Thursday 22 November 2018

خودی


ہم اس دور سے گزر رہے ہیں کہ جب انسان اپنی دوڑ  جیتنے میں مصروفِ عمل ہے۔ اور ان ہی لوگوں کے درمیان  ایک  نام   عابد اقبال کھاری صاحب کا بھی آتا ہے جو دوسروں  کا ہاتھ پکڑ  کر اس نیت سےدوڑ رہے ہیں کہ اگر جیتے تو مل کر جیتیں گے۔
عابد اقبال کھاری صاحب جنکو ایک سماجی کارکن  بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔انکاباقائدہ پلیٹ فارم پاکستان کے خوبصورت علاقے اسلام آباد میں واقع ہے۔ اس پلیٹ فارم کا مقصد پاکستان کے لوگوں خصوصاََ نوجوانوں کو ایک جذبہ دینا ہے۔ ایک ایسا جذبہ کہ جسے تمام پاکستانیوں کو ایک مثبت پیغام مل سکے ۔اور اسی جذبے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس اداردے کا نام بھی پازیٹو پاکستان رکھا گیا ہے۔
اس ادارے کے زیرِ اہتمام سال بھر پاکستان کے مختلف شہروں میں مختلف پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں۔ اور اس ادارے کا بنیادی مقصد علامہ اقبالؒ کا پیغام عام کرنا ہے۔ ہمیشہ کیطرح اس سال بھی ماہِ نومبر میں یومِ اقبال کے سلسلے میں ایک کانفرنس بعنوان’’خودی کو کر بلند‘‘ منعقد کی گئی۔
یہ تقریب ایوانِ قائد، فاطمہ جناح پارک اسلام اۤباد میں منعقد ہوئی جس میں ملک کے مختلف شہروں کے نوجوانوں نے شرکت کی اور اسے شاندار بنادیا۔
کانفرنس کا آغاز عبداللہ خان اور وقار احمد   جو کہ پازیٹو پاکستان کے رہبر ہونے اعزاز  بھی رکھتے ہیں تلاوتِ قرآنِ پاک  اور نعتِ  محمدؐ سے کیا گیا۔
سحرش اور کائنات  صاحبہ نے آکر سٹیج کی زمہ داری کو سنبھالتے ہوئے پازیٹو پاکستان کا مختصر مگر با معنی تعارف کروایا جو کہ مجھ جیسے اور بھی بہت سے لوگوں کے لئے بہت فائدہ مند رہا ۔
اسکے بعد تقریب کا باقائدہ آغاز کائنات صاحبہ کی تقریر بعنوان’’ اقبال اور نوجوان‘‘ سے ہوا۔ جس میں انہوں نے اقبالؒ کے اُس پیغام کے کچھ اشعار بیان کیے جو انہوں نے نوجوانوں کی خاطر تحریر کیے تھے۔ انہوں نے سٹیج پہ کچھ زیادہ ٹائم تو نہیں لیا مگر انکا مختصر سا بیان تمام حاضرین کی توجہ کا مرکز بنا۔

تقریب کے مہمانِ مقررین  سید انیس احمد، سید نصیر احمد گیلانی، طاہرہ عندلیب، شجاع چوہدری، ولید اصغر، یسریٰ، اور ڈاکٹر طاہر ممتاز اعوان نے کلامِ اقبال کی روشنی میں اپنے جوشِ خطابت  سے تمام حاضرین کو  جوش  و  ولولہ دلوا دیا۔ حال میں موجود تمام لوگوں نے مقررین کی خطابت کو بہت سراہا اور تالیوں سے انکی حوصلہ افزائی بھی کی۔
سٹیج پہ آنے والا ہر شخص  کلامِ اقبال کی روشنی میں الفاظ کے زریعے پھول نچھاور کر رہا تھا  اور  حاضرین انکا حق ادا کرنے کیلئے تالیوں سے حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
سحرش، ماہا، نورین اور لاریب صاحبہ نے بڑے ہی احسن طریقے سے سٹیج کی زمہ داری کو سنبھالا ہوا تھا ۔اور آنے والے تمام مقررین کا تعارف انتہائی خوبصورتی سے کرواتی تھیں کہ حال میں بیٹھے تمام حضرات مقررین  کے  سٹیج پہ آنے سے پہلے ہی ان  سے متعارف ہو جاتے تھے۔ اسی اثناء میں عُمیر رضا جو کہ پازیٹو پاکستان کے اہم بازو بھی ہیں وہ سٹیج پہ آئے اور یومِ اقبال کے حوالے سے  اپنا اظہارِ خیال پیش کیا۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی وفاقی وزیر علی محمد خان تھے اور تمام حضرات انکو سُننے کے خواہشمند تھے ۔ مگر ان سے پہلے ایک نوجوان خرم الہی  نے سٹیج پہ  آکر کلامِ اقبال کی روشنی میں اپنا  زاویہ نظر  پیش کیا ۔
اور تمام حال انکی پر جوش خطابت  کو سراہتے ہوئے تالیوں سے گونج اٹھا۔ انکا اندازِ گفتگو  اوراپنی ہر بات کیساتھ اشعارِ اقبال کا صحیح استعمال تمام لوگوں کو انکا گرویدہ بنا رہا تھا۔

