Saturday 17 November 2018

ظالم ابنِ آدمؑ


حضرت علیؑ فرماتےہیں:
’’اے ابنِ آدمؑ  اگر تمہیں ایک کھروچ بھی آتی ہے یا تمھارے جسم پہ خارش بھی ہوتی ہے تو وہ بھی تمھارے خدا کی طرف سے ہے اور اُسکا بھی ایک مقصد ہے‘‘۔
ہماری زندگی میں مشکلات کا آنا ایک فطری عمل ہے کیونکہ اگر آپ زندگی کے دریا میں ہیں تو پتھروں سے ٹکرائیں گے ہی  اور ایسا ہونا  منفی نہیں فطری ہے۔مگر  انسان اتنا بے صبر ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی مشکل درپیش آجائے تو بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر  ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے اور اسے مزید مشکل بنا لیتا ہے۔
اور اس وقت کو بھول جاتا ہے جب وہ آسانی میں تھا اور آج ذرا سی مشکل آنے پہ  شکایت کرنے لگتا ہے۔ یہاں پر ایک بات واضح کرتا ہو آگے بڑوھونگا کہ مشکل میں ہاتھ پاؤں مارنا بھی فطری ہے یا یوں سمجھ لیجئے آپ سمندر میں ڈوب رہے ہیں تو جان بچانے کی خاطر ہاتھ پاؤں تو ماریں گے ہی۔
مگر اب جبکہ ہم جانتے ہیں  کہ درپیش مسلۂ  جانی نقصان نہیں کر سکتا تو ہمیں موجودہ صورتحال کو اپنے خدا کی طرف سے آزمائش سمجھ کر  صبر کرنا چاہیے۔
'' تم کیا کھونے پہ رو رہے ہو کیا جو کچھ تمھارے پاس موجود ہے وہ تمہیں سکون دینے اور ہنسنے کیلئے کافی نہیں''
حضرت محمدﷺ فرماتے ہیں:
’’اگر ہمارا ایک مومن پہاڑ کی چوٹی پہ بھی چلا جائے اور خیال کرے کہ اب کوئی مجھے نقصان نہ پہنچا سکے گا تو خدا وہاں پہ بھی ایک شخص بھیجے گا جو اسے نقصان پہنچائے گا اور خدا اس مومن کو اس تکلیف کے عوض اجر عطا کرتا ہے‘‘۔
بحیثیت مسلمان  ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ایک پتا بھی اسکی مرضی کےبغیر حرکت نہیں کر سکتا تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ اسکے بندے کو کوئی تکلیف پہنچا دے اور اسےخبر بھی نہ ہو۔ یقیناََ اسے ہر شے کی خبر ہے اور جس   چیز کو ہم تکلیف سمجھ رہے ہیں وہ   تو ہمیں حرکت دینے کا ایک زریعہ ہے  ایک پیغام ہے جسے ہم سمجھ نہیں پاتے۔ اگر  گھوڑوں کی دوڑ میں گھڑ سوار اپنے جانور کو ضرب نا دیگا تو وہ جیتے گا کیسے ۔بس مسٔلہ یہ ہے کہ صرف  مالک جانتا ہے ضرب کیوں  اورکب دینی ہے اور کہاں پہنچانا ہے۔ اور جب ہم ایک منزل پہ پہنچ جاتے ہیں تب ہمیں خیال آتا ہے کہ اس وقت ہم  کتنے  مایوس اور نا شکر ہو گئے تھے اور پھر انسان سمجھ پاتا ہے کہ وہ ضرب نہیں ہدایت تھی  ۔ اگر  ہر انسان منزل پہ پہنچنے سے پہلے کچھ صبر کر لے  اور ہر تکلیف کو اسکا تحفہ سمجھ کر قبول کر لے اور اسکا شکر ادا کرتے رہے تو سب مسٔلے خود ہی حل ہو جائیں۔ 
