبردستی روٹی کھانے کا نہیں کہتا۔ اب کوئی میری ہلکی سی خراش پر تڑپتا نہیں ہے۔
زندگی میں بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی اہمیت کا اندازہ اُن کے چھن جانے پر ہوتا ہے، یہی حال رشتوں کا بھی ہے اور ان رشتوں میں سرِفہرست والدین کا رشتہ ہے۔ 
میں ہمیشہ سے اپنی ماں کی ایک عادت سے چڑتا تھا اور روزانہ ایک ہی بات کہتا تھا "امی مجھے بھوک نہیں ہے آپ فکر نہ کریں جب بھوک لگے گی تو خود کھانا کھا لوں گا" اور میری ماں کا ایک ہی جواب ہوتا تھا "بیٹا جب میں نہیں ہوں گی تو تمہیں اندازہ ہوگا"۔۔
پھر ایک تاریک ترین رات وہ مجھے اس دنیا میں اکیلا چھوڑ گئیں وہ رات اتنی تاریک تھی کہ آج بھی سوچتا ہوں تو دل کانپ اُٹھتا ہے۔۔۔۔ پھر وہ دن اور آج کا دن کسی کو میرے کھانا کھانے یا نہ کھانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کوئی مُجھے بار بار کھانا کھانے کا نہیں کہتا اور آج میرے کان یہ سُننے کے لیے بےتاب رہتے ہیں کہ "بیٹا کھانا کھا لو! اچھا بھوک نہیں ہے تو تھوڑا سا کھا لو، دیکھو تمہاری پسند کے دال چاول بنائے ہیں بیٹا کُچھ تو کھا لو، اچھا ٹھیک ہے تُم نہیں کھا رہے تو میں بھی نہیں کھا رہی کھانا"۔ 
اور پھر وہ جب تک مُجھے کھانا نہیں کھلا دیتی تھیں تب تک چین سے نہیں بیٹھتی تھیں۔
میری پسند نا پسند مُجھ سے بہتر میری ماں جانتی تھی۔ میں اپنی زندگی کی کئی باتیں خود بھول چکا ہوتا تھا مگر میری ماں کو میری زندگی سے جُڑی ہر بات یاد رہتی تھی، میری ماں مُجھے اکثر کہتی تھیں کہ مُجھے بیٹے نہیں پسند، مُجھے بیٹے کی کبھی خواہش نہیں رہی۔ اور میں اُن کی اس بات پر اندر ہی اندر کُڑھتا تھا جلتا تھا پھر ایک دن اُنھوں نے اکیلے میں مُجھے بتایا کہ وہ زندگی بھر مُجھ سے ایک بات چھپاتی رہیں تھیں اور وہ یہ بات تھی کہ دنیا کی ہر ماں کی طرح اُن کو بھی بیٹا چاہیئے تھا اور وہ میرے پیدا ہونے پر جتنا خوش ہوئی تھیں پھر کبھی اُتنا خوش نہیں ہوئیں۔۔۔۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی تھی پہلی بار میری ماں نے مُجھے بتایا تھا کہ میں اُن کی خواہش تھا اُس دن میں اتنا خوش تھا کہ میں پوری رات سو نہیں پایا تھا، کبھی چادر میں منہ چھپا کہ رونا شروع کر دیتا اور کبھی مُسکرانا شروع کر دیتا۔۔۔۔ وہ خوشی کا آخری دن تھا، وہ روشنی کا آخری دن تھا، وہ میری ماں کی زندگی کا آخری دن تھا اور وہ نقطۂ آغاز تھا ایک تاریک رات کا، کبھی نہ ختم ہونے والی تاریکی کا، ایسی رات جس کی کوئی صبح ہی نہیں تھی ایسی تاریکی جسے دنیا کی کوئی شمع، کوئی مشعل نہیں بُجھا سکتے۔ 
اللہ سبحانہ و تعالیٰ میری ماں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور آپ سب کے سروں پر والدین کا سایہ تا دیر قائم رکھے، آمین یا رب العالمین!

