Thursday 25 October 2018

الوندی کی یاد میں

محبتوں میں ہر اک لمحہ وصال ہو گا یہ طے ہوا تھا
بچھڑ کے بھی اک دوسرے کا خیال ہو گا یہ طے ہوا تھا

امید ہے سب لوگ ایمان و صحت کی بہترین حالت میں اپنے اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہوں گے
آج سے تین ماہ پہلے الوندی کی تاریخ، مہینہ اور جگہ فائنل کی گئی۔ پھر یہ ہوا کہ زندگی کے یہ تین ماہ الوندی کو سوچنے اس کو پانے کے انتظار اور انتظام میں جاگتے اور بھاگتے گزر گئے
بالآخر وہ دن بھی آ گیا۔ جب ہم اسلام آباد کی خاموشی کوچھوڑ کر پہاڑوں کی طرف اندھیری سیاہ رات، ہلکی ہلکی خنکی, چاند کے ساتھ سفر کرتے ہوئے، سورج کی کرنوں کے نکلتے ہی ہم بھی ان پہاڑوں پر پہنچ گئے.
جن کے بارے میرا رب کہتا ہے
"اور جس دن چلائیں گے ہم ان پہاڑوں کو اور دیکھے گا تو  زمین کو کھلا میدان اور اکٹھا کریں گے ہم سب کو اور نہیں چھوڑیں گے ہم ان میں سے کسی ایک کو" (الکھف)
اک خیمہ بستی جو پہاڑوں کے وسط میں  دنیا کے جھمیلوں سے دور رکھ کر  اپنی آغوش میں چھپا کر کچھ دن اپنے آپ کو پانے کا گُر سکھانے کیلئے سجائی گئی تھی منتظر تھی ہماری.
الحمد للہ ثم الحمد للہ وہ پیار و محبت کی تین روزہ بستی اپنے اختتام کو ایسے پہنچی کہ دور دراز علاقوں سے آئے مختلف رنگ، نسل زبان اور مزاج سے تعلق رکھنے والوں کے دل آپس میں اک مقصد اور مشن کی خاطر اللہ تعالی نے ایسے جوڑے کہ کوئی بھی اس جگہ اور اک دوسرے کو چھوڑنے پہ آمادہ بخوشی نہیں ہوا۔
مام راہبرز، ایمبیسڈرز، مشن ہولڈرز، ممبرز، آنے والے نئے لوگوں اور بالخصوص صدر پازیٹو پاکستان عابد صاحب کو بہت بہت مبارکباد کہ جنہوں نے اس پروگرام کو بہت خوبصورت اور کامیاب بنایا۔

وقار احمد 
رہبر پازیٹو پاکستان 

Wednesday 24 October 2018

ایک شام خورشید رضوی کے نام

20 اکتوبر بروز ہفتہ پازیٹو پاکستان اور PILAC کے باہمی اشتراک سے ڈاکٹر خورشید رضوی کے علمی اور ادبی کارناموں کے بارے میں ڈاکٹر زاہد منیر کی مرتب کردہ کتاب "ارمغان خورشید" کی تعارفی تقریب منعقد کی گئی. اس کتاب میں اردو اور عربی شاعری بھی شامل کی گئی ہے. اس پوری کتاب کی تحریر کے دوران خورشید صاحب لاعلم رہے اور یہ ان کے لئے بہترین تحفہ ثابت ہوئی.  
اس پروگرام کی کمپررنگ ڈاکٹر فرحی امین، زید حسین اور واعظہ رفیق نے کی.  
اللہ کے پاک نام سے تقریب کا باقاعدہ آغاز کیا گیا. اس موقع پر علم و ادب کی دنیا کی معروف شخصیات نے اظہار خیال کیا جس میں مجیب الرحمن شامی، ڈاکٹر صغرا صدف،  سہیل وڑائچ,  متحرمہ در نجف زیبی، فرید پراچہ، عابد اقبال کھاری،  نذیر احمد، ڈاکٹر حسین احمد پراچہ شامل ہیں. یہ تقریب منفرد اس لئے تھی کہ اس میں صرف ادبی شخصیات نے ہی نہیں بلکہ لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں کے نوجوان طلبا اور اصلاحی تنظیموں کے محرک نوجوانوں نے بھی بھرپور شرکت کی.

 تقریب کے دوران پازیٹو پاکستان کی سوشل میڈیا ٹیم نےکامیاب Twitter ٹرینڈ #ShaamEKhursheed بھی کیا. جس کو پازیٹو پاکستان کے بانی عابد اقبال کھاری صاحب نے بہت سراہا.
تمام مقررین نے خورشید صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کی سر بہت شفیق استاد ہیں اور علم کا دریا ہیں. 
تقریب کے اختتام پر خورشید صاحب نے کہا کہ اس ملک کو اچھے اساتذہ کی ضرورت ہے اور نوجوان نسل کے ساتھ اچھے تعلقات کی ضرورت ہیں.  
"ڈاکٹر خورشید ایک شخضیت کا ہی نہیں بلکہ علم و ادب کا ایک ادارہ ہے اور ہر چھوٹا بڑا ان سے فیض یاب ہوتا ہے."