لیکن یہ ایک نظرنہ آنے والی بیماری ہے جو بچپن سے  ہمارے ساتھ پرورش پاتی رہی ہے۔ جب ہم بچے تھے تو ہمیں یہ سکھایا گیا کہ خدا سے اپنے ابو کے رزق کے لئے دعا کرو، اپنے دادا دادی کی صحت کے لئے دعا کرو وغیرہ وغیرہ۔
کیا کسی نے یہ کہا کہ تمھارے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں  اس کے لئے بھی اپنے رب کو یاد کر کے شکر ادا کرو، کیا کسی نے سکھایا کہ اگر تم بیماری میں ہو تو اس کے لئے بھی اسکا شکر ادا کرنا واجب ہے کہ اس نے ہمیں کسی قابل سمجھ کر بیماری عطا کی اور اب وہ ہمارے گناہوں کو دھودیگا۔
یہ وہ تمام باتیں تھی جو گھر کے مدرسے سے سکھائی جانا ضروری تھیں پر افسوس کہ ہم نے مشکل اور بیماری میں صرف شکایت کرنا ہی سیکھا نہ کہ صبر کرنا اور وہی ہم آگے سکھا رہے ہیں۔
حضرت رابعہ بصریؒ کے زمانے میں ایک شخص درد سے کراہتا ہوا  انکی آرام گاہ پہ حاضر ہوا تو آپ نے انکا حال دریافت کیا اور پوچھا کہ اے شخص تونے یہ پٹی اپنے سَر پہ کیوں باندھ رکھی ہے وہ شخص کہتا ہے میرے سَر میں بہت درد ہے بس اسی وجہ سے یہ پٹی باندھی ہے۔
رابعہ بصریؒ  فرماتی ہیں کیا جب تو  سکون میں تھا  تو  تب بھی شکرانے کی پٹی باندھی تھی اور اب  ذرا سی تکلیف میں آیا تو شکایت کرنے لگا۔
اے مجھے پڑھنے اور سننے  والو میں بس اتنا کہنا چاہونگا؛
''جو کچھ بھی مل رہا ہے خواہ  دکھ ہو یا  سکھ ہو اُسے خاموشی  و   احترام سے قبول کرلو کیونکہ فرق اسے نہیں پڑتا کیا ملا ہے کیا حصے میں آیا ہے  فرق تو اسے پڑتا ہے کس سے ملا ہے کس نے دیا ہے۔''
بعض اوقات انسان  مشکل آنے پہ اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ شاید خدا مجھ سے ناراض ہو گیا ہے جو  یہ مشکل درپیش آئی ہےمگر ایسا نہیں ہے خدا کبھی بھی اپنے بندوں کو تکلیف نہیں دیتا  مگر آزمائش اور  اس دنیا سے سب کا جانا تو طے شدہ امر ہے۔
حضرت علیؑ   فرماتے ہیں:
’’اے ابنِ آدمؑ اگر درپیش مشکل کی وجہ سے تم خدا سے دور ہو گئے ہو تو سمجھ لو کہ یہ تمھارے گناہوں کی سزا ہے اور اگر اس مشکل کے آنے سے تم اور بھی اپنے رب کو پکارنے لگے ہو تو یہ تمھارے رب کی طرف سے تم پہ آزمائش ہے۔‘‘
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا  اپنے مومن بندوں کو آزمائش کے زریعے آزماتا ہے بس  یہ انسان ہے جو  ذرا سی ظاہری پریشانی پہ رونے اور شکوہ کرنے لگتا ہے۔
آپ یہ دیکھ لیجئے جیسے سورج و چاند کا اپنے مقررہ وقت پہ طلوع و غروب ہونا، ہواؤں کا چلنا و رکنا، بارش کا ہونا، ایک موسم کے بعد دوسرے موسم کا آنا یہ سب کچھ اپنے اپنے مقررہ وقت پہ ہوتا آ رہا ہے۔ لیکن اگر  موسم کی خرابی کے باعث سورج  نہ نکلے، ہواؤں کا چلنا بند ہو جائے اور زمین کو سورج کی روشنی میسر نہ ہو تو  انسان فوراََ سے چیخ و پکار کرنے لگتا ہے۔