ایسے ٹیلنٹ کو پازیٹو پاکستان کے پلیٹ فارم پر دیکھ کر میں بھی داد  دیے بغیر نہ رہ سکا۔ مگر سوچا جائے تو  یہ سہرا   اقبال کھاری صاحب اور انکی  کبھی نا  ہارنے والی خالص اور ایماندار ٹیم کے سَر جاتا ہے۔ جو انہوں نے ہم سب کو ایک جگہ پہ اکھٹا کیا اور  ہم  میں سے کئی  لوگوں کو اپنی زندگی میں کچھ نیا سوچنے  اور اپنی اہمیت  کوسمجھنےکی جستجو دی۔
اقبال کھاری صاحب کو جب سٹیج پہ بلایا گیا  تو  انکو متعارف کروانے کیلئےایک شعر پڑھا گیا۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل  مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کاروان بنتا گیا
مجھے سُن کر ایسا لگا کہ جیسے یہ  دو سطریں نہیں بلکہ کھاری صاحب کا اصل تعارف ہیں۔
وہ سٹیج پہ آئے تو تمام لوگوں نے انکا  تالیوں سے استقبال کیا۔ کھاری صاحب جو کہ اقبالؒ  کو اپنا مرشد  مانتے ہیں انکی تمام گفتگو کلامِ اقبال کی روشنی میں خاص کر  نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے تھی۔ اسکے بعد انہوں نے اس محفل کے مہمانِ خصوصی وفاقی وزیر علی محمد خان صاحب کو سٹیج پہ آنے کیلئے دعوت دی۔ حاضرین نے انہیں عزت دیتےہوئے کھڑے ہوکر استقبال بھی کیا۔
علی محمد خان صاحب نے ملک کے موجودہ حالات پہ ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ  ہمیں ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ جو اپنی معیار  زندگی کو بہتر بنانے کیلئے  کوشاں ہیں اور ایسی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ انہوں نے  عابد اقبال کھاری صاحب کی کوششوں کو سراہتے ہوئے انکی حوصلہ افزائی بھی کی اور ایسی محفل میں انہیں بلانے کیلئے انکا شکریہ بھی ادا کیا۔

اسکے بعد مقررین ،انتظامیہ کے کچھ خاص لوگ اور دیگر کارکنوں میں سرٹیفیکیٹ اور شیلڈ تقسیم کی گئیں۔ انعامات تقسیم کرنے والوں میں وفاقی وزیر علی محمد خان، محمد انیس پازیٹو پاکستان  کے نائب صدر اور ا صدرِ پازیٹو پاکستان اقبال کھاری صاحب بذاتِ خود بھی  شامل تھے۔
اس کانفرنس میں لگ بھگ پانچ سو شرکاء  حاضر ہوئے تھے۔ اور انتظامیہ نے بڑے ہی احسن طریقے سے تمام کام سر انجام دیے۔ سر فہرست عامر رضا،عمیر رفیق،سلمان خٹک، فروہ بتول،کائنات،سدرہ خالد اور باقی تمام انتطامیہ نے اپنی زمہداریوں  کو بخوبی   سر انجام دیا۔ اور پازیٹو پاکستان کی ٹیم  کا ہر رکن  ہر کام کو اپنے ذاتی کام  کیطرح کرتا ہوا دکھائی دیا۔
کانفرنس کو پاکستان کے بڑے نیوز چینلز کی طرف سے میڈیاکوریج بھی حاصل ہوئی جس میں بول،سماء،۹۲،اور دیگر نیوز چینلز بھی شامل تھے۔
پروگرام کے اختتام پہ قائداعظم یونیورسٹی کے طالب علم محمد نقیب نے رباب پیش کیا جس نے ذوق کا سماں باندھ دیا   ۔ یوں کہ لیجئے  تمام حاضرین  موسیقی کی اُس دھن کو سن کر جھوم اٹھے اور اس  طرح محفل کا اختتام پذیر ہوا۔
دے ولولہء شوق جسے لذت پرواز
کرسکتا ہے اک ذرہ مہ و مہر کو تاراج
مشکل نہیں یاران چمن معرکہء باز
پرسوز اگر ہو نفسِ سینہء دراج
تقریب کے منتظم عبداللہ اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ ہم اس پروگرام کی پارٹنر تنظیموں یوتھ فورم، ڈریم پاکستان، ای بلڈ، بیمز کامسیٹس یونیورسٹی اور محافظ امن پاکستان کے بھی شکرگزار ہیں کہ انہوں نے اس پروگرام کو کامیاب کروانے میں ہمارا ساتھ دیا۔

خصوصی رپورٹ: یومِ اقبال اسلام آبا د چیپٹر
سید تفسیر عباس رضوی

Wednesday 21 November 2018

خودی کو کر بلند


17 نومبر بروز ہفتہ پازیٹو پاکستان کے زیرِ اہتمام ایوانِ قائد، اسلام آباد میں "یوتھ اسمبلیج - اگنائٹ خودی" کا انعقاد کیا گیا۔ اس پروگرام میں ملک بھر سے تقریباً 500 نوجوانوں نے شرکت کی۔ اس تقریب کا مقصد نوجوانوں میں اقبال کا فلسفہ خودی اجاگر کر کے انہیں ملک کے ترقی و بقا کے لیے محرک بنانا ہے۔ ملک کی معروف دانشور شخصیات محترم علی محمد خان، سید محمد انیس، نصیر احمد گیلانی، خرم الٰہی، ڈاکڑ طاہرممتاز اعوان، مس طاہرہ عندلیب، میجر شجاع چودھری اور صدر پازیٹو پاکستان عابد اقبال کھاری نے شرکت کی۔تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبولﷺ سے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ قومی ترانے کے بعد رہبر پازیٹو پاکستان ولید اصغر حسینی اور عمیر رضا نے پازیٹو پاکستان کا مختصر تعارف پیش کیا اور تاریخِ پاکستان، اقبال اور آج کے نوجوان کے بارے میں خیالات کا اظہار کیا۔ ہونہار طالبہ یسرہ فیاض اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طلبا نے کلامِ اقبال خوبصورت انداز میں پیش کیا۔
خودی کا سرِ نہاں لا الہ اللہ
خودی ہے تیغِ فساں لا الہ اللہ 