سعدیہ خالد 
میڈیا ہیڈ لاہور، پازیٹو پاکستان

ایک یادگار سفر

بل کھاتی سڑک، گاڑی آہستہ آہستہ سریلے شور کی جانب تیزی سے اترائی اترتے محو پرواز تھی۔ جوں جوں موڑ کم ہو رہے تھے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے
"میں نکلا او گڈی لے کے، اوہ رستے پر سڑک میں، اک موڑ آیا.. میں اتھے دل چھوڑ آیا"
 اس شور کی سیٹیاں کانوں میں تیز سے تیز تر ہو رہی تھیں
اتنے میں حی علی الصلاح، حی علی الفلاح کی خوبصورت آوازیں پہاڑوں سے ٹکراتے فضاء میں گونج رہی تھیں
ارے اٹھو بھائی!
دیکھو گاڑی کہاں آ رکی ہے۔ صاف و شفاف کنہار  کی موجیں اپنے  پورے جوبن پہ صبح کی سفیدی میں پتھروں سے ٹکراتی ایسے رقص پیش کر رہی تھیں جیسے کوئی ناگ بین کی سروں پہ مست ہوئے اپنا پھن پھیلائے جھوم رہا ہو
گاڑی سے باہر نکلتے ہی سردی اچانک شریر میں کسی انجکشن کی سوئی کی طرح چبھی اور جسم پہ کانٹے سے  ابھرنے لگے۔
جی ہاں، دل کو تھامیے اور ہوش سنبھالیے، آنکھوں کو ملتے ہوئے زور سے کھولیے۔ نہ تو آپ نیند میں ہیں، نہ ہی خواب دیکھ رہے ہیں۔
یہ جمعہ کا دن تھا۔ جب گاڑی فجر کے وقت شاہ اسماعیل شہید  کے شہر بالا کوٹ جا کر نماز کیلئے رکی تو وضو کرنے سے پہلے ہر کوئی ٹونٹی کھولے کھڑا رہا کہ
شاید تیرے دل میں اتر جائے میری بات
کے مصداق پانی گرم آ جائے...
نماز کے مختصر وقفہ، چائے کی چسکیاں اور اب تک کے سفر کو کسی مدلل تجزیہ کار کی مانند اک دوجے سے شیئر کرنے کے بعد گاڑی  اگلے پڑاؤ کیلئے روانہ ہوگئی۔
یادیں بس یادیں رہ جاتی ہیں!
کوئی آیا ہے ذرا آنکھ تو کھولو.. 
اچانک گاڑی رکی تو گاڑی میں سوئے مسافر نیند ہی نیند میں ہڑبڑا اٹھے۔ کیا ہوا ہے۔ کیوں رک گئے ہیں۔ ابھی تو سوئے تھے۔ نیند بھی پوری نہیں ہوئی۔ جسم تھکاوٹ سے ٹوٹ رہا ہے آنکھیں ملتے، انگڑائیاں لیتے کسی کے منہ سے کچھ تو کسی کے منہ سے کوئی جملہ نکلا.. 
جب ذرا ہوش میں آئے اور سب کو گاڑی سے باہر نکلنے کا کہا تو بادل نخواستہ سب ہی تھکے ہارے, منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے باہر آ گئے۔ لیکن باہر کے منظر نے سب کو مبہوت کر دیا ۔ جیسے سب سکتے میں آ گئے ہوں۔ کچھ کہنا، بولنا چاہتے ہوں لیکن ابھی پورا یقین نہیں آ رہا تھا تو آنکھوں کو مَلتے اور زور سے کھول کے ارد گرد کے ماحول کو دیکھنے لگے۔ جہاں کھڑے تھے وہاں شمال کی جانب اک خوبصورت وادی، جہاں پھلوں سے لدے درخت لہلہا رہے تھے۔ خوش رنگ پھولوں نے اپنی خوشبو سے ہوا کو بھی اپنے جادوئی سحر میں جکڑا ہوا تھا۔ ترو تازہ اور ٹھنڈی ہوا نے جہاں روح کو معطر کیا وہیں جسم کے اندر سرایت کرتے ہوئے جلد کے اوپر کانٹوں کی صورت ابھرنے لگی۔ صاف شفاف چشموں کا پتھروں پہ رقص اور کوئل کی خوبصورت کوک، چیڑ کے لمبے سرسبز، بانس نما درخت سر مست جھومتے ہوئے جیسے تالیاں بجا کر آنے والوں کا استقبال کر رہے ہوں۔ چڑیا کا بچہ ابھی گھونسلے سے باہر نکلنے کی ہمت باندھ رہا تھا. 
جی ہاں، یہ 28 ستمبر اگلی جمعرات کی صبح ہے اور ہم الوندی کیلئے شوگراں لینڈ کر چکے ہیں( انشاءاللہ) مسافر اپنے بیلٹ کھول کر اپنا اپنا سامان اٹھا لیں اور اگلی ہدایات کا انتظار کریں. 
اک خوبصورت صبح میں خوبصورت جگہ پر آپکو خوش آمدید کہتے ہیں.. 