اور اگر ابرِ رحمت نہ برسے تو میدانوں میں نمازِ استسقاء پڑھنے نکل پڑتا ہے مگر وہ شخص اس وقت نمازِ شکرانہ پڑھنے کیوں نہیں نکلا جب سب کچھ ٹھیک تھا اور آج ذراسی نظام  میں تبدیلی کیا ہوئی تو وہ رونے لگا۔ کیونکہ وہ اس نظام  اور ترتیب کا عادی ہو چکا تھا اور اسے اپنا حق سمجھنے لگا تھا  مگر جب خدا   اپنی قدرت اور احسانات کا احساس دلوانے چاہے  تو وہ اپنے نظام میں  ہلکی سی تبدیلی لا کر انسان کو یہ سوچنے پہ مجبور کردیتا ہے کہ اسکی کیا اہمیت ہے۔
حقیقت جانو تو ایک بات بتاؤں انسان واقعی ہی بڑا ظالم  و مطلبی ہے۔ وہ آسانی میں اسے پکارنا ہی نہیں چاہتا اور جب  ہر طرف سے خود کو  لاچاری میں گھرا پاتا ہے تو اس سے زیادہ کوئی مظلوم بھی نہیں لگتا  جس میں آپ اور میں سب شامل ہیں  اور ہمارا پروردگار اس قدر رحمٰن ہے کہ اسے ہماری اس حالت پہ  رحم آجاتا ہے اور وہ اپنی رحمتوں کے خزانے اپنے بندوں پر کھول دیتا ہے۔
وہ بھی کیا کرے ہم اس کے بندے جو ہیں وہ ہم سے پیار ہی اتنا کرتا ہے۔ مگر وہ بھی چاہتا ہے کہ میرے بندے  مجھے بنا مطلب کے بھی یاد کریں با لکل ویسے ہی جیسے ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہم سے  بے غرض پیار کریں۔
 ہمیں کتنا برا محسوس ہوتا ہے جب ہمارا  کوئی عزیز ہمیں مدتوں بعد فون کرے اور ہم خوش ہو رہے ہوں کہ اس نے ہمیں یاد رکھا ہے اور کچھ ہی دیر کے بعد وہ اپنا کوئی کام بتادے تو ہم فوراََ سے کہ دیتے ہیں   آج یاد بھی کیا تو اپنے کام سے۔
لیکن ہم اپنے خدا کیساتھ کیا کر رہے ہیں ہم بھی تو  اسے اپنے کام سے ہی یاد کرتے ہیں۔ جبکہ محبت کا تقاضا تو یہ کہتا ہے کہ اپنے محبوب کا حال دریافت کرتے رہو ہو سکتا ہے تمھارا پوچھ لینا  اسے مسرت عطا کردے۔
مگر وہ بڑا ہی رحم دل رب ہے جو اپنے بندوں کی سن بھی لیتا ہے اور   ہمارے مسکے لگانے پہ مسکرا بھی جاتا ہے  اورپھر معاف بھی کردیتا ہے۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ اسکی مخلوق اسے دور ہو جائے اور اسے بات نہ کرے۔ وہ ہمارے سامنے کوئی نہ کوئی ایسا سبب بنا دیتا ہے جسے ہمارا اسے رشتہ بنا ہی رہتا ہے۔
''شاید وہ ایک بہت ہی اچھا رشتے داربھی  ہے''
لیکن رشتے داری میں تو لین دین کرنا بھی ضروری ہے اور اسے اچھے سلیقے سے نبھانا بھی ضروری ہے۔کوئی بات پری لگنے یا سمجھ نہ آنے پر خاموش اور صبر کرنا بھی ضروری ہے۔
 مگر ہماری کیا اوقات کہ ہم اسے کچھ دے بھی سکیں اورہم نے تو لین دین کے ترازو میں سے صرف لین ہی  سیکھا ہے۔  لیکن وہ خود   بھی تو کہتا ہے کوئی ایسا ہے جو اپنے رب کو قرض دیکر مقروض کرے۔ 