سید فرحان الحسن
مشن ہولڈر پازیٹو پاکستان

Wednesday 8 May 2019

کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون

یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید۔۔
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون۔۔!
زبان، فن، ٹیکنالوجی غرض یہ کہ دنیا کی ہر چیز ارتقاء کے مرحلے میں ہے۔ آج بیٹھے بیٹھے میں نے سوچا کہ وقت غیر محسوس طریقے سے کتنی جلدی بدلتا ہے۔ مثال کے طور پر آج 2019 میں سمارٹ فونز کی دنیا میں اگر ہمارا کوئی دوست یا رشتہ دار ہمیں کچھ دن کال نہیں کرتا تو ہم اس سے ناراض ہو جاتے ہیں یا پھر اگر کوئی ہماری کال ریسیو نہ کرے تو ہم اس کے ساتھ جینا مرنا ہی ختم کر دیتے ہیں۔
اب ذرا بیسویں صدی کے آخری چند سالوں کا آج کے دور سے ایک تقابلی موازنہ کر لیتے ہیں۔ آج سے قریب دو عشرے قبل  بہت کم لوگوں کے پاس لمبے اینٹینے والے موبائل فون ہوا کرتے تھے یہ موبائل ذیادہ تر گھر پر چارجنگ پر ہی لگے رہا کرتے تھے، ایسا لگتا تھا کہ جیسے ملک میں بجلی کا بحران شدت اختیار کرنے والا ہے اور ان لوگوں کو پیشگی اطلاع مل چکی ہے۔ یا پھر صاحب موبائل پاکستان سے امریکہ پیدل سفر کا ارادہ رکھتے ہیں۔لیکن آپ لوگ غلط سوچ رہے ہیں۔
آج سے 20 سال قبل اگر کوئی غلطی سے بھی کسی کی کال موبائل پر ریسیو کر لیتا تو کال کرنے والے کو غشی کے دورے پڑنے شروع ہو جاتے تھے۔ دوسری جانب جو کال ریسیو کرتا تھا وہ کال کرنے والے کو ایسے ایسے القابات سے نوازتا تھا جو میں ایک اسلامی ریاست کے نوجوانوں کے میگزین میں بیان بھی نہیں کر سکتا۔کیونکہ اس دور میں کال ریسیو کرنے پر بھی رومنگ چارجز ادا کرنے پڑتے تھے۔
آج اکیسویں صدی میں کمپیوٹر گھر گھر کی زینت بن چکا ہے۔ بڑوں سے لے کر بچوں تک سب اس پر یکساں عبور رکھتے ہیں.
بیسویں صدی کے آخری چند سالوں میں پانچ فٹ اونچا اور دو فٹ چوڑا کمپیوٹر 10 کلومیٹر کے رقبہ میں کسی ایک گھر میں ہوا کرتا تھا جس کی فلاپی ڈسک ہی کم و بیش ڈھائی کلو کی ہوا کرتی تھی۔
میں شاید فرط جذبات میں کچھ ذیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کر گیا، چلیں ہر چیز کو 50 فیصد پر لے آئیں یا بس 25 فیصد آخری اس سے کم ہرگز نہیں ہوگا۔ اور بچوں کے لیئے کمپیوٹر آن کرنے کے لیئے ایک شرط ہوا کرتی تھی کہ گھر کے تمام بزرگوں کے سامنے وہ سوپر ماریو یا کونٹرا گیم کھیلیں گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بچہ اکیلے میں انٹرنیٹ استعمال کر لےاور اس کے ذہن پر کوئی منفی اثرات مرتب ہو جائیں۔ ان سادہ لوح بزرگوں کو کون سمجھاتا کہ بغیر ٹیلی فون لائن کے اس دور میں انٹرنیٹ استعمال کرنا ناممکن ہوا کرتا تھا اور وہ لوگ خود فون سننے کے لیئے دو گلیاں چھوڑ کر مائی حمیداں کے گھر جایا کرتے تھے جن کا پوتا کچھ عرصہ قبل ولایت سے لوٹا تھا۔
غرض یہ کہ ہر دور کے اپنے کچھ تقاضے ہیں آج جو قابل قبول ہے وہ آج سے کچھ عرصہ قبل ہرگز قابل قبول نہ تھا اور آج جو گناہ تصور کیا جاتا ہے کچھ وقت بعد رسوم و روایات کا حصہ ہو گا۔
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے!!