وقار احمد 
رہبر پازیٹو پاکستان 

Tuesday 23 October 2018

میرے ایمان کے ساتھی

دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں 
1-  ایک وہ جن میں اخلاق کی کمی مگر مہارت/قابلیت میں میں بہت زبردست ہوتے ہیں
2-  دوسرے وہ جو اعلیٰ اخلاقی اقدار، مہارت/قابلیت میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں 
ہمارے نئے بننے والے دونوں راہبرز سیماب عارف اور عبداللہ دوسری قسم میں آتے ہیں۔ جو اخلاقی اقدار کے ساتھ ساتھ تعلیمی، دنیاوی، تنظیمی مہارت اور قابلیت میں بھی ہم سب سے بہتر ہیں 
آپ دونوں کو "تبدیلی کا آغاز اپنی ذات سے
سلوگن رکھنے والی تنظیم کے ہراول دستے میں اپنا سکہ منوانے کیلئے خوش آمدید کہتا ہوں 
لیکن میرے ایمان کے ساتھیو! 
یہ آپ کی منزل نہیں ہے۔ کیونکہ منزلوں پہ پہنچ کر تو مزہ ختم ہو جاتا ہے 
مزہ تو رستے کی تنگ و تاریک, خاردار جھاڑیوں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے, پر پیچ و خم کھاتی پگڈنڈیوں، دنیا کی رنگینیوں سے ضرورت کے مطابق لطف اٹھانے، طائف کے پتھر کھانے شعب ابی طالب کی تنگ و تاریک  گھاٹیوں میں محصور رہنے، تپتی، کوئلہ جیسی ریت پہ احد احد کہنے میں ہے  
میرے ایمان کے ساتھیو! 
داعی کو تو دریا کی مانند ہونا چاہیے۔ جیسے دریا کو جہاں رستہ ملتا ہے تو اپنے آپ کو پھیلا دیتا ہے۔ جہاں زرخیز زمین ملے تو سیراب کرتا جاتا ہے۔  پتھریلی زمیں  ہو تو وقت ضائع کیے پتھروں کو تر کرتے گزر جاتا ہے۔ پہاڑ آ جائیں تو چیر کے رستہ بنا لیتا ہے۔ رستہ تنگ ہو جائے تو اپنے آپ کو سمیٹ کے گزر جاتا ہے۔ اور کھڑا ہو جائے تو ڈیم کی صورت میں فصلوں کو سیراب کر کے انسانیت کیلئے باعث نفع بن جاتا ہے 
اے میرے ایمان کے ساتھیو! 
وقت کم اور چیلنجز بہت زیادہ ہیں۔ کرنے کے بہت کام ابھی باقی ہیں۔ دوست کم اور دشمن زیادہ ہیں۔ ابھی تو کروڑوں نوجوان جن تک پہنچنا, ساتھ لے کر چلنا ہے۔  نئی اور خوبصورت بوتلوں میں شراب پیش کرنے والے, نوجوان نسل کو تہذیبوں میں الجھا کر اپنے کلچر اور اسلامی روایات سے دور کرنے والے بہت سے کھلاڑی و مداری میدان میں ہیں جن کا ہمیں قدم پھونک پھونک کے مقابلہ کرنا ہے۔ ہمیں آپ سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں امید ہے آپ ہماری ہمت و حوصلہ  بنو  گے, دست و بازو بنو گے, کسی دکھ اور غم میں ہماری ڈھارس باندھو گے۔ بیک وقت اک راہبر اور دریاں بچھانے والے بے لوث کارکن دونوں صورتوں میں پسند و نا پسند, شخصیت پرستی کے معیار سے بالا تر ہو کر صرف اور صرف مشن,مقصد اور رضائے الہی کے حصول کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرو گے  
خدا تمہیں اپنی پناہ میں رکھے۔ تکبر و غرور کے کسی انجانے طوفاں سے باخبر رکھے۔ 
بہت بہت مبارک اور استقامت 