ڈاکٹر طاہر ممتاز کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے اصل کی پہچان کر کے اپنی قابلیت اور صلاحیت کو درست طور پر بروئے کار لانا چاہیے۔ ڈاکٹر عبداللہ نے نوجوانوں سے ابتدائی طبی امداد کی اہمیت پر بات کی۔ شجاع چوہدری نے خودی کی آگاہی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تکلیف سے گزر کر اپنی ذات اور اپنی منزل کو سر کرنا ہی حقیقی خوشی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہم اپنے دماغ اور روح کے لیے بھلائی نہیں کریں گے تو ہم اپنی زندگی سے توازن کھو دیں گے. انیس الرحمن صاحب کا کہنا تھا کہ یقین رکھیں خدا نے آپکو بے مقصد پیدا نہیں کیا، خودکو سمجھو تاکہ دوسرے لوگ تمھیں سمجھ سکیں۔ زین نوید اور ماہ نور بلوچ نے بھی کلامِ اقبال سے حاضرین کو محظوظ کیا۔
صفحۂِ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے

ترک مس طاہرہ عندلیب نے بتایا کہ فارسی زبان میں خودی کا مطلب خود شناسی ہے اور اقبال کا فلسفہ خودی اور اشعار اگر قرآن کے پیغام سے مطابقت نہ رکھتے تو وہ کاٹ دیتے تھے۔نوجوانوں کو آپ نے بہت خوبصورت پیغام دیا کہ خود کے اندر یہ یقین پیدا کر لیں کہ آپکے سنگ سے ہزار چشمیں پھوٹ سکتے ہیں۔ خرم الٰہی نے علامہ اقبال کے کلام کو پڑھنے اور سمجھنے کی تلقین کی. صدر پازیٹو پاکستان عابد اقبال کھاری کا کہنا تھا کہ اقبال کے پیغام کو پاکستان کے کونے کونے تک پہنچائیں گے، آپ ہمارا ساتھ دیں۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

تقریب کی روح رواں محمد علی خان صاحب نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسان سے اسکے ہر عمل کی پوچھ ہوگی۔ ہم اللہ کو پہچانتے ہی نہیں، سجدے کرنے والے تو بہت ہیں لیکن کوئی ہے جو روح سے سجدہ کرنے والا ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارا پورا تعلیمی نظام مل کر ان شاہینوں کو اقبال اور قائدِ اعظم کی زندگی نہ سکھا پایا۔ آپ نے نوجوانوں کو تاکید کرتے ہوئے کہا، آپ کتاب سے رشتہ جوڑیں، مجھے یقین ہے کہ تبدیلی پارلیمنٹ سے نہیں یونیورسٹیز سے آئے گی۔ ان شاءاللہ!

ڈاکٹر طاہر ممتاز، علی محمد خان، مس طاہرہ عندلیب، خرم الٰہی اور دیگر شرکاء نے نوجوانوں کی کردار سازی کے لیے اس طرح کے ٹریننگ پروگرام کے انعقاد پر پازیٹو پاکستان کے کردار کو خوب سراہا۔ تقریب کے اختتام پر مہمانوں، انتظامی کمیٹی اور دیگر شرکاء میں انعامات تقسیم کیے گئے۔ 

پازیٹو پاکستان کی سوشل میڈیا ٹیم سائبریگیڈ نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور فیس بک، ٹویٹر وغیرہ پر موثر انداز میں پروگرام کی تشہیر جاری رکھی۔ مختلف تنظیم دی بیمز، ای-بلڈ پاکستان، محافظِ امن، یوتھ فارم اور ڈریم پاکستان نے اس تقریب کو کامیاب اور یادگار بنانے میں بھرپور تعاون کیا۔ پازیٹو پاکستان آئندہ بھی نوجوانوں کی کردار سازی اور ملک کے مثبت تصور کو برقرار رکھنے کے لیے ہر میدان میں سرگرم عمل رہے گا۔ ان شاء اللہ

شیریں شفیق 
ایمبیسڈر پازیٹو پاکستان 

شرم ہم کو مگر نہیں آتی

شرم ہم کو مگر نہیں آتی
چند سال پہلے کی بات ہے کسی نے مجھ سے کہا...کتابیں پڑھنے کی تو تم بہت شوقین ہو...کبھی سیرت کی کوئی کتاب پڑھی..؟؟
اور مجھے بہت شرم آئی...بلکہ پہلی بار ہی میں نے سوچا....کہ ہاں...حیرت ہے...دنیا جہان کی کتابیں پڑھتے اور جمع کرتے مجھے سیرت پڑھنے کا کبھی خیال نہیں آیا
بچپن کی کچھ درسی کتابوں کے طفیل...کوڑا پھینکنے والی بڑھیا...سفر طائف...اور بدر 313 والے واقعات کے علاوہ...مجھے تو سیرت کا کچھ پتہ ہی نہیں
پھر میں نے پہلی کتاب پڑھی
"محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم"❣
اور پھر اس کے بعد مزید....
میں اس پہ بحث نہیں کرنا چاہتی کہ محبت کے اظہار کے کیا کیا طریقے ہیں....میں بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ محبت کے تقاضوں میں اطاعت کا پہلا نمبر ہے!!❣
کہیں پڑھا تھا...کہ " عشق تقلید کا دوسرا نام ہے"
سو....جب کبھی دعوہِ عشق کریں.....تو ایک نظر آئینے میں ڈال لیں کہ آپ کی ذات...محبوب کی ہستی کا کتنا عکس لیے ہوئے ہے...؟کتنا اُس کے رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں آپ؟؟؟
اور پھر اگر رنگ کچا دِکھے تو......رُک کر پہلے رنگ گاڑھا کریں!
خود کو عشق کی بھٹی میں پکنے دیں....کہ عاشق خود بخود دِکھ جاتے ہیں....عشق کی خوشبو خودبخود پھیلتی ہے...پھیلانی نہیں پڑتی!
سیرت کو اپنے روزانہ مطالعہ کا حصہ بنالیں...تھوڑا تھوڑا کر کے اُسے جاننے کی کوشش تو کریں جس سے آپ محبت کرتے ہیں
ورنہ غیر کے منہ سے یہی فقرہ سنیں گے
شرم تم کو مگر نہیں آتی!
تحریر سیماب عارف

