Wednesday 28 August 2019

لوکل بمقابلہ برینڈ

پچھلے دنوں ایک نوزائیدہ کالج میں جاب کے لیے جانے کا اتفاق ہوا....جسے ابھی جنم لیے مہینہ ہی گزرا تھا.....
ادارے کے پرنسپل صاحب نے فائل پکڑتے ہوئے پہلا سوال داغا...
"کتنا تجربہ ہے"
ہم نے متانت سے جواب دیا تجربہ تو غلطی سے سیکھنے کا نام ہے...ابھی کسی نے غلطی کرنے کا موقع نہیں دیا....🤪
جناب نے ہمیں گھور کر کہا آپ کا پہلے کسی کالج میں پڑھانے کا تجربہ نہیں ہے....
ہم نے جواب دیا جناب تجربہ بازار سےتو ملتا نہیں...کوئی تو پہلا کالج ہوتا ہے...جہاں سے شروع کیا جاتا ہے کیریر کا سفر....
بولے...آپ کسی "لوکل کالج " میں اپلائے کریں پہلے.....
پوچھا "لوکل کالج کسے کہتے ہیں....
جواب ملا....یہی جو گلی محلوں میں کھلے ہوتے ہیں....چھوٹے موٹے....
گستاخ سوال پھر زبان پہ آ ٹپکا....
گلی محلے میں کھلا کالج لوکل...اور مین روڈ پہ کھلا ہوا برینڈ.....🤔😅
اور چھوٹے موٹے کا اندازہ کیسے لگایا جائے....عمارت کے سائز سے....طلبہ کی تعداد سے یا کالج کی chain نہ ہونے سے.....
اور اگر ہم یہ فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں کہ " لوکل کالج" کونسا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کالج خود کو "لوکل" سمجھتا ہے یا نہیں🤔🤔🤔
معاملہ اب صاحب کی برداشت سے باہر ہو چلا تھا....ہنکار کر بولے....اب یہ آپ کا مسئلہ ہے....
اور ہم اپنا مسئلہ اٹھا کر تشریف لے آئے....
گھر آ کر ڈکشنری کھولی اور لوکل کا مطلب دیکھا تو ہمارے علم پہ تصدیقی مہر لگ گئی کہ... لوکل کا مطلب تو مقامی" ہوتا ہے....یعنی آپ جس شہر کے رہنے والے ہیں وہاں کی چیزیں آپ کے لیے لوکل ہیں....مطلب مقامی....
اس حساب سے تو مندرجہ بالا کالج بھی "لوکل" ہی تھا....
دوسری طرف "برینڈ" کا مطلب نکلا "جلی ہوئی لکڑی کا داغ/ یا داغ کر نشان لگانا..."
تو بھلا نشان زدہ ہونے سے "بہتر ہونے" کا سرٹیفکیٹ کیسے مل جاتا ہے.....
نام ہی کافی ہے کا فارمولا میرے نزدیک بالکل غلط ہے....اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نام کمانا پڑتا ہے مگر "برینڈ" بن جانے کے بعد آپ ہر چیز میں "بہترین" ہو جاتے ہیں یہ کہیں نہیں لکھا....
خیر یہ برینڈڈ رویہ اب زندگی کے ہر شعبے میں دیکھنے کو ملتا ہے.....کپڑے، جوتے، ضرورت کا سامان...تعلیم اور شاید "رویوں" میں بھی....
بچپن میں اماں بازار جایا کرتیں تو ایک تھان سے کپڑا اتروا کر لاتیں اور دو تین بچوں کے اکٹھے کپڑے سی لیا کرتیں....
ویسے تو اب بھی یہی روایت ہے البتہ تھان الگ الگ ہوگئے ہیں اور ہم وردی سے باہر نکل آئے....😄
زمانے نے کروٹ لی اور کپڑوں اور جوتوں کے لیے تھان اور دکانوں کے بجائے پلازہ اور مال کھل گئے.....جہاں دکانیں تو وہی ضرورت کی اشیاء کی تھیں مگر نام اب مولوی انکل کی دکان, پٹھان کی دکان اور خان مارکیٹ جیسے ناموں سے نکل کر کھادی, لائم لائٹ اور نشاط جیسے ناموں میں منتقل ہوگئے....
پتہ چلا کہ یہ برینڈ کا زمانہ ہے....
اور اگر کسی کپڑے کا تعلق فلاں برینڈ سے ہے تو اُسے بہترین اور قیمتی کہا جائے گا....خواہ اس کی بنت اور پٹھان انکل کپڑے والے کے تھان کی بُنت ایک جیسی کیوں نہ ہو.....
یہاں تک تو ٹھیک تھا مگر اس سے ایک قدم آگے یہ بھی طے کرلیا گیا کہ پٹھان انکل کی دکان سے کپڑے خریدنے والے اور برینڈ کی دکان سے خرید کر پہننے والے انسانوں میں بھی بہترین اور کمتر کا مقابلہ ہوگا.....
یہ بات ابھی تک ہضم نہیں ہوسکی....😒
پھر یہ ٹرینڈ کپڑوں جوتوں اور ضرورت کی دوسری اشیاء سے نکل کر انسانوں تک جا پہنچا.....
یعنی نامور انسان کا ہر کام اور ہر بات بہترین ہی گنی جائے گی....گویا "نام ہی کافی ہے" کی پیروی کرتے ہوئے کام پر سے توجہ کم ہوتی گئی....😒
یہ رویہ دوسرے بہت سے شعبوں کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی پھیل گیا....
جو ادیب اور شاعر ایک بار مشہور ہوگیا اس کے بعد خواہ وہ کتنی ہی بےکار تخلیق کیوں نہ کرے اس پہ بلا سوچےسمجھے داد دینا فرض ٹھہرا.....
اس بات سے انکار نہیں کہ نام بنانے اور برینڈ بننے کے لیے محنت درکار ہوتی ہے....مگر یہ محنت اس پہچان کو برقرار رکھنے کے لیے بھی ہونی چاہئیے....ورنہ ہم کپڑوں جوتوں سے لے کر انسانوں تک خوبصورت لفافوں میں گلی سڑی اشیاء خریدتے رہیں گے......نہ صرف خریدتے رہیں گے اس پر خوش بھی ہوتے رہیں گے.....