وقار احمد 
راہبر پازیٹو پاکستان 

Tuesday 16 October 2018

اُمّت

یہ قوم جو نازاں ہےکسی دوسرے  کے اقدار پر،اس سے اپنا پتا پوچھو  تو نہ پتا ہو گا۔  ایسی قوم جس کونہ اٹھنے کی تمیز ،نہ کھانے کی ، نہ بولنے کی،نہ اوڑھنےپہنے کی اور نہ ہی رہنے سہنے کی ۔افسوس کہ آج پوری دنیا  ایسی قوم کو قبلہ اور کعبہ سمجھ رہی ہے۔ یہاں ھر کوئ لنڈے کا انگریز بننے کے چکر میں  ہےاور سب ہی وہ کوے معلوم ہوتے ہیں جو چلے تھے ہنس کی چال اور اپنی  بھی بھول گئے۔ 
سب کچھ آنکھوں  کے  سامنے ہوتا دیکھ کر بھی اندھے گونگے بہرے بنے گھوم رہے ہیں۔دجال جو کہ ابھی آیا بھی نہیں اس کی پیروی کرنے والے صدیوں سے اس کے پیغام کا پرچار کرتے پھر رہے ہیں،اس کا راز محفوظ کیے ہوئے ہیں اور اس کے ناپاک مقصد کو کامیاب بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔                
اور اک طرف وہ گمراہ ،گمنام اور  بھٹکتی ہوئ اقوام ہیں جن پر الہامی کتب کا نزول ہوا،انبیاء بھیجے گئے اور رب نے اپنی رحمت سے نوازا لیکن وہ آج  بھیڑ بکریوں کی طرح ان کےپیچھے ہیں جو خدا کے دھتکارے ہوئے قدرت کے ناپسندیدہ گروہ ہیں۔  اللہ کا واسطہ ہے آنکھیں کھولو، اپنے ارد گرد دیکھو، کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ پاک سر زمین جسے بشارتِ نبیﷺ کے طفیل مدینہ ثانی کہا جاتا ہےوہ اس حال میں پہنچ جائے گی،بھٹکتے ہوئے میں سر فہرست ہو گا۔ سوچا بھی نہ تھا کہ اس سر زمین پر کبھی شیطانیت  راج کرے گی اور یہاں کے باشندے بھی  کبھی لا دین  ہوں گے،لیکن ایسا کرنے میں دجال فتنہ باز کامیاب ہو گیا۔  اپنی آنکھیں کھولو اور دیکھو کے وہ  3 یا 4 گنے چنے لوگ جو امت مسلمہ کا بیڑا کندھوں پر اٹھائے تھے، جن کی للکار سے مغرب کی دیواریں کانپ جاتی تھیں۔ آج اپنی ہی امت کے ہاتھوں قصہ پارینہ ہو گئے۔ صدام، قذافی،مرسی ،یاسر عرفات!
 کیا اب  امت مسلمہ میں کوئی مرد مجاہد  نہیں رہا جو اس بھٹکے ہوئے بھیڑوں کے ریوڑ کو سنبھالے پھرے۔ ان کے ممالک  میں بھی مغربی طرز کی  روح پھونکی گئی،کسی کو تبدیلی چاہیےتھی تو کسی کو انقلاب اور آج  بیٹھے ہیں اپنا حال بد حال کر کے۔
ہوش کے ناخن لواور چھوڑ دو یہ ہٹ دھرمی۔ اب شائد ہمارے لئےہدایت آنا بھی بند ہو گئی ہے کیونکہ ہم کسی طور پر بھی ہدایت پر جانے والی قوم معلوم نہیں ہوتے۔ ترکی جہاں سب سے پہلے کمال اتاترک پاشا جیسے مغرب کے پرستار کے ذریعے سے مغربی روح پھونکی گئی تھی۔ آج اس زمین پہ بھی رب کا پیارا مجاہد طیب اردگان پیدا ہو گیا ہے لیکن ایک ہم ہیں کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا آتا ہے اور ہم وہ تنکے اپنے ہاتھوں سے ڈوبا دیتے ہیں۔
رنگ نسل، ذات پات، مذہب فرقہ،دہشت گردی،جرم،سیاست کون کون سی ایسی سولی نہیں جس پر یہ قوم نہ لٹک رہی ہو غرض ہر تکلیف سے دشمنان اسلام اور پاکستان کی تیر اندازی کی مشق ہم پر ہی جاری ہے،ہر طرف سے دشمنوں کے چنگل میں دن بہ دن دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ نت نئے اداکاراور کہانیاں سچی سمجھ بیٹھتے ہیں، جہاں کوئی اشارہ کرتا ہے نفع نقصان کی فکر سے آزاد بھیڑوں کی طرح اندھی تقلید کرنے لگتے ہیں۔ جبکہ ہم سے زیادہ پاکستان کے دشمن اسرائیل اور امریکہ وغیرہ اس حدیث پر یقین رکھے ہوئے ہیں کہ پاکستان مدینہ ثانی ہے، اور مدینہ کے بارے میں کہا گیا کہ دجالی فوج ہر جگہ داخل ہو جائے گی پر کبھی مدینہ داخل نہیں ہو پائے گی تو ہم یہ نادر گمان کیوں نہ اپنا لیں کہ ہم مدینہ ثانی کے باشندے ہیں، اور رب سے اپنی ہدایت اور بہتر رہنمائی کی گزارشات میں دن رات گزاریں کہ فی الحال  تو خدا نہ کرے  کہ ہم دجال کے مہروں کی مٹھی میں ہیں اور مٹھی دن بہ دن  کستی چلی جا رہی ہے، شاید خواب غفلت سے اٹھ جائیں یا شاید پڑے پڑے ہی لقمہ اجل بن جائیں۔۔۔
الفاظ بہت سخت استعمال کیے ہیں،لیکن لکھا لہو سے ہے،کہ خدارا ایک امت ایک قوم بنو۔ اب تو سعودیہ بھی امریکہ نوازیوں کے بعد کھوکھلا ہو کے ہوش سنبھالنا شروع ہوا ہے اور قیامت سر پر کھڑی ہے ،کیا ہمارے پاس اگر مہدی کو بھیجا گیا تو کیا پہچان پائیں گے؟؟؟  کیونکہ ہم تو مشہور ہیں اپنے ہی محسنوں کو اپنے ہاتھوں  ختم کرنے کے لئے۔ کیا اگر مہدی کے ساتھ کےلئے عیسی علیہ السلام آئے تو کیا ہم ان کو بھی  نہیں پہچان پائیں گے؟؟؟ کہ عالم تو یہ ہے کہ ہم آئینہ دیکھیں تو خود کو بھی نہ پہچان پائیں۔
آخر بس دعائے خیر ہے کہ رب ہمیں بچا لے، ہم اس قابل تو نہیں کہ بڑے بڑے دعوے اور دعا کریں،لیکن آخر کو رب العالمین نے یہ حق ہمیں اب تک عطا کر رکھا ہے،بحیثیت امت اجتماعی دعاؤں کی ضرورت ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اجتماعی استغفار کی کہ توبہ کا در ابھی کھلا ہے۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!