Saturday 17 November 2018

ظالم ابنِ آدمؑ


حضرت علیؑ فرماتےہیں:
’’اے ابنِ آدمؑ  اگر تمہیں ایک کھروچ بھی آتی ہے یا تمھارے جسم پہ خارش بھی ہوتی ہے تو وہ بھی تمھارے خدا کی طرف سے ہے اور اُسکا بھی ایک مقصد ہے‘‘۔
ہماری زندگی میں مشکلات کا آنا ایک فطری عمل ہے کیونکہ اگر آپ زندگی کے دریا میں ہیں تو پتھروں سے ٹکرائیں گے ہی  اور ایسا ہونا  منفی نہیں فطری ہے۔مگر  انسان اتنا بے صبر ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی مشکل درپیش آجائے تو بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر  ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے اور اسے مزید مشکل بنا لیتا ہے۔
اور اس وقت کو بھول جاتا ہے جب وہ آسانی میں تھا اور آج ذرا سی مشکل آنے پہ  شکایت کرنے لگتا ہے۔ یہاں پر ایک بات واضح کرتا ہو آگے بڑوھونگا کہ مشکل میں ہاتھ پاؤں مارنا بھی فطری ہے یا یوں سمجھ لیجئے آپ سمندر میں ڈوب رہے ہیں تو جان بچانے کی خاطر ہاتھ پاؤں تو ماریں گے ہی۔
مگر اب جبکہ ہم جانتے ہیں  کہ درپیش مسلۂ  جانی نقصان نہیں کر سکتا تو ہمیں موجودہ صورتحال کو اپنے خدا کی طرف سے آزمائش سمجھ کر  صبر کرنا چاہیے۔
'' تم کیا کھونے پہ رو رہے ہو کیا جو کچھ تمھارے پاس موجود ہے وہ تمہیں سکون دینے اور ہنسنے کیلئے کافی نہیں''
حضرت محمدﷺ فرماتے ہیں:
’’اگر ہمارا ایک مومن پہاڑ کی چوٹی پہ بھی چلا جائے اور خیال کرے کہ اب کوئی مجھے نقصان نہ پہنچا سکے گا تو خدا وہاں پہ بھی ایک شخص بھیجے گا جو اسے نقصان پہنچائے گا اور خدا اس مومن کو اس تکلیف کے عوض اجر عطا کرتا ہے‘‘۔
بحیثیت مسلمان  ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ایک پتا بھی اسکی مرضی کےبغیر حرکت نہیں کر سکتا تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ اسکے بندے کو کوئی تکلیف پہنچا دے اور اسےخبر بھی نہ ہو۔ یقیناََ اسے ہر شے کی خبر ہے اور جس   چیز کو ہم تکلیف سمجھ رہے ہیں وہ   تو ہمیں حرکت دینے کا ایک زریعہ ہے  ایک پیغام ہے جسے ہم سمجھ نہیں پاتے۔ اگر  گھوڑوں کی دوڑ میں گھڑ سوار اپنے جانور کو ضرب نا دیگا تو وہ جیتے گا کیسے ۔بس مسٔلہ یہ ہے کہ صرف  مالک جانتا ہے ضرب کیوں  اورکب دینی ہے اور کہاں پہنچانا ہے۔ اور جب ہم ایک منزل پہ پہنچ جاتے ہیں تب ہمیں خیال آتا ہے کہ اس وقت ہم  کتنے  مایوس اور نا شکر ہو گئے تھے اور پھر انسان سمجھ پاتا ہے کہ وہ ضرب نہیں ہدایت تھی  ۔ اگر  ہر انسان منزل پہ پہنچنے سے پہلے کچھ صبر کر لے  اور ہر تکلیف کو اسکا تحفہ سمجھ کر قبول کر لے اور اسکا شکر ادا کرتے رہے تو سب مسٔلے خود ہی حل ہو جائیں۔ 
لیکن یہ ایک نظرنہ آنے والی بیماری ہے جو بچپن سے  ہمارے ساتھ پرورش پاتی رہی ہے۔ جب ہم بچے تھے تو ہمیں یہ سکھایا گیا کہ خدا سے اپنے ابو کے رزق کے لئے دعا کرو، اپنے دادا دادی کی صحت کے لئے دعا کرو وغیرہ وغیرہ۔
کیا کسی نے یہ کہا کہ تمھارے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں  اس کے لئے بھی اپنے رب کو یاد کر کے شکر ادا کرو، کیا کسی نے سکھایا کہ اگر تم بیماری میں ہو تو اس کے لئے بھی اسکا شکر ادا کرنا واجب ہے کہ اس نے ہمیں کسی قابل سمجھ کر بیماری عطا کی اور اب وہ ہمارے گناہوں کو دھودیگا۔
یہ وہ تمام باتیں تھی جو گھر کے مدرسے سے سکھائی جانا ضروری تھیں پر افسوس کہ ہم نے مشکل اور بیماری میں صرف شکایت کرنا ہی سیکھا نہ کہ صبر کرنا اور وہی ہم آگے سکھا رہے ہیں۔
حضرت رابعہ بصریؒ کے زمانے میں ایک شخص درد سے کراہتا ہوا  انکی آرام گاہ پہ حاضر ہوا تو آپ نے انکا حال دریافت کیا اور پوچھا کہ اے شخص تونے یہ پٹی اپنے سَر پہ کیوں باندھ رکھی ہے وہ شخص کہتا ہے میرے سَر میں بہت درد ہے بس اسی وجہ سے یہ پٹی باندھی ہے۔
رابعہ بصریؒ  فرماتی ہیں کیا جب تو  سکون میں تھا  تو  تب بھی شکرانے کی پٹی باندھی تھی اور اب  ذرا سی تکلیف میں آیا تو شکایت کرنے لگا۔
اے مجھے پڑھنے اور سننے  والو میں بس اتنا کہنا چاہونگا؛
''جو کچھ بھی مل رہا ہے خواہ  دکھ ہو یا  سکھ ہو اُسے خاموشی  و   احترام سے قبول کرلو کیونکہ فرق اسے نہیں پڑتا کیا ملا ہے کیا حصے میں آیا ہے  فرق تو اسے پڑتا ہے کس سے ملا ہے کس نے دیا ہے۔''
بعض اوقات انسان  مشکل آنے پہ اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ شاید خدا مجھ سے ناراض ہو گیا ہے جو  یہ مشکل درپیش آئی ہےمگر ایسا نہیں ہے خدا کبھی بھی اپنے بندوں کو تکلیف نہیں دیتا  مگر آزمائش اور  اس دنیا سے سب کا جانا تو طے شدہ امر ہے۔