سیماب عارف
رہبر اور ایڈیٹر ای-میگزین پازیٹو پاکستان 

Sunday 11 August 2019

کشمیر پاکستان کی شہ رگ

پاک بھارت تنازعات میں اہم حصہ مسئلہ کشمیر ہے۔جو بد قسمتی سے ریاست جموں کشمیر کا مسئلہ تقیسم ہندوستان کے وقت  حل نہ ہو سکا ۔ قدرتی  لحاظ  سے ریاست  جموں کشمیر  پاکستان  کا لازمی حصہ  ہے۔ پاکستانی قوم کے لوگ ہی ریاست میں آباد  ہیں ۔ دو قومی  نظریے کی بنیاد پر ہندوستان  کو تقسیم کیا گیا تھا۔ اور اصول یہ تھا کہ مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان  بنیں گے۔ اور ہندو اکثریت والے ہندوستان  بنیں گے۔ اسی اصول  کے تحت  ریاست جموں کشمیر جہاں مسلمان 85 فیصد سے بھی زائد اکثریت رکھتے تھے۔ انہوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان  کیا آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس جو ریاست کے مسلمانوں کی واحد  نمائندہ  جماعت  تھی اس نے بھی جولائی 1947 میں ریاست  کا الحاق پاکستان کے ساتھ ایک قرارداد کے ذریعے کر دیا تھا۔ ریاست جموں کشمیر پاکستان کا ایک لازمی  حصہ ہے۔پاکستانی قوم کے لوگ ریاست میں آباد ہیں۔ ان کا مذہب ایک جغرافیہ ایک کلچر ایک تاریخ ایک انکا خون ایک۔۔۔ حتی  کہ کسی بھی لحاظ سے غور کریں تو ہم ایک قوم ہیں ۔ ریاست  جموں کشمیر پاکستان کا ایک قدرتی  حصہ  ہے ان کا دکھ درد خوشی سب مشترکہ  ہیں۔
پاکستان کشمیر کے بغیر،  کشمیر پاکستان کے بغیر  نا مکمل ہے۔ بانی قائداعظم محمد علی جناح نے گرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کوئی بھی باعزت قوم اپنی شہ رگ کو دشمن  کے حوالے  نہیں  کر سکتی۔ مگر بھارت  نے ان اصولوں  کی نفی کی بھارت نےا947 میں فوج کشی کر کے کشمیر کے بیشتر علاقوں پر قبضہ  کر لیا۔اور مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ اس وقت 5 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔اور بھارت سے بے شمار ظلم و ستم ڈھائے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔اس کے بعد بھی UNO نے قرارداد منظور کی لیکن بھارت  نے اس پر عملدرآمد نہ کی 72 برس بیت گئے۔ لیکن مسئلہ کشمیر جوں کا توں نہ ہوا۔ مسئلہ  کشمیر  نہ صرف اس خطے بلکہ پاکستان کے امن کیلئے خطرے کا باعث ہی بنا  ہوا ہے۔ 
یہ پہلا واقعہ نہیں ھے کہ ہماری شہ رگ کٹ گئی ہماری امن کی کوششوں کو ہماری کمزوری سمجھ لیا گیا ۔کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے کشمیر کے بہادروں کی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دے گی پاکستانی قوم ،  پوری دنیا نے دیکھا کہ کرتارپوربارڈر کو کھولاگیا