سدرہ منیر
لیکچرار، بلاگر،ممبر پازیٹو پاکستان 

Friday 12 October 2018

غزل

سنبھلنے کے لیے ٹھوکر بہت ضروری ہے...
اب اپنے رستے میں کنکر بہت ضروری ہے!

اب اس خیال کو درکار ہے کوئی پیکر
اور اس نظر کو بھی منظر بہت ضروری ہے

نہیں ضروری...یہی، صرف، بس ہی آخر میں...
فلاں، مزید و دیگر بہت ضروری ہے!!

یہ ڈھانپ لیتی ہے لوگوں کی نیتیں تک بھی...
جو سچ کہوں تو یہ چادر بہت ضروری ہے!

معاشی فکر سے بانٹوں گا تیرے دھیان کو میں...
سو بے دھیانی کو دفتر بہت ضروری ہے!

سیماب عارف
ایمبیسڈر پازیٹو پاکستان 

Monday 8 October 2018

DO CELEBRITIES SHOULD BE CONSIDERED OUR ROLE MODELS?


There's a phrase in the West that is used frequently nowadays, it says "Stop making stupid people famous".
There were times when people believed in spiritual enrichment, awakening, intuition, wisdom, and knowledge. People faced hardships to acquire knowledge, to quench the thirst of the soul for knowing more and more. A well-read person is well aware, well-mannered and Nobel one is the one, who has a higher self-esteem, confidence, and a better social status. Since the 17th century, the secret societies working & planning to create a new world order, to mislead people, to empty their brains and souls, to make them sheep and follow blindly they planned for it for ages. And in these placid plans, they designed the traps for people to indulge them in unhealthy, ill-mannered and useless practices to make them forget about the real purpose of life. To kill their intuition, their foreseeing abilities, their conscience, real wisdom, and perspective toward the world life & society. The secret councils after new world ordered to occupy most of the lands, natural resources, and treasures. But to indulge people they started investing in the business, trade, world politics, sports, and entertainment industry. By designing personalities with so much hype, fashion, and so much publicity turned people to fanatic over them.
ENTERTAINMENT INDUSTRY:
    Celebrities like Madonna, Micheal Jackson, bands like Beatles, Jame Morrison, Bob Marley a Beyoncé, Miley Cyrus, Justin Bieber etc. sold their souls to people, who fell prey to their lust for fame. Easy money was chosen, which made Rock star in a jiffy and people started following them blindly. Masses made them ideals and role models. Without even knowing that these were the thieves of conscience, soul and spirit. They found drunk in front of everyone. And the followers believed that drinking is a style statement. If they would practice immoral character, the followers will defend and blindly follow them. With such situations, the so-called "secret bosses" were running their fingers over the purposes they wished for.
THE RELIGIOUS RESISTANCE:
     The real resistance in their path was religion. They started molesting the image of religions around the world. They promoted atheism and atheists just like the celebrities mentioned above. The atheist boldly denied the existence of God and religion. And the people who were sheepish enough were already all set to follow them. They faced more trouble with Islam and Muslims, as Muslims are the toughest when it comes to religion. Muslims can die for their beliefs and faith can never compromise on it. After promoting media and models for many years, they noticed that their plans are not working on Islam. Then, they started portraying them as backward, conservative, terrorists etc. But wherever they pointed the finger, their sheep were ready to blame and hate.
     The need of the hour is to know what is real and what is not. Think more, do more research, don't follow blindly.  Never go astray after a person who has such big differences among his/her actions and beliefs. Follow real people, real teachings &the real world. Gain more knowledge, get well aware & more soulful.


Sidra Munir
The author is the lecturer,zoologist,blogger.