سید فرحان الحسن
مشن ہولڈر پازیٹیو پاکستان

Nutritional Guidelines During Ramadan


Ramadan,the month of blessing, the month of getting closer to Allah is also the month of maintaining your health more perfect than before because you have to maintain your body system with fast changes. Fasting during the holy month of Ramadan provides an excellent opportunity for participants to makes changes to a healthier lifestyle, providing a golden opportunity for weight loss, changes in diet and smoking cessation. The healthiest way to eat is to choose a variety of nutritious foods that provide all the nutrients a body needs. Before deciding to fast, people with medical conditions should seek a doctor’s advice. Meal timings and medications may need to be adjusted.
Sahoor Meals
At sahoor, avoid heavy meals. A cup of low fat/non-fat milk, laban or yogurt, a piece of fruit and low-fat cheese or sandwich are recommended. It is recommended to consume slow digesting and fiber-containing foods, such as complex carbohydrates. Complex carbohydrates and high fiber foods are slow-digesting foods that include grains and seeds like barley, wheat, oats, beans, lentils, whole wheat bread, brown rice, vegetables, and fruits with skin, dried apricots, figs, prunes, and dates. Avoid too much tea or coffee at Sahoor, as caffeine makes you pass more urine taking with it valuable minerals that your body would need during the day.
 Iftar Meals
The body's immediate need in iftar time is to get energy. Dates and juices are good sources of sugar to bring low blood glucose levels to normal. For starters, a few dates (3 pieces) and a cup of soup (vegetable, oat, lentils, beans, grains) plus a cup of fruit juice are recommended. The salad comes next. Vegetables provide a good amount of vitamins, fiber, and minerals.
 The main dish can be composed of protein such as meat, preferably lean meat, poultry or fish. Try to avoid fry foods. Fried foods absorb more oil, which increases calorie intake and may lead to weight gain and poor digestion. It is very important to consume complex starches, such as pasta or rice cooked with vegetables or whole grains or cooked beans or baked/steamed potatoes, which are nourishing and filling. These food items should not be prepared with too much fat or salt.
Sweet foods are composed of high fat and sugars thus providing a lot of calories. Sweets should be consumed in moderation. Fruits are recommended due to their content of fiber minerals, antioxidants, and vitamins. Fresh fruits are in low-calorie content in comparison to sweets and are almost fat and salt-free.
 Health problems
 Many health problems can emerge as a result of excess food intake and an unbalanced diet. Constipation Causes: Too little water and not enough fiber in the diet. Remember: increase water intake, fiber diet.
 Indigestion Causes: Over-eating. Too much fried and fatty foods, spicy foods Remember: do not over eat, drink unsweetened fruit juices and water. Avoid fried foods.
 Low Blood Pressure Causes: too little fluid intake, decreased salt intake. Remember: keep cool, increase fluid and use salt in moderation, and if repeated, consult your doctor.
 Headache Causes: Caffeine and tobacco-withdrawal, lack of sleep and hunger. Remember: cut down caffeine and tobacco slowly. Herbal and caffeine-free drinks may be substituted.
 Low Blood Sugar Causes: having too much sugar, especially at Sahoor. The body produces too much insulin causing the blood glucose to drop. Remember: Limit sugar-containing food drinks.  Diabetics may need to adjust their medication in Ramadan and consult  doctors.
Additional Nutritional Guidelines
Eat less fried and fatty foods, such as French fries, fried samoosa, and fatty sweets. Eat fewer foods containing a large amount of sugar.
Nutritional Tips to Avoid Weight Gain during Ramadan
Fasting during Ramadan is a golden opportunity for weight loss. This can be accomplished since the total caloric intake is reduced and the efforts are made to increase the metabolic rate. There are many positive lifestyles and dietary patterns that support weight-loss during Ramadan which can continue afterward. Use only a little oil in cooking. Avoid fried food. Steam, bake or grill your food. Try to replace cream soup with low-fat whole grain or vegetable soups. Do not add oil/butter or ghee on the top Hareese or Jareesh. Limit meat portions to 5-6 ounces (same for fish or chicken) and select lean cuts or skinless poultry.
Replace sweets with fresh fruits. Monitor dates consumption. Remember that each piece provides 20 calories. Use low fat/non-fat milk and dairy products. Replace Gishda (heavy cream) with low-fat Labnah. Use non-fat milk to make the custard, pudding. Steam the rice; do not add oil to it.
 Nuts are healthy additions to any diet, but they are high in calories. To avoid or limit the number of nuts added to food, reduce sugar intake. Add only a small amount to your drinks or replace it with a sugar substitute. Drink as much water as possible between Iftar and Suhoor meals so that the body can adjust its fluid balance in time. Water, unsweetened juice, low-fat Laban, and low-fat soup are excellent sources of nutrients and fluids. Replace sweetened juices, Vimto, Gamardine (apricot nectar) with unsweetened juice or diet drinks.
 Increase the intake of vegetables and salads without adding oil/or salads dressings. Consume fruits, vegetables, non-fat yogurt, or Laban for snacks. Do not consume a lot of carbohydrates. Mix your steamed rice with legumes or vegetables to add flavor, fiber, and to increase your satisfaction. Limit the amount of cooked rice or pasta to one cup. Do not eat two large meals a day. It is better to divide your meals into three meals (Iftar, midnight and Sahoor meals), Watch portion size, Eat slowly and chew food very well. Increase your daily activity. Practice walking for minutes/day, or take a swim, or go to the exercise room.
How to make traditional Ramadan dishes healthier?
Samoosa:  Do not fry; bake instead - Fill with vegetables, lentils/legumes or low-fat cheese. Use lean meat or skinless chicken during cooking - Decrease or avoid adding oil to on top.
Sweets:  Use less sugar and fat.Eat a smaller portion.Replace sweets with fresh fruits.
 Pudding:  Make fruit puddings.Use less sugar - Prepare puddings with low fat /non-fat milk - Eat them between meals. Thank you &wish you happy, safe and healthier Ramadan.

