Saturday 23 March 2019

حق اور استحقاق

سفیر عباس صاحب ہمارے باٹنی کے استاد تھے....جتنے اچھے طریقے سے پڑھاتے تھے اتنے ہی احسن انداز میں زندگی سکھاتے تھے....میں BSc کے بعد ان سے کبھی نہیں ملی...نہ کبھی رابطہ ہوا...مگر ان کے سکھائے کچھ سبق اب بھی بہت جگہوں پہ کام آتے ہیں💗
ان میں ایک بہترین سبق جو مجھے زندگی میں کبھی کسی دوسری جگہ نہیں ملا...وہ تھا حق اور استحقاق کا فرق..💖
Difference between right and privilege
کوئی آپ کا حق نہ دے تو احتجاج کریں ناراض ہوں...بنتا ہے..
لیکن جہاں آپ کا حق نہیں...صرف استحقاق استعمال کررہے ہیں تو آپ کا ناراض ہونا نہیں بنتا..
انہی کی دی مثال دوہرا رہی ہوں...اگر کوئی دوست گاڑی میں لاہور جارہا ہے....اور آپ اسے کہتے ہیں کہ گاڑی خالی ہی ہے مجھے بھی لاہور جانا ہے... مجھے ساتھ لیتے جاؤ...اور وہ انکار کردے...تو آپ کا ناراض ہونا نہیں بنتا... یہ اُس کا فرض اور آپ کا حق نہیں تھا...
اخلاقیات کا تقاضا شاید یہی ہو کہ اُسے انکار نہیں کرنا چاہئیے تھا...لیکن اگر وہ انکار کردے تو آپ کو ناراضگی کا حق نہیں...کیونکہ یہ privilege  تھا...right نہیں!!🙂
زندگی میں جب کبھی میں نے کسی کی بات پہ برا ماننا چاہا اس سبق نے ہمیشہ میرا راستہ روک دیا.....اور بہت سے تعلقات بچالیے...💞💕
خدا آپ کا حامی و ناصر ہو....

سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

قلم کتاب- قسط چہارم

ایک شخص غزل لے کر اخبار کے دفتر گیا...ایڈیٹر لینا نہیں چاہتا تھا سو اُس نے غالباً پڑھےبغیر رد کردی....وہ شخص دفتر سے باہر نکل کر کہنے لگا....لو جی غالب کی نہیں چھپی تو اپنی کیا چھپنی تھی....
😄یہ کہانی کہیں سنی تھی...معلوم نہیں سچ ہے یاجھوٹ...لیکن فی زمانہ شہرت کی پیمائش اس بات سے بھی کی جاسکتی ہے کہ اپنے مشہور اشعار سرچ search کریں....جتنے زیادہ ناموں سے آپ کو ملیں سمجھیے اتنی شہرت بڑھتی گئی😜
شاعر کا نام مٹادینے والا عارضہ نزلہ زکام کی طرح بہت پھیلا ہوا اور سدا بہار ہے...ایسے مریض جونہی کسی شاعر کا شعر کاپی کرتے ہیں سب سے پہلے نیچے لکھا شاعر کا نام مٹائیں گے....یا اگر سکرین شاٹ لیں تو crop کر کے شاعر/لکھاری کا نام کاٹ لیں گے...
مرض جوں جوں بڑھتا جاتا ہے...مریض شاعر کا نام نکالنے کے بعد اپنا نام بطور شاعر لکھنے لگتا ہے.....اور شاعر کا تخلص مٹا کر اپنے نام سے مقطع بنالیتے ہیں....
اور آخری سٹیج کے مریض تو زبردستی... شاعر کا تذکیر کا صیغہ ہٹا کر تانیث اور تانیث کا صیغہ ہٹا کر تذکیر لگا لیتے ہیں۔
ایسے ایک صاحب نے ہماری پوری غزل میں سے سوچتی، رہی، تھی وغیرہ نکال کر سوچتا، رہا اور تھا لگا کر غزل لکھی اور پورے اعتماد سے محفل میں سنائی بھی...
اس بات سے انکار نہیں کہ تصویر چرائی جا سکتی ہے فن نہیں....مگر پھر بھی ایک اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے آپ کی...کہ اجمل کا شعر سجاد اور فیروز کا حبیب کے کھاتے میں نہ ڈالا کریں....
(ناموں کی مماثلت محض اتفاقی ہوگی) 
اگر کوئی شاعر یا لکھاری اپنے لکھے کے نیچے اپنا ہی نام لکھا دیکھنا چاہتا ہے تو اسے آپ خودپسندی نہیں کہہ سکتے...یہ اُس کا حق ہے!!
نوٹ:شیطان آپ کو شئیر کرنے سے روکے گا ضرور😜

سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Thursday 21 March 2019

قلم کتاب ۔ قسط سوم

کچھ دن پہلے چھوٹی بہن کو ایک کالج فیلو منیبہ نے فرمائش کی کہ تمہارے ابو شعر لکھتے ہیں تو انہیں کہو ایک نظم منیبہ پہ بھی لکھ دیں...گویا منیبہ نہ ہوئیں محترمہ فاطمہ جناح ہوگئیں....
(یہ مذاق نہیں تھا محترمہ واقعی سنجیدہ تھیں...😄)
یہ صرف ایک محترمہ کا قصہ ہے....اکثر وبیشتر ایسے بہت سی محترمائیں اور محترم فرمائش لیے آتے ہیں...کہ انہیں کسی مقابلے میں حصہ لینا ہے فلاں مصرعے پہ ایک غزل لکھ دی جائے یا فلاں عنوان پہ نظم......
ایسی کسی بھی فرمائش پہ ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے..
"یار یہ ایسی باتیں کیسے کر لیتے ہیں🤔😆"
اس سے بڑی ادبی بددیانتی یا مذاق میرے نزدیک کوئی نہیں....بھئی اگر آپ شاعری نہیں کر سکتے تو مت کریں...کوئی مجبوری ہے کیا.....اتنی جرأت کیسے کرلیتے ہیں آپ کسی کے شعر کو اپنا بتا کے....محض ایک جیت کے لیے🤔 نہیں...یہ جیت نہیں ہے!!
یہی نہیں...کچھ کی فرمائش منیبہ کی طرح اُن کی ذات شریف پہ نظم لکھ دینے کی ہوتی ہے!! اتنی خود پسندی...اور وہ بھی دھڑلّے سے....🤔
قدرت نے ہر فرد میں ٹیلنٹ رکھا ہے...💖کوئی نہ کوئی خوبی...💗.....کوئی بولنے میں اچھا ہے کوئی لکھنے میں....کوئی کسی اور کام میں....😍
ضروری نہیں کہ آپ صرف شعر کہہ کے ہی باذوق کہلوا سکتے ہیں... اگر آپ شعر نہیں کہہ سکتے تو کوئی بات نہیں...اتنا اوکھا ہونے کی کیا ضرورت ہے....خدا نے اور کچھ ہنر دیا ہوگا آپ کو....اُسے پہچانیں...اور  پھر نکھارنے کی کوشش کریں!! مگر خدارا ادب کے ساتھ اتنی بے ادبی کا برتاؤ نہ کریں...
مالک اپنی امان میں رکھے....امین

سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Wednesday 20 March 2019

قلم کتاب۔ قسط دوم

کہیں ایک جملہ پڑھا تھا غالباً یوسفی صاحب کی کسی کتاب میں یا کہاں....(اگر کسی کو یاد ہو تو تصحیح کر دے)
وہ یہ کہ "برِّصغیر میں ہر نوجوان نوجوانی میں ایک بار شاعر ضرور بنتا ہے...."
کچھ ٹھیک ہو جاتے ہیں...اور کچھ کو یہ بیماری مستقل لگ جاتی ہے...😜 جو ٹھیک ہو جاتے ہیں عموماً وہی ہوتے ہیں جو اس مرض کے لیے ٹھیک نہیں ہوتے....!!🙃
لڑکپن میں چونکہ ہمارا کینوس محدود ہوتا ہے اور رنگ ناکافی...سو دوست احباب میں راجا اِندر بنے گھومتے رہتے ہیں....ہر تخلیقی کاوش پہ لگتا ہے گویا چچا غالب کے اکلوتے وارث ہمی ہیں....😋 مگر جوں جوں کینوس وسیع ہوتا ہے اور رنگوں کی نت نئی شیڈز پتہ چلتی ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ ابھی تو طفلِ مکتب ہیں.....
ہمیں یہ وہم قدرے کم تھا اور اگر کچھ تھا بھی تو وہ یونیورسٹی اور خصوصاً سوسائٹی میں آکر دور ہوگیا....
اچھے اچھے لکھنے والے ملے....تخلیق کو تنقید کی بھٹی ملی اور اس کا کچّاپن آہستہ آہستہ دور ہونے لگا...
سوسائٹی آف ایگری رائٹرز (SAW) یونیورسٹی لیول پہ غالباً واحد ادبی تنظیم ہے جہاں پچھلے 30 سال سے طلباء ہفتہ وار تنقیدی نشست کروارہے ہیں....انہی نشستوں نے تنقید سننے کا حوصلہ بھی دیا اور کرنے کا سلیقہ بھی..💞
اگرچہ یہ بات درست ہے کہ اپنا لکھا اکثر لوگوں کو اپنی اولاد کی طرح ہر نقص سے پاک نظر آتا ہے مگر یہ سوچ تخلیقی سفر کو آگے بڑھنے نہیں دیتی....
میرے میٹرک ٹیچر حافظ عمران صاحب ایک بات سمجھایا کرتے تھے  "بیٹا جس سے سیکھنا ہو اُس کے سامنے خودکو "زیرو" رکھو....بھرے پیالے میں کوئی آپ کو کیا دے سکتا ہے...."
اگر آپ واقعی سیکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحریر کو حرفِ آخر مت سمجھیں اور تنقید کو سہنے کا حوصلہ بھی پیدا کریں...
لکھیں!! ضرور لکھنے کی کوشش کریں... مگر اس سے پہلے پڑھنے کی عادت اپنالیں...ورنہ آپ کی تحریر کا کچاپن کبھی دور نہیں ہوگا.....اگر آپ میں ایک کتاب پڑھنے کا حوصلہ نہیں تو لکھنے کا حوصلہ کیسے کرلیتے ہیں....

سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Tuesday 19 March 2019

قلم کتاب۔ قسط اوّل

دروازے کی کنڈی کھٹکتی اور میرے اور عرشہ (بہن) میں ریس لگ جاتی کہ پہلے جا کے دروازہ کھولیں اور ابو کے ہاتھ سے اخبار پکڑ لیں...اباجی چونکہ اخبار میں کام کرتے تھے سو مفت کا اخبار پڑھنے کو مل جاتا تھا اور اتوار اور بدھ کی شام کو میگزین بھی....😍
اس دوڑ سے پہلے کے بچپن میں ابو پاس بٹھا کے اخبار کی سرخیاں جوڑ کروا کے پڑھاتے رہے تھے...سو مطالعہ گھر بھر کی عادت بن گیا....💗
مارک ہیڈن کا قول ہے..."مطالعہ ایک گفتگو ہے...سب کتابیں بات کرتی ہیں...مگر ایک اچھی کتاب آپ کو سنتی بھی ہے۔" 💞
انسانی ذہن ایک برتن کی طرح قطرہ قطرہ ملنے والے علم سے خود کو بھرتا ہے بالکل ایسے جیسے بالٹی میں مسلسل گرنے والا پانی بالٹی کی سطح کو بتدریج بلند کرتا جاتا ہے....مطالعہ انسانی ذہن کے لیے بالکل اسی طرح کام کرتا ہے....آپ کی بات میں وزن...معلومات میں اضافہ.... سوچ میں وسعت اور ظرف میں کشادگی پیدا کرنے میں مطالعہ کا بڑا کردار ہے!
اپنے گھروں میں کتاب کلچر کو رائج کرنے کی کوشش کریں...اس مقصد کے لیے آپ چند چھوٹی چھوٹی تدابیر سے کام لے سکتے ہیں...
👈 ماہانہ سودا سلف خریدنے جائیں تو ایک کتاب بھی اس لسٹ میں شامل کر لیں...اور سب گھر والے اسے اس ماہ میں مکمل کریں...
👈 شام کو کھانے کے بعد 15-20 منٹ کی نشست کتاب پڑھنے اور سننے کی رکھی جاسکتی ہے جس میں ایک فرد پڑھ کے سنائے اور باقی سنیں...(ہم نے مشکل کتاب ہمیشہ یونہی مکمل کی ہے😋)
👈 مشکل اور بورنگ کتابوں کے بجائے کسی دلچسپ کتاب سے آغاز کیا جاسکتا ہے...مثلاً افسانے، سفرنامہ، کہانی وغیرہ۔
فیضان ہاشمی کے اس خوبصورت شعر کے ساتھ..
یہ کتابیں تمہیں جنگل سے رہائی دیں گی...
جن کی تیاری پہ اک پورا شجر لگتا ہے!! 💖
سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Friday 15 March 2019