حضرت علیؑ   فرماتے ہیں:
’’اے ابنِ آدمؑ اگر درپیش مشکل کی وجہ سے تم خدا سے دور ہو گئے ہو تو سمجھ لو کہ یہ تمھارے گناہوں کی سزا ہے اور اگر اس مشکل کے آنے سے تم اور بھی اپنے رب کو پکارنے لگے ہو تو یہ تمھارے رب کی طرف سے تم پہ آزمائش ہے۔‘‘
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا  اپنے مومن بندوں کو آزمائش کے زریعے آزماتا ہے بس  یہ انسان ہے جو  ذرا سی ظاہری پریشانی پہ رونے اور شکوہ کرنے لگتا ہے۔
آپ یہ دیکھ لیجئے جیسے سورج و چاند کا اپنے مقررہ وقت پہ طلوع و غروب ہونا، ہواؤں کا چلنا و رکنا، بارش کا ہونا، ایک موسم کے بعد دوسرے موسم کا آنا یہ سب کچھ اپنے اپنے مقررہ وقت پہ ہوتا آ رہا ہے۔ لیکن اگر  موسم کی خرابی کے باعث سورج  نہ نکلے، ہواؤں کا چلنا بند ہو جائے اور زمین کو سورج کی روشنی میسر نہ ہو تو  انسان فوراََ سے چیخ و پکار کرنے لگتا ہے۔
اور اگر ابرِ رحمت نہ برسے تو میدانوں میں نمازِ استسقاء پڑھنے نکل پڑتا ہے مگر وہ شخص اس وقت نمازِ شکرانہ پڑھنے کیوں نہیں نکلا جب سب کچھ ٹھیک تھا اور آج ذراسی نظام  میں تبدیلی کیا ہوئی تو وہ رونے لگا۔ کیونکہ وہ اس نظام  اور ترتیب کا عادی ہو چکا تھا اور اسے اپنا حق سمجھنے لگا تھا  مگر جب خدا   اپنی قدرت اور احسانات کا احساس دلوانے چاہے  تو وہ اپنے نظام میں  ہلکی سی تبدیلی لا کر انسان کو یہ سوچنے پہ مجبور کردیتا ہے کہ اسکی کیا اہمیت ہے۔
حقیقت جانو تو ایک بات بتاؤں انسان واقعی ہی بڑا ظالم  و مطلبی ہے۔ وہ آسانی میں اسے پکارنا ہی نہیں چاہتا اور جب  ہر طرف سے خود کو  لاچاری میں گھرا پاتا ہے تو اس سے زیادہ کوئی مظلوم بھی نہیں لگتا  جس میں آپ اور میں سب شامل ہیں  اور ہمارا پروردگار اس قدر رحمٰن ہے کہ اسے ہماری اس حالت پہ  رحم آجاتا ہے اور وہ اپنی رحمتوں کے خزانے اپنے بندوں پر کھول دیتا ہے۔
وہ بھی کیا کرے ہم اس کے بندے جو ہیں وہ ہم سے پیار ہی اتنا کرتا ہے۔ مگر وہ بھی چاہتا ہے کہ میرے بندے  مجھے بنا مطلب کے بھی یاد کریں با لکل ویسے ہی جیسے ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہم سے  بے غرض پیار کریں۔
 ہمیں کتنا برا محسوس ہوتا ہے جب ہمارا  کوئی عزیز ہمیں مدتوں بعد فون کرے اور ہم خوش ہو رہے ہوں کہ اس نے ہمیں یاد رکھا ہے اور کچھ ہی دیر کے بعد وہ اپنا کوئی کام بتادے تو ہم فوراََ سے کہ دیتے ہیں   آج یاد بھی کیا تو اپنے کام سے۔
لیکن ہم اپنے خدا کیساتھ کیا کر رہے ہیں ہم بھی تو  اسے اپنے کام سے ہی یاد کرتے ہیں۔ جبکہ محبت کا تقاضا تو یہ کہتا ہے کہ اپنے محبوب کا حال دریافت کرتے رہو ہو سکتا ہے تمھارا پوچھ لینا  اسے مسرت عطا کردے۔
مگر وہ بڑا ہی رحم دل رب ہے جو اپنے بندوں کی سن بھی لیتا ہے اور   ہمارے مسکے لگانے پہ مسکرا بھی جاتا ہے  اورپھر معاف بھی کردیتا ہے۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ اسکی مخلوق اسے دور ہو جائے اور اسے بات نہ کرے۔ وہ ہمارے سامنے کوئی نہ کوئی ایسا سبب بنا دیتا ہے جسے ہمارا اسے رشتہ بنا ہی رہتا ہے۔
''شاید وہ ایک بہت ہی اچھا رشتے داربھی  ہے''
لیکن رشتے داری میں تو لین دین کرنا بھی ضروری ہے اور اسے اچھے سلیقے سے نبھانا بھی ضروری ہے۔کوئی بات پری لگنے یا سمجھ نہ آنے پر خاموش اور صبر کرنا بھی ضروری ہے۔
 مگر ہماری کیا اوقات کہ ہم اسے کچھ دے بھی سکیں اورہم نے تو لین دین کے ترازو میں سے صرف لین ہی  سیکھا ہے۔  لیکن وہ خود   بھی تو کہتا ہے کوئی ایسا ہے جو اپنے رب کو قرض دیکر مقروض کرے۔ 
اب جبکہ اس نے ہمیں اس قابل سمجھا ہے تو ہماری کیا اوقات کہ ہم خود کو  ہلکا لیں ۔اورہم بھی کیا کریں   اب اسے مقروض جو کرنے والے ہیں جو سب سے بڑا اور قوتوں والا ہے، جو سب کو نوازنے  والا ہے، اور اب تو ہمارا رشتے دار ہونے والا ہے۔
مگر میں سوچتا ہوں کے اے میرے والی، اے میرے مالک، اے میرے  رازق،اے میرے رب ایسا کیا ہے جو میں تجھے پیش کرسکوں اور تجھے اپنا مقروض کرلوں۔ ایسی وہ کیا بھاری شے ہے، ایسا کونسا خزانہ ہے جو تجھے پیش کیا جائے جبکہ تو تمام خزانوں کا مالک ہے۔
ہم نے سنا ہے جب تم چاہو کہ تمھارا رب تم سے بات کرے تو  قرآن پاک پڑھ لیا کرو۔
اور ہمارا رب فرماتا ہے''اے میرے بندے  تو اپنے ر ب کو اپنی مسکراہٹ کیوں نہیں بھیجتا۔ تو چاہتا ہے کہ تیرا رب تجھ سے خوش رہے تو میری مخلوق کو کیوں خوش نہیں رکھتا۔ تو چاہتا ہے کہ مجھے کچھ دے تو میری مخلوق کچھ کیوں نہیں دیتا۔''