Ayesha Mushtaq
The author is a nutritionist, blogger and mission holder Positive Pakistan.

ayeshaahmed6578@gmail.com


Friday 3 May 2019

میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں

جو موت سے نہ ڈرتا تھا بچوں سے ڈر گیا
اک رات خالی ہاتھ جب مزدور گھر گیا۔۔!
آج صبح آنکھ کھلی تو حسب عادت ٹیلی ویژن آن کیا۔ ٹی وی پر ایک نجی نیوز چینل کا نمائندہ یوم مزدور پر مزدوروں کے ساتھ بات کر رہا تھا۔ مزدور ٹی وی چینل کے نمائندہ کو اپنے درمیان پا کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور اپنے مسائل سے اس کو آگاہ کر رہے تھے۔ اُن سب میں ایک بات مشترک تھی اور وہ یہ کہ سب کی آنکھوں میں ایک چمک تھی اور ساتھ ساتھ چہرے پر مایوسی کی جھریاں بھی نمایاں تھیں۔ آنکھوں میں چمک اس بات کی غماز تھی کہ صحافی کو اپنے درمیان پا کر اُن کے دلوں میں شاید ایک اُمید جاگی تھی کہ یہ صحافی شاید اُن کے لئے رحمت کا فرشتہ بن کر نازل ہوا ہے اور اب یہ اُن سب کی آواز حکام بالا تک پہنچائے گا اور اُن کے سب مسائل ایک ایک کر کے حل ہوتے چلے جائیں گے۔ ساتھ ساتھ چہرے پر جھریوں میں موجود ایک بے یقینی کی کیفیت سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آج صرف یوم مزدور پر نیوز چینل کو کانٹینٹ کی ضرورت ہے اس لئے اُن کو اتنا پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ 
اور بادل نخواستہ اگر اس نیوز چینل کے ذریعے اُن کی آواز اہل اقتدار لوگوں تک پہنچ بھی گئی تو کیا ہوگا؟ وہ اہل اقتدار تو پہلے سے اُن کے مسائل سے آگاہ بھی ہیں اور اُن کے ان مسائل کو ایک بلیک میلنگ ٹول کے طور پر استعمال بھی کرتے رہتے ہیں۔ 
میں نے ٹیلی ویژن آن کیا ہوا تھا اور میری نظر بھی ٹیلی ویژن پر ہی مرکوز تھی مگر میرا ذہن اب کہیں اور پہنچ چکا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ میں آج یوم مزدور کے موقع پر گھر پر چھٹی منا رہا ہوں حالانکہ میرا مزدور اور مزدوری سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جبکہ آج کی ہر تقریب کا مہمان خصوصی آج کے دن بھی اس خوف میں مبتلا لو پھوٹنے سے پہلے ہی گھر سے نکل چکا تھا کہ اگر آج عبدالحمید تھوڑا سا بھی دیر سے پہنچا تو کہیں وہ آج اپنی مزدوری سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو وہ گھر واپس کس منہ سے جائے گا؟ کیونکہ گھر سے نکلتے ہوئے اس کے کانوں میں جو پہلی آواز پڑی تھی وہ اس کے باپ کی کھانسی کی تھی جو تپ دق کا مریض تھا اور دوسری آواز اُس کی ٦ سالہ بیٹی کی تھی جو روتے ہوئے سکول جانے سے انکار کر رہی تھی اور غور کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کے پاس ہوم ورک کے لئے نوٹ بک نہیں تھی اور اگر آج بھی اس نے ہوم ورک چیک نہ کروایا تو ایک بار پھر اس کو سکول میں سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غصے کی ایک لہر اُس کے تن بدن میں اُٹھی اور وہ اپنی بیوی کے پاس جا کر اُس کو چار باتیں سُنانا ہی چاہتا تھا کہ باورچی خانہ سے اُس کی بیوی کی آواز آئی، "اجی سُنتے ہو! اگر آج واپسی پر آٹا لانے کے پیسے نہ ہوں تو مہربانی کر کے کھانا باہر سے ہی کھا کے آجانا اور ہمارے بارے میں نہ سوچنا ہم فاقوں کے عادی ہو چکے ہیں ایک دن مزید روٹی نہ کھائی تو مر نہیں جائیں گے"۔