تنقید برائے اصلاح

ہاں...!! میں مانتی ہوں...
اندھیرے کمرے میں ایک دیا سلائی زیادہ دور تک روشنی نہیں کر سکتی.....مگر وہ اپنا وجود دکھا جاتی ہے کہ میں ہوں!!💖
لوگوں کے چھوٹے چھوٹے بھلے کاموں پہ تنقید مت کریں....ہاں مانا کہ سسٹم ان چیزوں سے ٹھیک نہیں ہوگا...مگر اپنی بساط بھر کوشش تو کی جاسکتی ہے نا....یار یہ جو لوگ رضاکارانہ اپنی اپنی جگہ لگے ہوئے ہیں ان کا ساتھ نہیں دے سکتے تو کم از کم طعن و تشنیع سے تو باز آؤ!!
تنقید چیزوں کو نکھارنے کے کام آسکتی ہے اگر آپ کو سلیقہ ہو نقادی کا....
مگر ہمارے ہاں تنقید کا مزاج اصلاح کرنا نہیں رہا بلکہ صرف تنقید برائے تنقید ہوچکا ہے....
اور وہ بھی اس قدر تعصب سے بھرا کہ جنہیں یہ "صحیح" سمجھتے ہیں....اُن کا ہر کام "صحیح"....اور اُس حلقے سے باہر ہر صحیح "غلط".....
پھر تنقید کے لیے اکثر وبیشتر نہ کوئی دلیل ہوتی ہے نہ وجہ....بس اندھا دُھند فائر...!!
ان کا کوّا ہر صورت سفید ہی ہوگا....خواہ کسی کی عقل مانتی ہے یا نہیں...
عموماً یہ تنقید کرنے والے وہی ہوتے ہیں جو عمر بھر خود کچھ نہیں کرتے سوائے ثقیل الفاظ میں بڑی بڑی باتیں کرنے اور فلسفہ بھگارنے کے...
اور پھر آخر میں کوئی لوہاروں کا پُتر بازی لے جاتا ہے اور یہ دیکھتے رہ جاتے ہیں...!!
لوگوں کو ہمت دلانے والے بنیں....اور ناقد ایسے جن کا اخلاص کوئی نوکیلا لفظ تک زباں پہ نہ آنے دے.....
ورنہ سوہنا رب کسی ابابیل کی نیت کو قبول کرلے تو تاریخ اُسے یاد کیے بغیر ابراہیم علیہ السلام کا قصہ نہیں سنا سکتی!! 💞
اپنا خیال رکھیے اور جمعة المبارک کا بھرپور اہتمام کیجیۓ... جمعہ مبارک..

سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Thursday 14 March 2019

راۓ عامہ

دیوار کے اِس پار کھڑا شخص دیوار کے دوسری طرف موجود فرد کے بارے میں صرف اندازہ لگاسکتا ہے...حتمی رائے نہیں دے سکتا!!
آپ کی آنکھ دیکھ سکنے کی بھرپور صلاحیت رکھنے کے باوجود ہر شے کو ایک وقت میں نہیں سمو سکتی....
سِکےّ کے دونوں رخ ایک ہی وقت میں نہیں دیکھے جاسکتے.....
آپ کے گرد ان گنت لوگ ہیں...انہیں ان گنت دماغ سمجھیں....اور ان گنت نظریات (پوائنٹ آف ویوز).....
سو...ضروری نہیں کہ جو ایک وقت میں آپ کے لیے اچھا ہو وہ دوسرے کے لیے بھی ہو...ایک کی رائے دوسرے کی رائے سے ہمیشہ مماثل نہیں ہوسکتی!!
دنیا کو کبھی کبھی دوسروں کی عینک سے دیکھنے کی بھی کوشش کریں....!! (میرا تو رنگ برنگی عینکیں ٹرائے (try) کر کے کبھی کبھی سر بھی دُکھنے لگتا ہے🤪 لیکن کبھی کبھی میری اپنی عینک سے زیادہ شفاف بھی دِکھنے لگتا ہے)😍
ہمیشہ آپ کا اندازہ ٹھیک ہو، یہ ضروری نہیں....تو کبھی کبھی دوسروں کا نکتہ نظر بھی سنیں...اور صرف اختلاف کرنے کے لیے نہیں....سمجھنے کے لیے سنیں..!!💗
لوگوں کے مسائل کو بڑا بن کے دیکھیں...خود کو ان کی جگہ پہ رکھ کر سوچیں.....کچھ سمجھ آئے تو سُلجھا بھی دیں...!! 
اپنا خیال رکھیے...🙂

سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Saturday 9 March 2019

والد صاحب کے نام

سویرے جب آنکھ کھلی تو یاد آیا آج تو خواتین کا عالمی دن ہے....سو مزید "پسر" کر سونے کی کوشش کی.....مگر آواز آئی...."ہاں تو اُٹھو عورتوں والے کام کرو نا..."
بادل نخواستہ بستر کو خیرباد کہتے ہوئے اُٹھے....
بستر سمیٹنے، سب کے بکھیرے ہوئے سامان کو سمیٹ کے ٹھکانے لگانے، برتنوں کا ڈھیر دھونے....کچن کی شیلف اور چولہا رگڑ رگڑ کے چمکانے, گھر بھر میں جھاڑو پوچا لگانے...آلو ابال کے آلو والے پراٹھے بنا کے سب کو پیش کرنے کے بعد.........ہم نے سوچا ہم بھی "اپنا" دن منالیں.....فوراً سے واٹس ایپ اور فیس بک کھولی....
جابجا اپنی عظمت اور تعریف کے ڈنکے بجتے دیکھ کر دل رقت سے لبریز ہوگیا اور آنکھیں بھر آئیں...ہم اپنے مقام و مرتبے اور عورت ہونے کے فضائل سے خود بھی اتنے باخبر نہ تھے😋....ابھی ہم حیران ہوہی رہے تھے کہ ہلکی ہلکی گیس کی بو ہماری ناک سے ٹکرائی....یاد آیا آگ جلائے بغیر چولہا کُھلا چھوڑ آئے ہیں...بھاگ کے چولہا بند کیا....اور سوچا کہ ہم بھی یومِ نسواں کے احترام میں اپنے لیے چند جملے لکھ ڈالیں....😁
ہاں تو بات بس اتنی سی ہے کہ عورت کو جتنی آزادی ہمارا مذہب دیتا ہے اُتنی تو معاشرہ بھی نہیں دیتا....❣
آپ سے بس اتنا ہی کہ آج کے دن عورت کو ایک ذہین دماغ کے طور پہ قبول کرنے کی رِیت اپنا لیں....خصوصاً گھر کی عورت کو.....مان لیں کہ وہ آپ سے زیادہ ذہین بھی ہوسکتی ہے....احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں....بلکہ اپنائیت سے اُس کی حوصلہ افزائی کریں...❣
آج کا دن میرے والد کے نام جنہوں نے مجھے میری پوری پہچان کے ساتھ جینے دیا....💗

سیماب عارف
ایڈیٹر ای- میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Friday 8 March 2019

** WOMEN ***



Since my childhood, I was listening to one word called Women
I asked myself, Do you know what does it mean?
Let me take a look through how is it
 Life passes I understood women is not only women
Women keep lots of meaning inside do you know what?
   W means woven
Yes, women are woven as a mother who wove our childhood
Being a mother women is our nourisher she wove us as now we are
   O mean oddlish
Yes, Women are oddlish. No one likes her. She is different in every perspective
She is oddlish????
 One time, she acts as a mother who does what we are now
She acts as a sister specifying care, best friends love every time
She acts like a wife specifying love, mine, desire cordial
 She acts as a daughter specifying blessing, pleasurable princess, and craving
Women, who can act every perspective of what we want
   M magnanimous meaningless magnitude
Yes! She is magnanimous who can sacrifice her wishes for others
Who can hide her pain, who is only magnanimous women!
She can forget her pain for others. She denies her wishes for others
She is meaningless. She deserves what we can't express
She is a magnitude, who attract others as
A mother for children
A sister for brothers
A wife for husband
A teacher for students
   E mean equivalence
Yes! She is equivalence, who always keep equality between others
She sacrifices her wish but keeps equality
Women as a mother can only keep equality between children
   N mean nourisher
Ye! She is also nourisher.
As a mother, nourisher of child
As a teacher, nourisher of nation
As an elder sister, nourisher of her siblings
I deny expressing the meaning of women she is much more than what we think
but simply Women is peace, attraction
#Happy_Women_Day

Zil e Huma
The author is the Deputy Captain of AL-Qazeeb Squad and Mission holder, Positive Pakistan.


زندگی کا سوزِدروں

ایک مضبوط اور کامیاب عورت کے پیچھے بہت سارے ٹوٹے ارمان، آنسو، شک و شبہات، طعنے اور نکتہ چینی ہوتی ہے۔ دنیا والے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ... 
تم کمزور ہو اور تم یہ نہیں کر سکتی۔ خاندان کی عزت کا خیال کر لو۔  تمہاری شادی کیسے ہو گی۔ ہم تمہارے جہیز کے پیسے پڑھائی پر لگا رہے ہیں... نوکری کر کے کیوں ہماری عزت کا جنازہ نکالنا ہے... بھائی یا باپ مر گیا جو تم کماؤ گی۔ کوئی عورت کیسے کاروبار کر سکتی ہے... تم اکیلے سفر نہیں کر سکتی... بیرون ملک پڑھنے سے تمہارے کردار اور اقدار پر اثر پڑے گا...
اپنی مرضی سے  شادی!! اس سے شرم ناک بات کیا ہو سکتی ہے... جانتی ہو لڑکیوں کے پاس اتنا دماغ نہیں ہوتا کہ وہ رائے دے سکیں... تمہاری جرات کیسے ہوئی کوئی فیصلہ لینے کی... شادی کے بعد اپنے ارمان پورے کرنا... سسرال ہی تمہارا اصل گھر ہے...!! 
 اور سب سے بڑھ کر "لوگ کیا کہیں گے؟" 
 ایسی باتیں ایک خود مختار لڑکی کی حوصلہ شکنی نہیں کر سکتیں۔ وہ جانتی ہے کی دنیا کی جنگ کیسے لڑنی بے۔ اسے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں پر پورا یقین ہوتا ہے۔ وہ خود کو  ہارنے نہیں دیتی۔ ایسی عورتیں ہی قوم کی تقدیر سنوارتی ہیں۔ آج عورتوں کے عالمی دن پر میرا ایسی ہر عورت کو سلام....
اقبال نے کہا تھا...
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ،
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِدروں

سعدیہ خالد
ایمبیسیڈر پازیٹو پاکستان

Thursday 7 March 2019

عورت اور جدید تہذیب

انسانی معاشرے کا اہم کردار بلکہ انسانی معاشرے کا ایک اہم و لازم جزو عورت ذات ہے اس حقیقت سے کوئی چشم پوشی نہیں کر سکتا کہ اس ذات کی انسانی حقوق پر جو وار ہوئے وہ تاریخی واقعات کی بد ترین واقعات ہیں ہم دیکھیں تو عورت فقط قصہ پارینہ نہیں بلکہ انسانی تاریخ کی ابتداء بھی ہے بلکہ مضبوط سطون بھی زمانہ جاہلیت کی طرف جائیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عورت کی کوئی معاشرتی  حقوق نہیں تھے مردوں کی ترجیہات بنسبت عورتوں کے اعلیٰ تھے عورتوں کو دورِ جاہلیت میں ناپاک سمجھا جاتا تھا یہی نہیں بلکہ عورت کی حیثیت کا اقرار کرنا تو درکنار وہاں تو عورت سے اس کے جینے کا حق تک چھین لیا جاتاتھا جس کے گھر لڑکی پیدا ہوتی تو وہ خود کو بدنصیب اور اپنی بچی کو خاندان کے لئے ناسور سمجھتا تھا اور نتیجتاً معصوم پری کو زندہ درگور کیا جاتا تھا-