''تو مجھے مقروض کرنا چاہتا ہے تو میری مخلوق کو قرضہ حسنہ کیوں نہیں دیتا۔جو مجھ سے رشتے داری چاہتا ہے تو  جو رشتے میں نے تجھے عطا کیے ہیں تو انکو صحیح کیوں نہیں نبھاتا''۔
''اے میرے بندے سن اور سمجھ لے   تو چاہتا ہے کہ میں تجھ سے پیار کروں تو میری مخلوق سے ویسے پیار رکھ جیسے تو مجھ سے چاہتا ہے۔ اور تیرا رب تو چاہتا ہے کہ  ہر بندہ  مجھے مقروض کرلے اور جب تیرا خدا اپنا قرض اتارے گا  تو  سود سمیت اتارے گا کیوں کہ تیرے رب کے ہاں سود حرام نہیں کیونکہ تمھارا سود اور ہے اور میرا سود اور ہے ۔اور تیرا رب جو  اور جیسے چاہے  ویسے اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے۔''
''اور تمھاری طرف سے بھیجی ہوئی ہر چیز میرے پاس ایک کھیت میں  پلتی اور پرورش پاتی ہے   اور جب تمہیں وہ چیزیں لوٹاؤنگا تو تم اسے کئی گنا پاؤ گے۔ کیونکہ یہ میرا قانون ہے تم زمین میں ایک گندم کا بیج بوتے ہو اور میں اسے کئی گنا کر کے لوٹاتا      ہوں بس تم  شکر اور صبر پہ قائم رہو ''۔
یہاں پہ آپکو ایک قصہ سنانا چاہونگا جو یقیناََ ہمیں صبر وشکر کو سمجھنے میں مدد دیگا۔
ایک شخص بایزید بسطامیؒ  (نام کی مکمل تصدیق نہ ہونے پہ معافی چاہتا ہوں)کی خدمت میں حاضر ہوا  جو رزق کے باعث پریشان تھا۔ تو آپ نے اسکا حال دریافت کیا تو وہ کہتاہے  کرم ہے خدا  کا   مل جائے تو شکر کرتا ہوں نا ملے تو صبر کرتا ہوں۔آپ فرماتے ہیں ایسا تو  بغداد کے کتے بھی کرتے ہیں مل جائے تو شکر کرتے ہیں  نا ملے تو صبر پہ رہتے ہیں۔ وہ شخص کچھ پریشان ہوا اور اپنی پریشانی کو دور کرنے کے لئے آپ کا حال دریافت کیا  کہ فرمائیے کیسی گزر رہی ہے تو  آپ فرماتے ہیں مل جائے تو صدقہ کرتے ہیں اور نہ ملے تو شُکر کرتے ہیں''۔
یقیناََ ایک عام انسان اور اولیاء،اوصیاء،امام و انبیاء کی سوچ وفکر میں  ایک واضح فرق ہوتا ہے جو اُنہیں دوسرے لوگوں سے ممتاز  کرتا ہے۔
ہم نے آج تک یہی سیکھا تھا  کہ مل جانے پہ شکر کرنا ہے اور نا ملنے پہ صبر کرنا ہے اور حقیقت میں ہم لوگ صبر بھی شکوے کی صورت میں کر رہے ہوتے ہیں کہ چل ٹھیک ہے مالک جیسے تیری مرضی  ۔ یہ بیان ہم ایسے دیتے ہیں جیسے  ہم خود بھی بہت کچھ کر سکتے تھے پر تیری مرضی ہے تو ہم خاموش ہیں۔
اور پھر اپنی مرادیں پوری کرنے کیلئے ہم منت بھی مانگتے ہیں اور منت بھی  اپنی پسند کی آسان سی۔۔ اے خدا میری یہ مراد پوری ہو جائے تو میں سوا سو روپے کی نیاز دونگا۔  اور کچھ پیسوں کی منت مان کر ہم  اپنی بال کو خدا کے کوٹ میں پھینک دیتے ہیں۔ اور اپنی زمہ داری سے آزاد ہو جاتے ہیں کہ بس میں نے اپنا کام کردیا  ہےاور اب اے خدا سب کچھ تجھ پہ ہے دیکھ میں نے تو منت بھی مان لی ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ ہم  سوا سو نماز پڑھنے کی منت کیوں نہیں مانگتے اس طرح ہم خدا کو بھی یاد کرتے رہیں گے اور وہ توکہتاہے تم میرا زکر کرو میں تمھارا زکر کرونگا۔ کیا آپ نہیں چاہو گے  آپ کا زکر بھی ہو تا رہے اور اور آپکی منت کی عرضی بھی بار بار پہنچتی رہے۔ لیکن انہی مشکلوں سے بچنے کیلئے ہو تو پیسوں کی منت مانگی ہے۔
  اورمراد پوری ہو  جانے پہ اتنا خوش ہوتے ہیں کہ شکر کرنا ہی بھول جاتے ہیں۔ وہ منت پوری کرنا یاد ہی نہیں رہتا اور کچھ ہفتوں کے بعد سَر پہ پڑی زمہ داری اتار دیجاتی ہے اور وہ نیاز بھی خود ہی کھا لی جاتی ہے۔
بس انسان ہر پل  اسکی نعمتوں سے مستفید ہونے میں لگا ہوا ہے اور اسکی خوشی اور رضا ڈھونڈنے سے غافل ہو چکا ہے۔
جبکہ خدا تو چاہتا ہے کہ حاصل شدہ نعمتوں کو دوسروں میں بانٹ دو چونکہ وہ بانٹنے  کے عمل اور  بانٹنے والے کو بہت پسند کرتا ہے آپکے پاس اسکی راہ میں بانٹنے کیلئے کچھ بھی ہو تو دریغ مت کریں  شرمائیں مت بیشک وہ ایک روٹی ،ایک گلاس پانی یا ایک مسکراہٹ ہی کیوں نہ ہو۔
  ''اے انسان تو کن چکروں میں کھو گیا تجھے  بیت الخلاء  سے باہر آتے وقت دایاں قدم باہر رکھنا  تو یاد ہے پر تو دائیں ہاتھ سے بانٹنا کیسے بھول گیا''
''اور بیشک وہ بانٹی گئی چیز کی مقدار نہیں  بلکہ بانٹنے والی کی نیت دیکھتا ہے۔''
دعا ہے کہ خدا تعاٰلی  ہم سب کے دلوں کو خیر ، محبت اور راہِ حق کی طرف پھیر دے اور بیشک وہ دلوں میں محبت پیدا کرنے پہ قادر ہے۔
آپکا اور ہمارا اللہ نگہبان 
سید تفسیر عباس رضوی