جنگی قیدی واپس کیاگیا وہ بھی چائے پلاکر
فضائی حدود کھولی گئیں وہ بھی چند لمحوں میں ہی
گالی اور گولی  کےجواب میں زبردستی مبارکبادیں دی گئیں
سلامتی کونسل میں ھندو بنئیے کے حق میں دنیاکےسامنے ووٹ دیکر اپنی ہی تاریخ کا  بلتکار  کیا گیا 
غرض کہ انکی ہرشرارت کاجواب امن اورپیارکی زباں میں دیاگیا
لیکن۔۔۔۔۔۔ لیکن 
کیاملا۔۔؟؟ کونسی شاباشی ملی ۔۔؟؟
پھر دوبارہ دہشتگردی۔۔؟
پھر کشمیری رہنماؤں کی نظربندی۔۔؟
پھر کشمیری عوام پر گولیوں کی برسات ۔۔؟ 
پھر کشمیری ماوں کی گود اجاڑنے کی رسم ادا ۔۔۔؟ 
پھر کشمیری بہنوں کے سر سے دوپٹے کو کھینچ لینا۔۔؟ 
پھر کلسسٹر بمبز۔۔؟
پھر سرحدی حدود کی خلاف ورزی ۔۔۔؟ 
پھر پاکستان کی خود مختاری پر یلغار ۔۔۔؟ 
ہائے ۔۔۔۔اور سب سے بڑھ کر یہ جو آج ہوا۔۔؟؟
کتنی شرم کی بات ھے کہ پیار دیکر ۔۔۔محبتیں بانٹ کر ۔۔۔ امن کے دیئے جلاکر۔۔۔بند راہیں کھول کر ۔۔۔
سمٹتے بازو پھیلاکر۔۔آنکھوں مین روشنی کے جگنو سجاکر۔
امن کی فاختہ بن کر ۔۔۔ پیار بھرے نغمیں سناکر بھی 
وہ انڈین جسنے ہمیشہ آپ کو اپنے جوتے برابر بھی نہیں سمجھا جب اور جہاں چاہا وار کیا اور کھل کر وار کیا 
لیکن افسوس 
ھم ایک غیرت مند قوم ھوکر بھی ۔۔
ایک نیوکلیئر بم کے مالک کہلواکر بھی 
23کروڑ باھمت عوام کےھوتے ہوئے بھی 
دنیا کی نمبر ون فوج کے ہوتے ہوئے بھی 
توحید پرست ھوکر بھی بت پرستوں کے تلے لیٹے پڑے ہیں 
جی ہاں۔۔۔۔۔۔غیرت مند ماؤں کا پاک دودھ پی کر بھی پیشاب پینے والوں کے نیچے لیٹے پڑے ہیں
اُن لوگوں کی محبت اور درد کو سمجھیں جو اپنے بیٹے شوہر باپ بچوں کو  ہمارے سبزہلالی پرچم میں دفن کرنافخر سمجھتے ہیں۔
حکمرانوں ۔۔۔؟ یاد رکھو غیرت مند قوم کی شہ رگ پر جب کوئی خنجر رکھ دے تو پھر اجلاس نہیں بلایاکرتے پھر صرف مذمتی بیان نہیں دیا کرتے پھر دوسروں کیطرف نہیں دیکھاکرتے بلکہ پلٹ کر وار کیا کرتے ہیں ردعمل دیاکرتے ہیں۔
اسی مسئلہ کشمیر کی وجہ سے بھارت اور پاکستان میں 3 خوفناک جنگیں ہو چکی ہیں اگر یہ مسئلہ پر امن طریقے سے حل نہ ہوا تو چوتھی  جنگل کے بھی امکانات  کو رد نہیں  کیا جاسکتا۔مسئلہ کشمیر انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ پاکستان کشمیروں کی جدوجہد کو اپنا مسئلہ سمجھیں اور غیرت ایمانی  کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کے قبضے سے آزاد کروانے کر دم لے۔بے انتہا جانی شمالی نقصانات کے باوجود کشمیر کے عظیم سپوتوں نے اپنی آزادی کا سودا نہیں  کیا۔ کشمیروں کی جرآت بہادری اور بھارتی تسلط سے آزادی کے حصول کی جدوجہد سے اظہار کیا اور کبھی  بھی امید کا دامن ہاتھ سے نا چھوڑا۔ مجموعی طور پر کشمیر میں شہید  ہونے والے شہیدوں کی تعداد 2017-18-19 کے سروے کے مطابق1لاکھ سے تجاوز کر گئ ہے۔ کشمیروں کی بد قسمتی پر ظلم ستم کی انتہا کردی کیونکہ بھارت ہمیشہ ہی مسلمانوں کے امن کا دشمن رہا ہے۔ پاک بھارت تنازعات کشمیری حریت پسندوں کے درمیان مقبوضہ کشمیر کی ملکیت کا تنازع ہے۔جس کی وجہ سے ہندوستان آئے دن مقبوضہ کشمیر یعنی پاکستان کی سرحد جسے لائن آف کنٹرول بھی کہتے ہیں مسلسل خلافت ورزی کرتا ہے۔اور شدید ظلم  و ستم اور گولہ باری کرتا ہے۔اور جب بھی مذاکرات کی بات کی جائے تو گولہ باری کے ساتھ ساتھ آبی جارحیت پر بھی بھارت  اتر آیا ہے۔جو کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے رخ کا بدترین حصہ ہے آبی تنازعات پر بھی بھارت اتفاق رائے نہ دے سکا بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا۔ یاد رہے پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات پر یہ ایک سو پندرھواں اجلاس تھا۔ اور دونوں ملکوں کے درمیاں 2013 سے اب تک آبی منصوبوں پر 7 دور ہو چکے ہیں۔ لیکن مسئلہ اور اعتراضات بدستور قائم ہیں ۔ اتنے سنگین مسائل اور تنازعات ہونے کے باوجود پاکستان اظہار یکجہتی چاہتا ہے۔ اور اظہار یکجہتی کے طور پر پاکستانی قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔اس جارحیت اور  کشمیر کے امن کے لئے پاکستانی وزیراعظم نے پاک بھارت مذاکرات کرنے چاہئے جس پر بھارت کا شدید  ردعمل تھا ۔ بھارت نے پاکستان کی امن کی خواہش کو کمزوری سمجھ لیا۔بھارت ہمیشہ  کم ظرف،  منفی اور تکبر  بھری  چھوٹی سوچ کا مالک  یہ رہا ہے۔ مذاکرات سے انکار  کے بعد جنگ کی دھمکیاں دینا شروع کر دی لگتا بھارت پچھلی 3 جنگیں بھول گیا  ہے۔ پاکستانی قوم کسی ایسی دھمکیوں سے نہیں ڈرتی بھارت کے بزدلانہ ردعمل پر پاکستانی  جنرل آصف غفور نے کیا خوب جواب دیا بھارت کو اگر کسی قسم کا کوئی شک ہے تو ہم تیار ہیں۔اب اگر جنگ ہوئی تو دنیاہلاکوخان اور ہٹلر کو بھول جائے گی اب مثال پاکستان اور بھارت کی ہوگی مندروں کی گھنٹیوں کی آواز کو ہمیشہ کیلئے  خاموش کروادیا جائے گا ۔اور دہلی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرائے گا۔ انشاءاللہ
عمیرہ اصغر
مشن ہولڈر پازیٹو پاکستان 

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...