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ 
يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلاَ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ

(سوره النحل، 

’’اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے وہ لوگوں سے چُھپا پھرتا ہے (بزعمِ خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے)، خبردار! کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں

جب جزیرة العرب، یونانی، رومانی، ایرانی اور زمانہ جاہلیت کی تہذیبوں اور ثقافتوں میں عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی کمتر درجہ دیا جاتا تھا تو اس وقت ظہور اسلام عورت کے لئے نعمتِ کبری ثابت ہوتا ہے اور زمانہ جاہلیت کی رسومات اور جاہلانہ روایات کا قلع قمع کرتا ہے اور حوا کی بیٹی کو وہ مقام و مرتبہ دیتا ہے جس کی وہ مستحق ہوتی ہے-

اسلام نے عورت کو جاہلیت کی رسومات اور نظریات و تصورات کی دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان مجموعی طور پر مرد کے یکساں درجات عطا کیئے - اسلام نے حوا کی بیٹی کو رتبہ اعلیٰ اور مستقل عزت و ناموس عطا کی جو کہ انسانی معاشرے میں اس کا صحیح معنوں میں مستحق پائی اس معاشرے نے ہمیشہ عورت کے حقوق کو سبوتاژ کیا، اور عورت کو اپنی محکومہ اور مملوکہ بنا کر رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مختلف تہذیبوں اور اقوام نے عورت کے لئے سینکڑوں قانون بنائے مگر یہ قدر ت کا کرشمہ ہے کہ عورت نے اسلام کے سوا اپنے حقوق کی کہیں داد نہ پائی، اسلام کے علاوہ باقی تمام تہذیبوں نے خصوصاً مغرب جو آج عورت کی آزادی، عظمت اور معاشرے میں اس کو مقام و منصب دلوانے کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتاہے۔ یونانی تہذیب سے لے کر روم، فارس، ہندوستان، یہودی اور عیسائی تہذیب نے عورت کو معاشرے میں کمتر درجہ دے رکھا تھا،انہوں نے دنیا میں برائی اور موت کی ذمہ دار اور اصل وجہ عورت کو قرار دیا-

زرا ہم مختلف تہذیبوں اور مختلف معاشروں میں عورت کی حیثیت و مقام کا جائزہ لیں تو یقیناً یہ امر قابل ذکر ہے کہ عورت ذات کتنی مشکلات اور مصائب و آلام سے گزری ہے جو کہ کسی بھی باشعور تہذیب و انسانی معاشرے کا عقلی اصول نہیں بلکہ جاہلیت پر مبنی کچھ فیصلے اور قوانین ہیں -

یونانی فلسفے کی شہورت یقیناً مبہم نہیں لیکن اس فلسفے کی تاریکی بھی عورت ذات کے لئے شبِ برق کی مانند طوفانِ ظلمت ثابت ہوئی ہے یونانیوں کا کہنا ہے کہ عورت فقط مرد کے تسکینی آلہ کار ہے یہ نہیں بلکہ عورت شجرة مسمومة  اور رجس من عمل الشطان سے بدتر اور مرد کے تقابلی جائزے میں بطور عجلت معیوب ، بدکردار، حاسد، آوارہ اور بدگفتار سمجھی جاتی رہی ہے -

اگر دیکھا جائے تو رومی تہذیب نے بھی اپنی قانون سازی میں نام پیدا کیا تھا یونانی فلسفہ اور رومن قوانین درجات کے لہٰذ سے یکساں مقام رکھتے تھے بلکہ آج بھی مختلف ممالک میں رومن قوانین پر جوڈیشلی نظام چل رہے ہیں لیکن عورت کی عزت و امان کی لاج رومن بھی نہیں رکھ سکے ان کے نزدیک عورت عذاب کی جہتوں میں سے ایک جہت ہے انکا ماننا تھا کہ عورت شادی کے بعد اپنے شوہر کی زرخرید غلام ہے جسے بنیادی حقوق پر کوئی قدر حاصل نہیں -

ہندوستانی معاشرہ بھی قدیم حیثیت رکھتا ہے لیکن اس معاشرے نے بھی صنفِ نازک پر تسکینی ہوائوں کا رخ نہیں موڑا - تپتی دھوپ سے چھائوں میں راحت نہیں دی ہندوؤں کی عقائد کے مطابق شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں انکا ماننا تھا کہ عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ مذہبی کتاب کو ہاتھ لگائے ان کے بعض فرقوں میں عمل مذمومہ کو راہِ نجات سمجھا جاتا تھا یعنی کہ ماں،بہن، خالہ ، نانی، دادی ، اور بیوی میں فرق نہیں رکھتے تھے اور عملِ مذمومہ کو ہی رشتوں کی تکریم تصور کرتے تھے -

ویسٹرمارک اپنی کتاب "
waves of the history of Hindus
میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی عورت کسی متبرک بت کوچھولے تو اس بت کی الوہیت اور تقدس تباہ ہو جاتا ہے لہٰذا اس کو پھینک دینا چاہیے-

عیسائی معاشرے میں عورت قابلِ نفرت ذات تھی 576ء کی فرانسیسیوں کی کانفرنس دلیل ہیکہ کس طرح پادریوں نے وجودِ عورت کا انکار کیا مگر وجود پر اتفاق ہونے پر کہا گیا کہ عورت صنفِ انسان تو ہے مگر اس دنیا میں صرف مرد کی خدمت کے لئے لیکن آخرت میں وہ غیر جنس جانوروں کی شکل میں پیش ہو گی-

تہذیبِ فارس کی بات کریں تو قدیم تہذیبوں میں اس کا شمار ہوتا ہے فارس کی تہذیب میں بھائی کا اپنی بہن اور والد کا اپنی بیٹی کو زوجیت میں لینا، شوہر کا بیوی پر موت کا الزام لگا کر اپنی مفادات کے لئے استعمال، اور فارس کے بادشاہوں اور اہل ثروت کا اپنی عیاشیوں کے لئے صنفِ نازک کی عزت و ناموس کی پامالی کوئی معیوب بات نہیں تھی-