اب جبکہ اس نے ہمیں اس قابل سمجھا ہے تو ہماری کیا اوقات کہ ہم خود کو  ہلکا لیں ۔اورہم بھی کیا کریں   اب اسے مقروض جو کرنے والے ہیں جو سب سے بڑا اور قوتوں والا ہے، جو سب کو نوازنے  والا ہے، اور اب تو ہمارا رشتے دار ہونے والا ہے۔
مگر میں سوچتا ہوں کے اے میرے والی، اے میرے مالک، اے میرے  رازق،اے میرے رب ایسا کیا ہے جو میں تجھے پیش کرسکوں اور تجھے اپنا مقروض کرلوں۔ ایسی وہ کیا بھاری شے ہے، ایسا کونسا خزانہ ہے جو تجھے پیش کیا جائے جبکہ تو تمام خزانوں کا مالک ہے۔
ہم نے سنا ہے جب تم چاہو کہ تمھارا رب تم سے بات کرے تو  قرآن پاک پڑھ لیا کرو۔
اور ہمارا رب فرماتا ہے''اے میرے بندے  تو اپنے ر ب کو اپنی مسکراہٹ کیوں نہیں بھیجتا۔ تو چاہتا ہے کہ تیرا رب تجھ سے خوش رہے تو میری مخلوق کو کیوں خوش نہیں رکھتا۔ تو چاہتا ہے کہ مجھے کچھ دے تو میری مخلوق کچھ کیوں نہیں دیتا۔''
''تو مجھے مقروض کرنا چاہتا ہے تو میری مخلوق کو قرضہ حسنہ کیوں نہیں دیتا۔جو مجھ سے رشتے داری چاہتا ہے تو  جو رشتے میں نے تجھے عطا کیے ہیں تو انکو صحیح کیوں نہیں نبھاتا''۔
''اے میرے بندے سن اور سمجھ لے   تو چاہتا ہے کہ میں تجھ سے پیار کروں تو میری مخلوق سے ویسے پیار رکھ جیسے تو مجھ سے چاہتا ہے۔ اور تیرا رب تو چاہتا ہے کہ  ہر بندہ  مجھے مقروض کرلے اور جب تیرا خدا اپنا قرض اتارے گا  تو  سود سمیت اتارے گا کیوں کہ تیرے رب کے ہاں سود حرام نہیں کیونکہ تمھارا سود اور ہے اور میرا سود اور ہے ۔اور تیرا رب جو  اور جیسے چاہے  ویسے اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے۔''
''اور تمھاری طرف سے بھیجی ہوئی ہر چیز میرے پاس ایک کھیت میں  پلتی اور پرورش پاتی ہے   اور جب تمہیں وہ چیزیں لوٹاؤنگا تو تم اسے کئی گنا پاؤ گے۔ کیونکہ یہ میرا قانون ہے تم زمین میں ایک گندم کا بیج بوتے ہو اور میں اسے کئی گنا کر کے لوٹاتا      ہوں بس تم  شکر اور صبر پہ قائم رہو ''۔
یہاں پہ آپکو ایک قصہ سنانا چاہونگا جو یقیناََ ہمیں صبر وشکر کو سمجھنے میں مدد دیگا۔
ایک شخص بایزید بسطامیؒ  (نام کی مکمل تصدیق نہ ہونے پہ معافی چاہتا ہوں)کی خدمت میں حاضر ہوا  جو رزق کے باعث پریشان تھا۔ تو آپ نے اسکا حال دریافت کیا تو وہ کہتاہے  کرم ہے خدا  کا   مل جائے تو شکر کرتا ہوں نا ملے تو صبر کرتا ہوں۔آپ فرماتے ہیں ایسا تو  بغداد کے کتے بھی کرتے ہیں مل جائے تو شکر کرتے ہیں  نا ملے تو صبر پہ رہتے ہیں۔ وہ شخص کچھ پریشان ہوا اور اپنی پریشانی کو دور کرنے کے لئے آپ کا حال دریافت کیا  کہ فرمائیے کیسی گزر رہی ہے تو  آپ فرماتے ہیں مل جائے تو صدقہ کرتے ہیں اور نہ ملے تو شُکر کرتے ہیں''۔