بیوی کے الفاظ اُس کے کانوں سے ٹکراتے ہی عبدالحمید بھول گیا کہ اُس کو غصہ کس بات پر آیا تھا اور ایسا شرمندہ ہو کر گھر سے نکلا کہ پیچھے مُڑ کر نہ دیکھا۔۔ آج تو اُس نے گھر سے نکلتے ہوئے سب کو سلام بھی نہ کیا تھا اور نہ ہی بیٹی کو پیار کیا تھا۔
بیوی کے آخری الفاظ اُس کے ذہن پر ہتھوڑے برسا رہے تھے۔ اور چلتے چلتے وہ کب گھر کے قریب چوک میں پہنچ گیا تھا اُس کو پتہ بھی نہ چلا تھا۔۔۔ لیکن آج وہ چوک پرپہنچا تو اُس کا ایک ساتھی مزدور اُس کے پاس آیا اور خوشی خوشی اپنی بند مٹھی اُس کے ہاتھ پر رکھ کر کھول دی، "یہ کیا ہے؟" اُس نے حیرت سے پوچھا۔۔ "وہ تم سے گزشتہ ماہ پانچ ہزار لئے تھے نہ یہ وہی پیسے واپس کر رہا ہوں کل میں گھر گیا تو بیگم نے ایک خوشخبری سُنائی کہ اُس نے مُجھ سے چھپ کر ایک کمیٹی ڈالی ہوئی تھی جو کل ہی نکلی تھی باقی پیسے میں نے بیگم کے پاس ہی رکھوا دیئے اور تمہاری امانت الگ کر لی اب یہ تمہارے حوالے کر رہا ہوں کہ روز قیامت میرا گریبان نہ پکڑو"۔ اُس نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
عبدالحمید نے کُچھ سوچتے ہوئے یہ رقم اس مزدور کو پکڑائی اور کہنے لگا، "مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے تُم میرے گھر جا کر یہ رقم اپنی بھابھی کو دے دو اُس کو کہنا کہ گھر کا راشن ڈال لے اور باقی جو پیسے بچیں اُن سے ابا کی دوائی اور گُڑیا کے اسکول کی چیزیں خرید لے مُجھے شاید کُچھ دیر ہو جائے" عبدالحمید ایک لمحے کے لئے رُک کر مسکرایا اور پھر بولا کہ "مُجھے یقیناً دیر ہی ہو چکی ہے"
عبدالحمید نے یہ کہہ کر رومال کندھے پر ڈالا اور ریلوے اسٹیشن کی جانب چل دیا۔ ساتھی مزدور نے حسب وعدہ وہ رقم عبدالحمید کے گھر پہنچا دی تھی اور اُن پیسوں سے عبدالحمید کی بیوی نے گھر میں راشن ڈال لیا اور ابا کی دوائی اور گُڑیا کی نوٹ بک بھی خرید لی اور بازار سے واپسی پر مُرغی کا نرخ دیکھا تو خوشی سے پھولی نہ سمائی کہ آج کئی ماہ بعد مرغی سستی ہوئی تھی اور اُس کے پاس پیسے بھی تھے اُس نے موقع غنیمت جان کر فوراً دو کلو مُرغی خریدی کہ عبدالحمید چکن بریانی شوق سے کھاتا تھا اور گھر جا کر جلدی جلدی سب کام نمٹا کر گُڑیا کو تاکید کی کہ ابا کو نہ بتائے کہ آج گھر پر کیا پکا ہے وہ عبدالحمید کو وہ دینا چاہتی تھی وہ کیا ہوتا ہے کمبخت مارا ہاں سرپرائز! 
بریانی پک چکی تھی لیکن آج عبدالحمید پتہ نہیں کہاں رہ گیا تھا۔ سو طرح کے وسوسے دل میں آ رہے تھے لیکن وہ ہر بار ٹال کر آیت کریمہ اور درور شریف کا ورد شروع کر دیتی۔ آخرکار اُس کا انتظار ختم ہوا اور رات گیارہ بجے کے قریب دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ 
محلے کے چند لوگ عبدالحمید کی لاش ایک چارپائی پر ڈالے دروازے پر کھڑے تھے۔ عبدالحمید نے ٹرین کے سامنے آ کر خودکشی کر لی تھی اُس کا جسم دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔ اور اب چاروں جانب اندھیرا پھیل چکا تھا رات تو کب کی ہو چکی تھی لیکن دراصل اندھیرا اب ہوا تھا اُس نے ہوش میں آتے ہی واپس مُڑکر گُڑیا کے ہاتھ سے بریانی کی پلیٹ پکڑی اور چولہے سے ہنڈیا اُٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دی۔۔۔
"گُڑیا بیٹا ہمیں یہ بریانی راس نہیں ہے یہ بڑے لوگوں کی خوراک ہے ہمیں بریانی راس نہیں ہے۔۔۔۔۔!" وہ بس یہی چلا رہی تھی۔