Friday 16 November 2018

Youth Assemblage to Ignite Khudi 2k17

Youth Conference was organized by Positive Pakistan on 4th November 2017 titled Youth Assemblage to Ignite Khudi at Punjab Institute of Language, Art & Culture (PILAC), Qadafi Stadium Lahore.
The basic purpose of the event was to present a tribute to our national poet, Dr. Allama Muhammad Iqbal and promote his concept of Khudi. As per the motto of the organization, this event was organized to motivate and guide our youth to follow Iqbal’s philosophy of Khudi.
Mr. Zaid Hussain and Ms. Waiza Rafique along with Ms. Sammar Sanik hosted the program. In the beginning, Qari Ahmed Javed Hashmi recited few verses from Surah Hashar followed by its translation. The event theme of khudi was inspired by the following verse, 
And be not like those who forgot Allah, so He made them forget themselves. Those are the defiantly disobedient.[59:19]. 
Moving on the in the event, Mr. Fawad Ali presented Kalam-e-Iqbal as Naat-e-rasool ﷺ. The program formally began with the national anthem sung by the management and audience with zealous and enthusiasm. Eyes closed, hands on the chest, and people singing in one voice; it showed how much today’s youth honor and regard their national anthem. 
As the national anthem ended, the guests were invited on the stage by the announcers. The panel consisted of following distinguished guests; Dr. Abdul Qadeer Khan (Chief Guest), Mr. Iqrar-ul-Hassan, Dr. Hussain Ahmed Piracha, Mr. Mujeeb-ur-Rehman Shami, Dr. Sughra Sadaf, Mr. Irshad Arif, Mr. Abid Iqbal Khari, and Mrs. Sabahat Rafique. 