یقیناََ ایک عام انسان اور اولیاء،اوصیاء،امام و انبیاء کی سوچ وفکر میں  ایک واضح فرق ہوتا ہے جو اُنہیں دوسرے لوگوں سے ممتاز  کرتا ہے۔
ہم نے آج تک یہی سیکھا تھا  کہ مل جانے پہ شکر کرنا ہے اور نا ملنے پہ صبر کرنا ہے اور حقیقت میں ہم لوگ صبر بھی شکوے کی صورت میں کر رہے ہوتے ہیں کہ چل ٹھیک ہے مالک جیسے تیری مرضی  ۔ یہ بیان ہم ایسے دیتے ہیں جیسے  ہم خود بھی بہت کچھ کر سکتے تھے پر تیری مرضی ہے تو ہم خاموش ہیں۔
اور پھر اپنی مرادیں پوری کرنے کیلئے ہم منت بھی مانگتے ہیں اور منت بھی  اپنی پسند کی آسان سی۔۔ اے خدا میری یہ مراد پوری ہو جائے تو میں سوا سو روپے کی نیاز دونگا۔  اور کچھ پیسوں کی منت مان کر ہم  اپنی بال کو خدا کے کوٹ میں پھینک دیتے ہیں۔ اور اپنی زمہ داری سے آزاد ہو جاتے ہیں کہ بس میں نے اپنا کام کردیا  ہےاور اب اے خدا سب کچھ تجھ پہ ہے دیکھ میں نے تو منت بھی مان لی ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ ہم  سوا سو نماز پڑھنے کی منت کیوں نہیں مانگتے اس طرح ہم خدا کو بھی یاد کرتے رہیں گے اور وہ توکہتاہے تم میرا زکر کرو میں تمھارا زکر کرونگا۔ کیا آپ نہیں چاہو گے  آپ کا زکر بھی ہو تا رہے اور اور آپکی منت کی عرضی بھی بار بار پہنچتی رہے۔ لیکن انہی مشکلوں سے بچنے کیلئے ہو تو پیسوں کی منت مانگی ہے۔
  اورمراد پوری ہو  جانے پہ اتنا خوش ہوتے ہیں کہ شکر کرنا ہی بھول جاتے ہیں۔ وہ منت پوری کرنا یاد ہی نہیں رہتا اور کچھ ہفتوں کے بعد سَر پہ پڑی زمہ داری اتار دیجاتی ہے اور وہ نیاز بھی خود ہی کھا لی جاتی ہے۔
بس انسان ہر پل  اسکی نعمتوں سے مستفید ہونے میں لگا ہوا ہے اور اسکی خوشی اور رضا ڈھونڈنے سے غافل ہو چکا ہے۔
جبکہ خدا تو چاہتا ہے کہ حاصل شدہ نعمتوں کو دوسروں میں بانٹ دو چونکہ وہ بانٹنے  کے عمل اور  بانٹنے والے کو بہت پسند کرتا ہے آپکے پاس اسکی راہ میں بانٹنے کیلئے کچھ بھی ہو تو دریغ مت کریں  شرمائیں مت بیشک وہ ایک روٹی ،ایک گلاس پانی یا ایک مسکراہٹ ہی کیوں نہ ہو۔
  ''اے انسان تو کن چکروں میں کھو گیا تجھے  بیت الخلاء  سے باہر آتے وقت دایاں قدم باہر رکھنا  تو یاد ہے پر تو دائیں ہاتھ سے بانٹنا کیسے بھول گیا''
''اور بیشک وہ بانٹی گئی چیز کی مقدار نہیں  بلکہ بانٹنے والی کی نیت دیکھتا ہے۔''
دعا ہے کہ خدا تعاٰلی  ہم سب کے دلوں کو خیر ، محبت اور راہِ حق کی طرف پھیر دے اور بیشک وہ دلوں میں محبت پیدا کرنے پہ قادر ہے۔
آپکا اور ہمارا اللہ نگہبان 
سید تفسیر عباس رضوی

1 comment:

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...