فرحان الحسن 
مشن ہولڈر پازیٹو پاکستان 

آدھا سچ

جن بڑوں سے ہم پیدا ہوتے ہی سچ، ایمانداری اور اخلاقیات کا درس لیتے ہیں... وہ جب آنکھ چراتے ہوئے مصلحت آمیز جھوٹ، تھوڑی سی گڑبڑ اور تھوڑی سی بے ایمانی کرلینے کا کہتے ہیں...تو دل مانتا نہیں!!💔 اس میں کوئی شک نہیں.....کہ وہ یہ سب بہت مجبور ہو کر حالات سے تنگ آکر کہتے ہیں....مگر کیا اخلاقیات کا درس تب تک ہے جب تک حالات ٹھیک ہوں؟؟؟
جونہی خراب ہوئے سبق بدل گیا......؟
لیکن حالات کے ٹھیک ہونے کے دوران تو اخلاقیات کی ضرورت ہی کہاں پڑتی ہے......
ضرورت تو تبھی پڑے گی جب حالات خراب ہوں گے....
پھر سبق کونسا ہوا...؟؟
جو بچپن میں پڑھایا جاتا ہے یا جو بڑے ہونے پہ سکھایا جاتا ہے؟
سچ کا حکم شرائط کے ساتھ نہیں دیا گیا تھا....
✅ ایمانداری کی تلقین خراب حالات میں ختم نہیں ہوسکتی.....
✅ صحیح کا چناؤ صرف وہاں تک نہیں جہاں ہمارا مفاد آڑے نہ آرہا ہو...
اس سب میں ایک ہی بات کہوں گی......کہ گناہ ساری دنیا کے کرلینے اور بطور فیشن رائج ہو جانے کے باوجود بھی گناہ ہی رہے گا....
اور کرپشن دو روپے کی ہو یا سو روپے کی کرپشن ہی کہلاتی ہے.....سو آخری دم تک لڑنے کی کوشش ضرور کریں....تھک کر ہار نہ مان لیں....
اور صحیح غلط سمجھانا ہو تو بڑوں کا احترام آڑے نہ آئے.........ادب اپنی جگہ حق اپنی جگہ!!❣

سیماب عارف
ایڈیٹر ای میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Wednesday 1 May 2019