Saturday 6 October 2018

استاد کسے کہتے ہیں؟


ﺁﭖ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﯾﮏ استاد ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ زیادہ تر ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ استاد ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺳﮑﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ.
ﺁﭖ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ!
ﻣﮕﺮ استاد ﮐﯽ ﺩﻭﺭِ ﺟﺪﯾﺪ میں , جدید تعریف ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﺗﻮ ﻭﮦ کچھ ﯾﻮﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ
استاد ایک محرک (موٹیویٹر) کی حیثیت رکھتا ہے. 
ﺍﮔﺮ استاد بچے میں تحریک پیدا نہیں کرتا یعنی اسے موٹیویٹ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﻭﮦ استاد ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﭘﮍﮬﺎ ﺩﯾﻨﺎ، ﺑﺘﺎﺩﯾﻨﺎ، سمجھا دینا ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺍﯾﮏ زندہ دلی بیدارﮐﺮﻧﺎ لگن ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﺎﯾﮧ ﺍﺻﻞ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ.
ﺗﺮﻗﯽ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﭨﯿﭽﻨﮓ ﮐﺎ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ لائسنس(ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﺎﻣﮧ) ﻟﮯ ﮐﺮ  پڑھا ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
ﺍور وہ ٹیچنگ لائسنس جاری ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ استاد میں 6 اہم خوبیاں پرکھی جاتی ہیں.
1. مضمون پہ مہارت
ﺟﺲ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ مضمون ﭘﺮ  مکمل گرفت ﮨﮯ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﮭﺎ استاد ﮨﮯ ﻭﯾﺴﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ عام رائج ﮨﮯ. ﻟﯿﮑﻦ ﺗﺮﻗﯽ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﺁﭘﮑﯽ مضمون میں مہارت ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ بھی جانچا ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ آپکا متعلقہ مضمون کا علم  جدید اور اعلیٰ درجے کا ﺑﮭﯽ ﮨﮯ؟
ﻋﻤﻮﻣﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻭﮨﯽ علم ﮨﻢ آگے لے کر چل ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺁﺧﺮﯼ ﮈﮔﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ.
2. بول چال میں مہارت
ﯾﮧ ﺑﮩﺖ اہم نکتہ ﮨﮯ , بول چال میں میں مہارت رکھنے (ﮐﻤﯿﻮﻧﯿﮑﺸﻦ سکِل) ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ہے ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﯾﮧ ﻓﻦ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺩﻭﺳﺮﮮ انسان ﮐﯽ ﺳﻄﺢ ﭘﺮ ﺁﮐﺮ ﺍﺳﮑﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎﺋﯿﮟ.
3. معاشرتی ذہانت کا حامل
ﺍﺱ ﺧﺎص اصطلاح (سوشل جینیس) ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ انسان ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻠﻨﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﮨﻮ اور ﻣﻠﻨﺴﺎﺭ ﮨﻮ.
ﺍﯾﮏ انسان ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮨﯽ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺳﮑﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ، ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯽ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭼﮭﺎ استاد ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ.
4. تحریک
استاد ﻣﯿﮟ تحریک (موٹیویشن) ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ , ﺟﺬﺑﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، چنگاری (سپارک) ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ استاد ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﺎ.
5. سیکھنے کا شوق
استاد میں ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﺷﻮﻕ ﻻﺯﻣﯽ ﮨﻮ. ﺍﮔﺮﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻢ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﭘﯿﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ علم کا ﭘﯿﺎﺳﺎ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ گے؟
6. ترقی پسند رویہ
ایک استاد کے لیے ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﻮﻧﺎ ﻻﺯﻣﯽ ﮨﮯ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ استاد ﻭﮦ ﮨﮯ جو ﺍﺱ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎئے گا، ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ وہ ﻗﻮﻡ ﮐﻮﮐﯿﺎ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎئے گا؟ 
ﺁﭖ ﺍﻥ خوبیوں ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ.
ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ اساتذہ ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭘﮑﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ گا کہ آج ھمارے بچے باصلاحیت، باحوصلہ اور باکمال کیوں نھیں بن پارہے ہیں.
ذرا سوچیے!