ان تہذیبوں اور اقوامِ عالم کے طویل تاریخی حقائق سے نکل کر ہم جب دینِ اسلام کی دہلیز پر پہنچتے ہیں تو یقیناً ذاتِ عورت کے لئے پر مسرت اور چراغِ نور کی تجلیات میں گزرتی زیست کا مشاہدہ کرتے ہیں جو کہ دینِ اسلام کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے -

اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت وپستی کے گڑھوں سے نکالا جب کہ وہ اس کی انتہا کو پہنچ چکی تھی، اس کے وجود کو گو ارا کرنے سے بھی انکار کیا جارہا تھا تو نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للعالمین بن کر تشریف لائے اور آپ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی لپیٹ سے بچایا اور عورت کو بھی اس گڑھے سے نکالا-
اسلام نے عورت کو معاشرتی حقوق دیئے 

 وإذا الموٴدةُ سُئِلَتْ․ بأیِ ذنبٍ قُتِلَتْ (التکویر: ۸۔۹)
اس وقت کو یاد کرو جب کہ اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جسے زندہ دفن کیاگیا تھا کہ کس جرم میں اسے مارا گیا

اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد وعورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو بدلا-
خلقکم من نفسٍ واحدةٍ وخَلَقَ منہا زوجَہا (النساء: ۱)
اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا-

دینِ اسلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یقیناً عورت کے انسانی حقوق کا محافظ ملے گا چاہے وہ عورتوں کی تعلیم کا حق ہو یا معاشی حقوق، تمدنی حقوق، حسن معاشرت کا حق، آزادیِ رائے کا حق، جس سمت سے جائیں گے اسلام عورت کی آمان و تکریم مان رکھے گا اللہ تعالیٰ ہمیں انسانیت اور قابلِ تحسین ذاتِ عورت کی عزت و امان کی توفیق عطا فرمائے.

نجیب زہری
ہیڈ علماء ونگ اور ایمبیسڈر پازیٹو پاکستان 

Wednesday 6 March 2019

غیر متوقع خوشی

آج شام گھر واپسی پہ سب لوگ چھت بیٹھے تھے...میں کسی کام سے نیچے گئی تو دیکھا کہ ہمارے بھائی جان چائے بنا کے کپ سجائے بسکٹ کے ڈیزائن ترتیب دیے سگھڑ سلیقہ شعار لڑکیوں کی طرح ٹرے لیے چھت پر جانے کے لیے کچن سے نکل رہے ہیں....😄
😁 میری تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں بھائی کو کیا ہوا...اتنا سگھڑاپا....
پتہ چلا کہ یہ اہتمام ہمارے لیے کیا گیا ہے....حکم ملا واپس چھت پہ چلیں....میں آرہا ہوں 😄 اور پھر سجی ہوئی ٹرے لیے چھت پہ آگئے....
تاریخ گواہ ہے کہ بھیا جان نے اپنے علاوہ کبھی کسی کے لیے کچھ پکا کے پیش نہیں کیا....سو اسے اعزاز سمجھتے ہوئے ہم نے بسکٹ ڈبو ڈبو کے چائے نوش فرمائی...😁 حیرت کی بات ہے چائے بھی زیادہ بری نہیں تھی 🤪
کبھی کبھی کسی کی توقع کے برعکس کوئی کام کر کے اسے خوشی دینا بڑا انمول احساس ہے....آج کے دن میں ایسی دو تین غیر متوقع چیزیں ملیں.... حیرانی بھری مسرت لیے ہوئے...💗 ان میں سے ایک میرے سکول کی طرف سے بس اڈے تک کی الوداعی رخصتی تھی...😋 
کوشش کیا کریں کہ لوگوں کو غیر متوقع خوشی دی جائے...💞
کبھی کسی کی ایسی بات مان کر جس کے مان جانے کی اُسے امید نہ ہو....💕
کبھی کسی کی غلطی پہ اس کے ڈرے ہوئے چہرے پہ مسکراہٹ بکھیر کے....😍
کبھی کسی کی اچانک دعوت سے...(کھانا کھلانے سے انمول خوشی کوئی ہوسکتی ہے کیا🤪)
کبھی کسی پرانے دوست کو فون کر کے....یا اچانک ملاقات سے...💗
خوش رہیں...خوشیاں بانٹیں...

سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Tuesday 5 March 2019

امن اور جنگ کا انسانی زندگی میں کردار

امن اور جنگ دو ایسی نوعیتیں ہیں جنکا ایک ساتھ ہونا محال ہے اگر یہ کہیں کہ یہ دو ایسے متضاد حالتیں ہیں جو یک وقت جمع نہیں ہو سکتی ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں کثرت سے مطلوب امن ہی ہے کیونکہ یہ مستقل اور صحت مند درجہ رکھتا ہے جو کہ انسانی زندگی میں لازم امر یا لازم جزو کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح جنگ، یہ مصیبت اور زوال اور انسانی حقوق کی پامالی کا درجہ رکھتی ہے جو کہ قطعاً کسی مہذب معاشرے کی طلب نہیں۔
امن ہوتا کیا ہے؟ امن کہتے کسے ہیں؟ یہ انسانی زندگی و معاشرے میں کیا اہمیت رکھتا ہے؟ جب ہم اس جانب نظر رکھتے ہیں تو یہ واضح ہوتا کہ صحت مند معاشرے کا نام امن ہے۔ سماجی معاملات میں بغیر تشدد کے رہن سہن کا نام امن ہے۔ امن کا تصور کسی بھی معاشرے میں تشدد کی غیر موجودگی یا پھر صحت مند، مثبت بین الاقوامی یا بین الانسانی تعلقات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں معاشرے کے تمام افراد کو سماجی، معاشی، مساوات اور سیاسی حقوق و تحفظ حاصل ہوتے ہیں۔ اقوام عالم میں امن کا کیا کردار ہے اور امن اس مقام پر کیا اہمیت رکھتا ہے؟ تو یہ جان لینا چاہئے کہ بین الاقوامی تعلقات میں، امن کا دور اختلافات یا جنگ کی صورت حال کی غیر موجودگی سے تعبیر ہے۔
جب ہم اس امر کو تلاش کرتے ہیں جو کہ امن کی ہیئت و صورت میں رد و بد کرتا ہے۔ عمومی طور پر امن تباہ کرنے میں عدم تحفظ، سماجی بگاڑ، معاشی عدم مساوات، غیر متوازن سیاسی حالت، قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔ 
اگر مجموعی طور پر دیکھیں تو  تحفظ، بہتری، آزادی، دفاع، قسمت اور فلاح کا نام ہی امن ہے اور اگر انفرادی طور پر دیکھیں تو امن سے مراد تشدد سے خالی ایک ایسی طرز زندگی کا تصور لیا جاتا ہے۔ جس کی خصوصیات میں افراد کا ادب، انصاف اور عمدہ نیت مراد لی جاتی ہے۔ معاشرے میں انفرادی طور پر امن کی حالت ہر فرد پر یکساں لاگو ہوتی ہے، جبکہ مجموعی طور پر کسی بھی خطے کا پورا معاشرہ مراد لیا جاتا ہے۔
یہ جان لینا چاہئے کہ انسانی زندگی میں امن کی اہمیت پیاس میں ٹھنڈے پانی کی طرح ہے کہ پیاس کی شدت کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ دینِ اسلام انسانی زندگی میں امن کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ہم قرآن مجید کی تعلیمات کا بغور مطالعہ کریں یا اسوۂ حسنہ کی طرف رجوع کریں تو یقیناً امن کے بارے میں واضح درس ملتا ہے۔
امن و امان انسانی اور بشری ضرورت ہے، ہر عقل مند اس بات سے متفق ہے، اور کوئی بھی اسکی مخالفت نہیں کرسکتا، قرآن مجید میں نعمتِ امن کو اللّٰہ تعالی نے بطور احسان بھی جتلایا ہے،
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ
کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم (مکہ)کو پرامن بنا دیا ہے جبکہ ان کے ارد گرد کے لوگ اچک لئے جاتے ہیں کیا پھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔ [العنكبوت: 67]
اس لئے امن و امان بہت بڑی نعمت ہے، اسی لئے اسکا زوال بہت بڑی سزا ہے، امن ہی ہے جسکی وجہ سے لوگ اپنی جان، مال، عزت، اور اہل خانہ کے بارے میں پُر اطمینان رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تعمیر وترقی کیلئے امن بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اسی میں ذہنی سکون، اور حالات کی درستگی پنہاں ہے۔
امن کی ضد جنگ ہے جو کہ امن سے مختلف نوعیت رکھتی ہے اور جنگ میں انسانی زندگی کے لئے کوئی بہتری کا ثمر نہیں۔ جنگ دو فریقوں، قبائل، قوموں یا ملکوں کے درمیان تنازع کے نتیجے میں ہونے والے تصادم کو کہا جاتا ہے۔ جنگ کی بھی کئی اقسام ہیں۔ جنگ مسلح بھی ہوسکتی ہے اور سرد جنگ بھی۔ مسلح جنگوں کے دوران فریقوں، قبائل، قوموں یا ملکوں کی مسلح افواج اپنی ملک و قوم کے دفاع کے لیے آگے آتے ہیں اور اپنی قوم کو آنے والے خطرات سے بچاتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنگوں کے نتیجے میں بے دریغ انسانی جانوں کا زیاں ہوتا ہے، لاکھوں افراد مارے جاتے ہیں، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوجاتے ہیں۔ جنگ میں فتح جس کسی کی بھی ہو، نقصان انسانیت کا ہی ہوتا ہے۔
تاریخ کی صفحات پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنگ روایتی ہو یا غیر روایتی مگر انسانی زندگی میں سانپ کے ڈسنے کا کردار ادا کرتی ہے اور معاشرے کے وجود کو نقصان پہنچانے کا سب سے بڑا سبب ہے۔
پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم بھولنے نہیں چاہئے دیکھا جائے تو ان جنگوں میں انسانی اقدار کی کافی پامالی ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم میں تقریباً ایک کروڑ فوجی ہلاک ہوئے۔ اور دو کروڑ دس لاکھ کے لگھ بھگ افراد زخمی بھی ہوئے۔ ہلاکتوں کی اتنی بڑی تعداد کی وجہ مشین گن جیسے نئے ہتھیاروں کو متعارف کرانا اور گیس کے ذریعے کی گئی ہلاکتیں تھی۔ اسی طرح دوسری جنگ عظیم میں بھی بہت سی جانیں ضائع ہوئی اور انسانی معاشرے اپنا وجود کھو بیٹھیں۔
ان دنوں دیکھنے میں آرہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات آپس میں پھر سے بگڑ گئے ہیں جس کی بنا پر دونوں جانب سے سرجیکل سٹرائیک چل رہا ہے اور دوطرفہ عوام جنگ کی خواہش لیکر کود جانے کی تیاری میں ہے اور اپنے اپنے افواج کو لڑو بس لڑو کا سبق پڑھا پڑھا کر تھکتے نہیں جو کہ سمجھداری کی دلیل نہیں بلکہ آگ میں کودنے کی مانند ہے۔ اس زہرِ قاتل کا درس اب بند کرنا ہوگا جنگ مسائل کا حل نہیں ہوتی بلکہ ترقی و پیشرفت کیلئے زہر قاتل ہوتی ہے۔ جنگوں کا آپشن اب ختم ہونا چاہیئے۔ موجودہ اور نئی صدی اسکی متحمل نہیں ہوسکتی۔ جنگ اور کشیدگی کے تمام عوامل کو ختم کرنا ہوگا۔ سامراجی طاقتوں کی "لڑاؤ اور حکومت کرو" کی شیطانی پالیسی کو ناکام بنانا ہوگا۔ مظلوم چاہے فلسطینی ہوں یا کشمیری، انکا جائز حق انہیں دینا ہوگا۔ دہشتگردی کے عوامل اور اہداف کو صحیح شناخت کرکے اسے جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔
دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک اس وقت ملکی ترقی اور قومی خوشحالی کے لیے سرگرم عمل ہیں، ان ممالک کے حکمران اپنے عوام کو ملکی ترقی اور ان کے بچوں کے بہتر مستقبل کے خواب دکھا کر اقتدار میں آتے ہیں اور اکثر ممالک کے حکمران اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر عوام کے لیے فلاحی منصوبے بنائے جائیں اور ان کی زندگی کو آسان بنا دیا جائے تو وہ حکمرانوں کو بار بار انتخاب کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ ملکی ترقی، روزگار کے مواقع یا فی کس آمدنی میں اضافہ، اچھی تعلیم، صحت عامہ کی سہولیات اور امن و سلامتی وہ مطالبے ہیں، جو ہر شہری کا حق بھی ہے اور خواہش بھی۔ اس وقت خطے مین تمام ملکوں کے حکمران بڑے بڑے اقتصادی منصوبوں کی باتیں کر رہے ہیں، کوئی سی پیک کا نعرہ لگا رہا ہے، کوئی ون روڈ ون بیلٹ کی بات کر رہا ہے، کوئی چابہار ترقیاتی منصوبے پر عمل درآمد کا خواہشمند ہے، کوئی توانائی کے نئے نئے ذرائع دریافت اور پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ایسے میں اگر کوئی جنگ، کشیدگی اور سرحدی جھڑپوں کی آواز لگا رہا ہے تو اس کی نیت پر شک کرنا چاہیئے۔
 جنگ اور کشیدگی اگر جاری رکھنی ہے تو ان ظالموں اور ستمگاروں کے خلاف جاری رکھنی ہوگی، جو انسانیت کے قاتل ہیں، جو صہیونی نظریئے کے تحت تمام دنیا کے انسانوں کو غلام بنانے کے ناپاک منصوبے پر عمل پیرا اور پوری دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔
مختصر یہ کہ جنگ ظلمات ہے اور امن نور ہے اب حکمرانانِ وقت کو چاہئے کہ امن بس امن کی بات کریں جس میں نور ہے اندھیرے نہیں اجالے ہی اجالے ہیں -اور کسی دانشور نے کہا ہے:
"الأمنُ أهنأُ عيش، والعدلُ أقوَى جيشٍ"
پرسکون زندگی امن میں ہےاور طاقتور فوج چاہئے تو عدل کرو۔
اور کسی نے کہا:
"امن ہوتو انسان تنہائی میں بھی وحشت محسوس نہیں کرتا، جبکہ خوف کی وجہ سے انسان جلوت میں بھی مانوس نہیں ہوتا"
"بد امنی میں تونگری سے امن میں تنگدستی بہتر"
ساحر لدھیانوی کے کلام سے...
جنگ، وحشت سے بربریّت سے   امن، تہذیب و ارتقا کے لئے
جنگ، مرگ آفریں سیاست سے   امن، انسان کی بقا کے لئے
جنگ، افلاس اور غلامی سے     امن، بہتر نظام کی خاطر
جنگ، بھٹکی ہوئی قیادت سے   امن، بےبس عوام کی خاطر
جنگ، سرمائے کے تسلّط سے      امن،جمہورکی خوشی کےلئے
جنگ، جنگوں کےفلسفےکےخلاف امن، پُر امن زندگی کے لئے