ہمدردی نہیں حق

اتوار کی چھٹی  گزار کے سوموار کو پھر سے کام پر جانا یا پڑھائی کے لئے جانا بہت مشکل لگ رہا ہوتا...... ہر بار کی طرح منہ بنا ہوتا جیسے یہ پہلی بار ہو رہا ہو مگر عادت جو نہیں ہو پا رہی ہوتی فطرتِ انسانی ہر شے کی زیادتی ہی طلب کرتی ہے چاہے وہ عیش و آرام ہو یا دولت.......ہاں  مگر اس پیر کو دل تھوڑا خود کو تسلی دے رہا تھا خود کو، چلو دو دن ہی جانا پڑے گا بدھ کو پھر چھٹی آ رہی ہے, جو نیند اب نہیں پوری ہوئی وہ تب پوری کر لینا.... مگر ساتھ ہی یاد  آیا آخر یہ چھٹی کیونکر ہو رہی اس سے پہلے تو دورانِ ہفتہ نہیں ہوتی تھی پھر تاریخ پہ نگاہ دوڑائی تو دیکھا یکم مئی ہے وگرنہ بچپن سے سنتے آ رہے تھے اس روز چھٹی ہوتی ہے یوم مزدور منایا جاتا ہے... ہاں بھئی وہی مزدور جو سالہاسال  محنت کرتے کبھی گدھوں کا سا بوجھ اپنے سروں پر اٹھا کر تو کبھی گدھوں پر عمارتوں سا بوجھ دھکیل رہے ہوتے کہیں لوہار بنے ہوتے کہیں ترکھان تو کہیں اینٹوں سیمنٹ ساتھ سر توڑ کوشش میں لگے ہوتے ٹھکانے لگانے میں کہیں بڑےلوگوں(ہاں بھئی وہی جن کے پاس دولت زیادہ ہوتی ہماری لُغت میں بڑا کہا جاتا نا انہیں) کے گھروں میں چاکری کر رہے ہوتے ان کے جوتے پالش کرنے سے لے کر ان کے غسل خانے صاف کرنے تک کے اور کہیں سڑک پر ریڑھی لگائے کھڑے ہوتے, ان گنت بھیس ہیں اس مزدور نامی شخص کے میں کس کس کا حوالہ دوں... اور دیکھو نا! اس مزدور کی تو کوئی ایک جنس, عمر بھی مقرر نہیں ہے یہاں بچہ, بوڑھا, جواں, مرد, عورت, لڑکی لڑکا سب ہی اس فرقہ میں شامل ہیں جن کے نام یہ دن منایا جاتا ہے..... اور دن منانے کا جوش و خروش تو دیکھئے ملک کے چھوٹے بڑے ہر سرکاری ادارہ میں چھٹی ہوتی ہے..... مگر ہاں صرف سرکاری ادارے میں ہی چھٹی ہوتی ہے تو مزدور کا تعلق تو کسی ادارہ سے نہیں، مزدور تو بس مزدور ہے... آپ اس کا دن منائیں یا اس دن اسے منائیں اسے تو کام پر جانا ہی ہو گا.۔...
مگر یہ بات مجھے ہضم نہیں ہوتی آخر کو کس لئے ہم یہ دن مناتے کس طرح سے ہم دن مناتے؟؟؟؟ بڑا آسان جواب ہے میں بچپن سے دیکھتی آ رہی ہوں، یوم مزدور ہم سب چھٹی پر ہوتے سارا دن ٹی وہ لگا کر بیھٹتے پروگرام دیکھتے ان پروگراموں میں ملک کے بڑے لوگ ہاں بھئی میرا مطلب کرسی عمارت والے لوگ بڑے تفاخر کے ساتھ بڑی خوبصورتی سے سٹیج سجائے(جس کو سجایا بھی مزدور نے, جس کا سامان اٹھا کر لانے, اسے ٹھکانے پر لگانے, بڑے لوگوں کےلئے آرام دہ کرسی ٹھنڈی چھاؤں پنکھوں تک کے لئے تمام تگ و دو بھی مزدور کے ہاتھوں سرانجام پائی) کھڑے مزدور کے بارے میں لیکچر دے رہے ہوتے ہیں بہت عمدہ قسم کے فلسفے جھاڑے جا رہے ہوتے(حتی کہ ابھی گھر میں مزدور کو جھاڑ پلا کر آئے ہوتے, راستہ میں مزدورں کو غیض و غضب سے دیکھ کر آئے ہوتے) ان کی باتیں سن کر ایسا لگتا جیسے ان سا تو ہمدرد کوئی نہیں اور ہم بھی اپنی طرف سے اعلٰی تقاریر سن کر اس دن کا حق ادا کر کے بری الذمہ ہو جاتے ہیں.... 
مگر افسوس صد افسوس
 میں کس منہ سے کہوں میں کس رو سے یہ دن مناؤں؟
گر جن کا حق میں ان کو سکھ نہ دے پاؤں....
میں کروں گی بھی کیا؟میں کر بھی کیسے سکتی... اب تو ٹیکنالوجی کا موبائل کا دور ہے میرے جیسی تمام نوجواں نسل اس روز کو کچھ الگ انداز میں مناتے صبح ہوتے ہی موبائل لیا تمام سوشل اکاؤنٹس پر سٹیٹس لگا کر, مزودر سے اظہار یکجہتی کر کے بری الذمہ (جب کہ وہ مزدور لوگ ان سوشل میڈیا جیسی چیزوں سے واقف بھی نہیں ہوں گے) بعد از لوگ چھٹی منانے نکل جاتے دوستوں کے ساتھ یا فیملی کے ساتھ کھانے پہ جا کر وہاں مزدوروں سے ہی کھانا سرو کرنے کو کہا جاتا, راستے میں گاڑی خراب ہو جائے گھر کے لیۓ سامان لانا پڑ جائے تو مزدور لگا کر اٹھوایا جاتا..... 
آئیں آج کے اس روز عہد اور کوشش کریں جن کے لئے دن منا رہے ان کو سُکھ دیں..... مزدور کے پاس جا کر مزدور کا ہاتھ بٹائیں آج یوم مزدور ہے اسے بھی بتائیں.... ورنہ یہ آپ کی کرخت تقریریں , بڑے بڑے بینرز, آپ کے سٹیٹس ان کو کوئی فائدہ نہ دیں گے...... 
کسی مزدور کو کام پر جاتے دیکھیں تو اسے روک کر اس دن کی دیہاڑی دے دیں
اگر آپ نے خود کام لگوایا ہوا تو آج کے دن مزدور کو چھٹی کرا دیں
آپ کے گھر آئی ملازمہ جو سارا سال آپ کے لئے کام کرتی آج اس کو بیھٹنے دیں اس کے کام خود کریں
آپ کے باورچی جو آپ کے لئے کھانا بناتے ہیں آج آپ ان کو بنا کر کھلائیں
گھر سے باہر کسی مزدور کو مشقت کرتے دیکھیں تو اس کا ہاتھ بٹائیں 

یہ چھوٹے چھوٹے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹا کر کسی اللہ کے بندے کے کام آ کر آپ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا میں بھی کامیاب ہو جائیں گے اور میرے وطن کے مزدور بھی اس روز کی آمد سے فیض یاب ہو پائیں گے.. 