ارم احسان
ممبر پازیٹو پاکستان گجرات

حصہ داری - مثبت پاکستان


ہمارے معاشرے میں جب کوئی خدمت ِخلق کا ارادہ کرتا ہے تو وہ فوراََ ہی کچھ بڑا کرنا چاہتا ہے۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک پرندہ بھی اڑان بھرنے سے پہلے اپنے پرَوں کو چھوٹی چھوٹی جنبش دیتا ہے۔اور پھر ہوا کے دوش پہ اڑتا پھرتا ہے۔
انسان کو کتنی ہی اونچی چھلانگ کیوں نہ لگانی ہو لیکن زمین کا سہارا لئے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ مشہور چینی کہاوت ہے کہ ایک ۱۰۰ سالہ بوڑھا ایک بلند ترین پہاڑ سے نیچے اتر رہا تھا تو ایک نوجوان نے اسے دیکھا تو پوچھا آپ نے یہ پہاڑ کیسے سَر کر دکھایا؟ توبوڑھے شخص کا جواب قابل تعریف تھا۔'' اس نے کہا کہ میرا ہر بڑھتا ہوا قدم اس پہاڑ کی جانب ہی رہا''
اب بات کر لیتے ہیں ایک عام پاکستانی یا  ایک شہری کی جو انسانی ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہوئے عبدالستار ایدھی بننا چاہتا ہے پر وہ اس رتبے کی بلندی دیکھتے ہوئے خود کو بہت چھوٹا محسوس کرنے لگتا ہے۔ اور بہتری کی طرف اٹھائے جانے والے قدموں کو وہیں روک لیتا ہے ۔ایک بات یہاں پر واضح کرنا ضروری ہے کہ جب آپ کسی کی مدد کرنے کیلئے قدم بڑھاتے ہو تو آپکا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ آپکو تو بس اتنا کرنا ہے جتنی آپکی استطاعت ہے۔
عبدالستار ایدھی نے بھی اس سلسلے کا آغاز ایک بچے کی پرورش سے کیا تھا اور وہی انکا پہلا قدم تھا۔ پھر قدم سے قدم ملتے گئے اور انکے اُس سفر کے دوران بہت سے لوگ انکے ہمسفر ہوتے گئے ۔اور پھر وہ ایک مکمل کاروان کی صورت اختیار کر گیا۔
اب کیا اگر ہم ہزاروں لوگوں کی پرورش نہیں کر سکتے تو کیا ہم ایک بچے کی زمہ داری بھی نہیں لے سکتے؟
ہم اگر سینکڑوں لوگوں کو سونے کیلئے بستر نہیں دے سکتے تو کیا ہم کسی ایک کے سونے کا بہتر انتظام بھی نہیں کر سکتے۔
ہمارے ملک میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے اسی عزم اور خالص نیت کیساتھ ایک قدم اٹھایا تھا اور آج سینکڑوں قدم انکے ہمراہ ہیں۔
اسکی سب سے بڑی مثال ہمیں ماسٹر ایوب کی زندگی سے ملتی ہے جو تیس سال کے زائد عرصے سے ایف سکس اسلام آباد کے ایک پارک میں بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنا سفر ایک بچے سے شروع کیا تھا اور آج سینکڑوں بچے ان سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اورکئی ہزارعلم حاصل کر کے جا چکے ہیں۔
اب اگر کوئی شہری اس ملک میں اپنا حصہ ڈالنا چاہے تو کیا وہ پہلے انتظار کرے گا کہ میرے پاس پہلے ماسٹر ایوب کے برابر کلاس ہو جائے تو پھر کچھ سوچوں گا۔
ہر گز نہیں آپ آج ہی ایک بچے کو اپنے گھر بلائیں اور اسے تعلیم دینا شروع کریں۔
'' کیونکہ زندگی سوچنے کا نام نہیں کچھ کر دکھانے کا نام ہے اور جو کرنا وہ آج کرنا ہے''
ایسا بھی ممکن ہے کہ انسانی ہمدردی کے ناتے آپ ہسپتال بنوانے کی خواہش رکھتے ہوں لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے پوری نہ کر سکیں۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ پانی کا فلٹریشن پلانٹ لگانا چاہتے ہوں، غریبوں کیلئے دستر خوان لگانا چاہتے ہوں مگر اب تک ممکن نہیں ہو سکا۔
اور دل میں خوش بھی ہوتے رہیں کہ میں بہت اچھا جذبہ رکھتا ہوں۔ پر کیا  اگر آپ ہسپتال نہیں بنوا سکتے تو کیا کسی ایک غریب کا علاج بھی نہیں کروا سکتے؟
اگر ہم فلٹریشن پلانٹ نہیں لگا سکتے تو کیا ہم گھر کے باہر پانی کا کولر بھی نہیں رکھ سکتے ؟
اگر ہم ملک ریاض کی طرح ایک بہت بڑا دستر خوان نہیں لگا سکتے تو کیا ہم کسی ایک غریب کو روز کھانا بھی نہیں کھلا سکتے ؟
ہمارے پاس جتنے بھی موجودہ وسائل ہیں ہمیں ان ہی سے آغاز کرنا ہے ۔
''جب ہم اسکی مخلوق کی مدد کرتے ہیں تو وہ ہماری مدد کی مقدار نہیں نیت دیکھتا ہے''
حضرت علی کرم الللہ وجہ فرماتے ہیں
''تمکو تمھارے عمل کے بدلے وہ کچھ نہیں ملتا جو تمہیں تمھاری نیت کے عوض ملتا ہے۔ کیونکہ عمل میں دکھاوا آجاتا ہے اور نیت دکھاوے سے پاک ہے''
اور اگر آپ کم وسائل کیساتھ ہی کچھ اچھا شروع کرنا چاہتے ہو تے ہوتو وہ ایسا ہے جیسے آپ نے ایک قدم حرکت دینے کیلئے بڑھایا ہو اور پھر دوسرا قدم اٹھانا آپکی مجبوری بن جاتا ہے۔ کیونکہ آپکا مالک چاہتا ہے کہ آپ آگے بڑھو۔
تو آپ کبھی بھی یہ خیال مت کرو کہ آگے کیا ہوگا آپ صرف اتنا دیکھ سکتے ہو جتنا آپکی گاڑی کی ہیڈ لائیٹس آپکو دکھا رہی ہیں۔ اور جو ذات آگے کا دیکھ رہی ہے وہ یہ بھی جانتی ہے کہ آگے کیا کرنا ہے۔بس آپ قدم بڑھاتے رہیے اس  ا مید کیساتھ کہ جس نے آپکے پہلے تمام مسائل حل کر دیے تھے وہ آج بھی بگڑی ضرور بنا دے گا۔
پروین سعید سورنجی کراچی کی رہائشی خاتون نے جب لوگوں کوبھوک سے بدحال دیکھا تو انکے لئے کچھ کرنے کا عزم کیا۔ اور پہلے دن اپنے گھر پہ صرف پانچ لوگوں کو بلا کر کھانا کھلایا اور یہ نہ سوچا کہ اگر کل کو دس لوگ آگئے تو انکے کھانے کا انتظام کہاں سے ہوگا۔ اور آج سینکڑوں لوگ ہر روز انکے گھر پہ کھانا کھانے کے لئے آتے ہیں اور اب رب تعالیٰ مختلف لوگوں کو وسیلہ بناکر انکی مدد کررہا ہے۔
اگر آپ اس معاشرے میں اس ملک میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہو تو کوئی آپکو روک نہیں سکتا اور آپکے لئے بہت مواقع ہیں۔
عید کے دنوں میں جب ہم سب خریداری میں مصروف ہوتے ہیں تو ہمارےرینجز، پولیس آفیسرز اور دیگر سکیورٹی اہلکار اپنی اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ اگر ہم انکو ایک پھول دے دیں یا انکو سیلوٹ کر لیں تو آپ سوچ نہیں سکتے کہ آپکا وہ دس روپے کا پھول اور اسے عزت میں کیا گیا سلام اسے کتنی خوشی دے سکتا ہے۔
آپ اس معاشرے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیں تو...
صفائی کرنیوالے کو شاباشی دیکر بھی کر سکتے ہیں
پٹرول پمپ پر موجود شخص کو مسکراہٹ بھرا سلام کر کے بھی ڈال سکتے ہیں۔
آپکے پاس پیسہ نہیں تو کیا ہوا اخلاق تو ہے، اور آپ چاہتے ہو کہ آپکو خوشی ملے تو آپ لوگوں میں خوشی بانٹنے کا عمل شروع کر دیجئے۔
چلیں آئیں اور اس معاشرے میں اپنی حصہ داری اپنے گھر سے شروع کریں اپنے کمرے کی صفائی خود کریں، اپنے کھانے کی پلیٹ کو خود صاف کر یں، پانی بجلی کو ضرورت سے کم  استعمال کریں۔
اگر آپ ایک بالٹی پانی کم استعمال کرتے ہیں تو وہ کسی کے گھر میں استعمال ہو سکتا ہے۔اگر آپ ایک بلب اپنے گھر میں بند کردیں تو وہ کسی اور کے گھر میں روشنی دے سکتا ہے۔
''اگر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں تو ہماری حصہ داری یہ بھی ہوگی کہ ہم کسی کا ساتھ دے دیں اسکا ہاتھ بن کر''
اگر ہم یہ بھی نہیں کر سکتے تو ہم تنقید کرنا بند کر کے بھی اس معاشرے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں کیونکہ کسی کو خوش رہنے کا حق دینا ہماری اسلامی ومعاشرتی ذمہ داری میں شامل ہے۔
''کیونکہ اگر ہم گاڑی کو دھکا لگانے سے انکار کر چکے ہیں تو اسکے آگے رکاوٹ بن کر کھڑے ہونے کا حق بھی نہیں رکھتے''
اس ملک کو بلند خیال انسانوں کی ضرورت ہے جو ایک مثبت سوچ پیدا کر سکیں اور یہی سوچ ایک مثبت (پازیٹو) پاکستان بنانے میں مدد دے گی۔
ہم سب کا بلندخیال پاکستان
سلام پاکستان

