Wednesday 8 May 2019

کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون

یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید۔۔
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون۔۔!
زبان، فن، ٹیکنالوجی غرض یہ کہ دنیا کی ہر چیز ارتقاء کے مرحلے میں ہے۔ آج بیٹھے بیٹھے میں نے سوچا کہ وقت غیر محسوس طریقے سے کتنی جلدی بدلتا ہے۔ مثال کے طور پر آج 2019 میں سمارٹ فونز کی دنیا میں اگر ہمارا کوئی دوست یا رشتہ دار ہمیں کچھ دن کال نہیں کرتا تو ہم اس سے ناراض ہو جاتے ہیں یا پھر اگر کوئی ہماری کال ریسیو نہ کرے تو ہم اس کے ساتھ جینا مرنا ہی ختم کر دیتے ہیں۔
اب ذرا بیسویں صدی کے آخری چند سالوں کا آج کے دور سے ایک تقابلی موازنہ کر لیتے ہیں۔ آج سے قریب دو عشرے قبل  بہت کم لوگوں کے پاس لمبے اینٹینے والے موبائل فون ہوا کرتے تھے یہ موبائل ذیادہ تر گھر پر چارجنگ پر ہی لگے رہا کرتے تھے، ایسا لگتا تھا کہ جیسے ملک میں بجلی کا بحران شدت اختیار کرنے والا ہے اور ان لوگوں کو پیشگی اطلاع مل چکی ہے۔ یا پھر صاحب موبائل پاکستان سے امریکہ پیدل سفر کا ارادہ رکھتے ہیں۔لیکن آپ لوگ غلط سوچ رہے ہیں۔
آج سے 20 سال قبل اگر کوئی غلطی سے بھی کسی کی کال موبائل پر ریسیو کر لیتا تو کال کرنے والے کو غشی کے دورے پڑنے شروع ہو جاتے تھے۔ دوسری جانب جو کال ریسیو کرتا تھا وہ کال کرنے والے کو ایسے ایسے القابات سے نوازتا تھا جو میں ایک اسلامی ریاست کے نوجوانوں کے میگزین میں بیان بھی نہیں کر سکتا۔کیونکہ اس دور میں کال ریسیو کرنے پر بھی رومنگ چارجز ادا کرنے پڑتے تھے۔
آج اکیسویں صدی میں کمپیوٹر گھر گھر کی زینت بن چکا ہے۔ بڑوں سے لے کر بچوں تک سب اس پر یکساں عبور رکھتے ہیں.
بیسویں صدی کے آخری چند سالوں میں پانچ فٹ اونچا اور دو فٹ چوڑا کمپیوٹر 10 کلومیٹر کے رقبہ میں کسی ایک گھر میں ہوا کرتا تھا جس کی فلاپی ڈسک ہی کم و بیش ڈھائی کلو کی ہوا کرتی تھی۔
میں شاید فرط جذبات میں کچھ ذیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کر گیا، چلیں ہر چیز کو 50 فیصد پر لے آئیں یا بس 25 فیصد آخری اس سے کم ہرگز نہیں ہوگا۔ اور بچوں کے لیئے کمپیوٹر آن کرنے کے لیئے ایک شرط ہوا کرتی تھی کہ گھر کے تمام بزرگوں کے سامنے وہ سوپر ماریو یا کونٹرا گیم کھیلیں گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بچہ اکیلے میں انٹرنیٹ استعمال کر لےاور اس کے ذہن پر کوئی منفی اثرات مرتب ہو جائیں۔ ان سادہ لوح بزرگوں کو کون سمجھاتا کہ بغیر ٹیلی فون لائن کے اس دور میں انٹرنیٹ استعمال کرنا ناممکن ہوا کرتا تھا اور وہ لوگ خود فون سننے کے لیئے دو گلیاں چھوڑ کر مائی حمیداں کے گھر جایا کرتے تھے جن کا پوتا کچھ عرصہ قبل ولایت سے لوٹا تھا۔
غرض یہ کہ ہر دور کے اپنے کچھ تقاضے ہیں آج جو قابل قبول ہے وہ آج سے کچھ عرصہ قبل ہرگز قابل قبول نہ تھا اور آج جو گناہ تصور کیا جاتا ہے کچھ وقت بعد رسوم و روایات کا حصہ ہو گا۔
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے!!

سید فرحان الحسن
مشن ہولڈر پازیٹیو پاکستان

3 comments:

  1. A beautiful blog by Syed Farhan Ul Hassan Mission Holder Positive Pakistan from Twin Cities!

    ReplyDelete
  2. Please read and share with your friends & family!

    ReplyDelete

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...