Zil-e-Huma
Mission Holder, Positive Pakistan

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

HayMarket Tragedy کو دنیا بھر میں یوم مزدور کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔  آج دنیا بھر میں عام طور پر کام کے اوقات 8 گھنٹےتصور کئے جاتے ہیں۔ اور یہ اوقات ایک قانون کی صورت اختیار کر چکے ہیں لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا یہ عالمی تعطیل شکاگو کے ان مزدوروں کی یاد میں منائی جاتی ہے جن کو صرف اس جرم  کی  پاداش میں لقمہ اجل بنادیا گیا تھا کہ انھوں نے غیرمنصفانہ اوقات کار کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ 
شکاگو کے ان چند سو مزدوروں کی قربانی کے نتیجے میں امریکہ اور پھر یورپ اوربتدریج پوری دنیا میں کام کے اوقات 8 گھنٹے تک محدود کئے گئے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس قانون کی تشکیل اور عملدرآمد کے لئے کئی سو انسانوں کولقمہ اجل بنانے کے بعد یہ قانون سازی کی گئی۔ تاریخ پر نظر دوڑانے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی جان بالخصوص بندہ مزدور کی جان ہمیشہ سے ہی نہایت ازاں تصور کی جاتی رہی ہے۔
افسوس صد افسوس کہ مغرب میں تو مزدور کی اجرت اور تکریم دور حاضرمیں قدرے بہتر ہے لیکن وہ پاکستان جو ایک اسلامی فلاحی ریاست کا عملی نمونہ ہونا چاہئے تھا آج وہاں مزدور قابل رحم زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آج پاکستان میں ایک مزدور کی آمدن اتنی ہےکہ وہ مکان کا کرایہ اور گھر کا راشن بھی خریدنےکی قؤت نہیں رکھتا۔ بچوں کو اعلی تعلیم دلوانا تو کجاایک مزدور پرائمری سکول میں بھی داخل ہوتے ہوئےلرز اٹھتا ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ایک غریب باپ کا بیٹا غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہونے کے باوجود عزت کے  ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے خواب دیکھتا ہے۔ اور ایک مزدور کی بیٹی اس لئے سخت سردی میں ننگے پاؤں سکول کے گراؤنڈ میں کھڑی ساتھی طالبات سے نظریں چراتی ہے کہ اس کا باپ اس کی سکول کی فیس  بروقت جمع نہیں کروا سکا۔
اورایک مزدور آج بھی صرف ایک دن کام نہ ملنے پر اپنے بچوں کو بھوکا سلانے پر مجبور ہوتا ہے۔    
میں خون بیچ کے روٹی خریدلایا ہوں
امیرشہر بتا یہ حلال ہے کہ نہیں۔۔۔۔
آج مختلف سرکاری اور نجی اداروں میں مزدور یونین مزدوروں کے حقوق کی محافظ سمجھی جاتی ہیں لیکن  یہ یونینز بھی صرف ووٹ لینے کے لئے پیش پیش ہوتی ہیں مگر جیسے ہی انتخابات  کا دور ختم ہوتا ہے ان یونینز کے عہدیدار بھی ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتےہیں۔  اور پھر 4 یا 5 سال بعد اگلے الیکشن کے موقع پر نظر آتے ہیں یا پھر اگر خدانخواستہ کوئی مزدور انتقال کر جائے تو اس کے پسماندگان کو دو یا ڈھائی لاکھ روپے اس کے گھر پر کفن دفن کے اخراجات کا کہہ کر دینے آجاتے  ہیں اور ساتھ میں وفات پاجانے والے مزدور کے بیٹے کو نوکری بھی دلوا دی جاتی ہے جو دراصل مستقبل میں آنے والے تمام الیکشنز میں ووٹ کی پیشگی قیمت سمجھی جاتی ہے۔۔۔۔۔
غرضیکہ ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات۔۔۔
سید فرحان الحسن 
مشن ہولڈر پازیٹو پاکستان

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...