سید تفسیر عباس رضوی

Friday 5 October 2018

میوزک اور پازیٹو پاکستان

میوزک کلاس کے حوالے سے پوچھا گیا ہے اس کے بارے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے۔
1- میوزک کے حوالے سے ہمارے علماء سخت موقف رکھتے ہیں۔ لیکن اس معاملے میں میرا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ کچھ گنجائش بھی نکلتی ہے۔
2- میوزک، ڈرامہ، فلم جس حد تک ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکے ہیں۔ اس حوالے سے اجتہاد کرنے اور نرم گوشہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
3- میوزک ڈرامہ اور فلم انڈسٹری میں بھی نظریاتی لوگوں کے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس شعبے میں داخلہ کے لیے  میوزیکل کلاس جیسے پروگرامز کرانے میں کوئی حرج نہیں۔
4- پازیٹو پاکستان معاشرے کی غالب اکثریت کو اپنے ساتھ ملانے اور کھڑا کرنے کے لیے کوشاں ہے تاکہ حکومتی اداروں سے مثبت کام کروانے کے لیے دباؤ ڈال سکے۔ اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ معاشرے کے مؤثر طبقات کو ساتھ ملایا جائے۔ اس حوالے سے بہت مذہبی ہونے کا ٹھپہ بھی ہمارے لئے زیادہ مناسب نہیں۔ 
5- میری خواہش ہے کہ پازیٹو پاکستان بھی فنون لطیفہ کا ایک ایسا شعبہ قائم کرے جو میوزک فلم ڈرامے کے شعبوں میں کام کرے اور قدرے بہتر ،  مثبت اور نظریاتی فنون لطیفہ تخلیق کرے۔
عابد اقبال کھاری
صدر پازیٹو پاکستان

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...