چنانچہ ہمیں امن و امان قائم کرنے کیلئے بھرپور کوشش کرنی ہوگی، اسکے لئے ہمیں جس چیز کی بھی قربانی دینے پڑے ہمیں اس سے گریز نہیں کرنا چاہئے، حتی کہ ہم امن و امان قائم کرلیں، اللّٰہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو. امین

نجیب زہری
ایمبیسڈر اور ہیڈ علماء ونگ پازیٹو پاکستان 

Saturday 2 March 2019

اے طائرِ لاہوتی

بڑے بزرگوں سے سنا تھا کہ رزق کا اثر خون میں ہوتا ہے اور نسلوں تک جاتا ہے......
رزقِ حرام اور حلال کا تصور صرف پیشوں تک محدود نہیں بلکہ ایک حلال پیشے میں نیت کی خرابی اُسے حرام بنادیتی ہے.....!!
آج صبح سکول جاتے ہوئے فٹ پاتھ پہ بیٹھے ایک بوڑھے فقیر کے پاس ایک اُسی عمر کے بوڑھے بزرگ اپنی سائیکل روک کر کھڑے ہوئے اور چند نوٹ اُسے تھمادیے.....میری نظر اُس پیسے دینے والے بزرگ پہ پڑی تو مجھے بڑی حیرت بھری مسرّت ہوئی....😍...وہ بابا جی میرے ہاسٹل کی گلی میں ریڑھی پہ کیلے بیچتے ہیں....روز میں انہیں وہاں کھڑا دیکھتی ہوں....کبھی بغیر ضرورت کے بھی کچھ پھل خریدوں تو ایک دو کیلے اضافی ڈال دیتے ہیں...اور ایک دو بار بقایا نہ لینا چاہا تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے واپس کردیا....💗
ایک ہی عمر کے دو بزرگوں کے اندازِ زندگی دیکھ کر رزق عبادت کا تصور پھر سے ذہن میں آگیا.....رزقِ حلال واقعی عین عبادت ہے....💖 
"الکاسب حبیب اللّٰہ".....
کوشش کیا کریں کبھی بغیر ضرورت بھی ایسے لوگوں سے کچھ خرید لایا کریں....
میرے چچا جان کی عادت ہے کہ وہ روزشام مختلف ریڑھیوں سے بہت سا گلا سڑا پھل خرید لاتے ہیں....
یہ ان کی خاموش مدد ہوسکتی ہے.....بقول شاعر 
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو...
کچھ سوالی بڑے خوددار ہوا کرتے ہیں!!
بس سٹینڈ پہ ناریل، نمکو، رسالے بیچنے والے بہت سے لوگ....جوتا پالش کرنے والے بچے....چند پھل ریڑھی پہ سجائے ضعیف....یہ سب ہماری توجہ اور مدد کے اصل حقدار ہیں!!
ان کا خیال رکھیے....
اور اپنا بھی....مالک آپ سے راضی ہو!! 

سیماب عارف
ایڈیٹر ای-میگزین اور رہبر پازیٹو پاکستان 

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...