For those who had attended the event by Positive Pakistan for the first time, a brief yet compact introduction of Positive Pakistan was given by Ms. Waiza Rafique. The name Positive Pakistan as its name indicated strives to spread a positive image of Pakistan. The association is working day and night to enhance patriotism, passion, sense of responsibility and persistent learning among the Pakistani people.
After the introduction, Mr Umair Raza & Usman Raza Jolaha shared their views on Iqbal’s philosophy of Khudi. They emphasized on the purpose of mankind’s creation and Iqbal’s message for the youth to be productive. The message for the audience was that we must dream of sky and above, but to dream is not enough, we must work hard in order to make our dreams come true. 

Mrs. Sabahat Rafique appreciated the role of Positive Pakistan in motivating today’s young generation and to develop an insight among them to work for their country. She said, the Iqbal’s concept of Khudi is the basic core of nation’s character and moral building. Dr. Sughra Sadaf also acknowledged the interest and spirit of youth towards the empowerment of Pakistan. She said Iqbal used his poetry to inculcate high standards and moral values in Muslims, and that today’s generation should take guidance from Iqbal’s Philosophy of Khudi to regain its long-lost pride.
During the event to boost audience’ spirit and morale, the students of UET presented the Kalam-e-Iqbal. The audience thoroughly enjoyed the performance and gave huge round of applause to the performers. Later, Mr. Irshad Ahmed said that such events should be organized more often to make our youth aware of our heroes and the great history we all inherit but are unware of. 

Mr. Abid Iqbal said that with the passage of time many countries have become stronger than Pakistan, which were once behind us. He said the basic reason why we are behind many other nations is that we have forgotten our history and our leaders.
Dr. Hussain Piracha acknowledged Positive Pakistan’s efforts and its contribution towards reviving the nationalism among our youth. 

Youth’s sensation Mr. Iqrar Ul Hassan also cherished the contributions of Positive Pakistan. He said that to make Pakistan strong and renowned in the world, first we must make ourselves strong. Then together we can make a huge difference in the society. 

Mr. Mujeeb Ur Rehman emphasized on the challenges Pakistan is currently facing and how we can eliminate these problems by strengthening our youth.
Finally, the moment had arrived for which everyone had been waiting, Dr. Abdul Qadeer Khan’s address to the audience. When Mr. Zahid Hussain announced his name, the PILAC boomed with the slogans of Pakistan Zindabad. 
People were anxious to catch a glimpse of their national hero, the person who had burnt midnight oil to make Pakistan first Islamic Nuclear Power. The audience showed their love and gratitude for their hero with huge round of applause. 
Dr. Abdul Qadeer Khan addressed the youth and said that we need to work hard and prepare ourselves to defend our country and protect it from the enemies. He advised the young generation to strengthen their faith.

In the end, a play was presented by the students of GCU, Lahore. The theme of the play revolved around the concept of Khudi- one should identify and polish his inner aptitude and not depend on others for the fulfillment of his needs. Adding passion and zest in his work, a person can reach the height of success, where others shall follow him.
Lastly, the honorable guests were presented with the token of appreciation. The program ended with the certificate distribution to the management team and other participants. The entire event was covered by the Positive Pakistan’s social media team. The members of this team kept on sharing the glimpse of the program all that time on social media through pictures, live videos, tweets and Facebook posts. The entire team of Positive Pakistan worked tirelessly to make the event informative and source of motivation for the audience. 


It was indeed a great step by the Positive Pakistan team to organize this event. Students from various institutions and numerous youth organizations participated with full zeal and zest from over the Pakistan. It motivated the youth to come forward and contribute in projecting a positive image of Pakistan across the globe. Positive Pakistan will continue playing its role working in making Pakistani youth more motivated and strengthened.
Long Live Pakistan! 🇵🇰
Long Live Positive Pakistan 

Tahira Shaheen
(The writer is Lahore based blogger, paraphraser and trainee Clinical Psychologist.)


https://www.facebook.com/events/309632836289457/

Friday 9 November 2018

Status of Iqbal’s Philosophy in Today’s Era



When you pick up your pen, there are few legends who inspire you more to think, create and write and, Iqbal is one of them. We as a nation, unfortunately, failed the expectations of Iqbal, the philosophy, the ideology and the mirage he dreamt for us. His ideology for the youth of Pakistan, whom he titled as Shaheen, the Eagle. If only we had delivered the true message of Iqbal in our educational institutions, our condition as a nation would have been much better.
We were the people who were blessed with a soul, that was so ancient as well as an advance that he covered centuries in himself. He portrayed in his poetry the mysteries hidden in pages of times, long ago and ages to come. Iqbal wasn't a man of one day, he was the man of an Era. The world is familiar with Rumi as they find him modern and secular, most of them entirely leave Rumi's spiritual and religious side, aside. We failed Iqbal in spreading his message to the whole world. It was Iqbal's right that his words should have been spread in the world as a universal study. The secrets and mysteries that his words hold should have delivered to the lands that crave for wisdom.
There's an alley in Germany is named after Iqbal, there are universities that offer a Doctorate in Iqbaliat and if other countries can offer such respect to Iqbal, why should not we? Indians portrayed Gandhi as a spiritual leader in the world. His quotes are known in the entire world. This is not a comparison but we know that Iqbal is beyond all these measures and limits. His words are the elaboration of the Holy Quran which is the book of every Era. The need of the hour is to invest our time and energies toward studies of Iqbal and decode the mysteries present in them and convert them into precise & effective literature to make them attractive for the younger generation so that they take an interest & read Iqbal with more zeal.

Sidra Munir
The author is the lecturer, zoologist, blogger


Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...