Tuesday 5 March 2019

امن اور جنگ کا انسانی زندگی میں کردار

امن اور جنگ دو ایسی نوعیتیں ہیں جنکا ایک ساتھ ہونا محال ہے اگر یہ کہیں کہ یہ دو ایسے متضاد حالتیں ہیں جو یک وقت جمع نہیں ہو سکتی ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں کثرت سے مطلوب امن ہی ہے کیونکہ یہ مستقل اور صحت مند درجہ رکھتا ہے جو کہ انسانی زندگی میں لازم امر یا لازم جزو کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح جنگ، یہ مصیبت اور زوال اور انسانی حقوق کی پامالی کا درجہ رکھتی ہے جو کہ قطعاً کسی مہذب معاشرے کی طلب نہیں۔
امن ہوتا کیا ہے؟ امن کہتے کسے ہیں؟ یہ انسانی زندگی و معاشرے میں کیا اہمیت رکھتا ہے؟ جب ہم اس جانب نظر رکھتے ہیں تو یہ واضح ہوتا کہ صحت مند معاشرے کا نام امن ہے۔ سماجی معاملات میں بغیر تشدد کے رہن سہن کا نام امن ہے۔ امن کا تصور کسی بھی معاشرے میں تشدد کی غیر موجودگی یا پھر صحت مند، مثبت بین الاقوامی یا بین الانسانی تعلقات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں معاشرے کے تمام افراد کو سماجی، معاشی، مساوات اور سیاسی حقوق و تحفظ حاصل ہوتے ہیں۔ اقوام عالم میں امن کا کیا کردار ہے اور امن اس مقام پر کیا اہمیت رکھتا ہے؟ تو یہ جان لینا چاہئے کہ بین الاقوامی تعلقات میں، امن کا دور اختلافات یا جنگ کی صورت حال کی غیر موجودگی سے تعبیر ہے۔
جب ہم اس امر کو تلاش کرتے ہیں جو کہ امن کی ہیئت و صورت میں رد و بد کرتا ہے۔ عمومی طور پر امن تباہ کرنے میں عدم تحفظ، سماجی بگاڑ، معاشی عدم مساوات، غیر متوازن سیاسی حالت، قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔ 
اگر مجموعی طور پر دیکھیں تو  تحفظ، بہتری، آزادی، دفاع، قسمت اور فلاح کا نام ہی امن ہے اور اگر انفرادی طور پر دیکھیں تو امن سے مراد تشدد سے خالی ایک ایسی طرز زندگی کا تصور لیا جاتا ہے۔ جس کی خصوصیات میں افراد کا ادب، انصاف اور عمدہ نیت مراد لی جاتی ہے۔ معاشرے میں انفرادی طور پر امن کی حالت ہر فرد پر یکساں لاگو ہوتی ہے، جبکہ مجموعی طور پر کسی بھی خطے کا پورا معاشرہ مراد لیا جاتا ہے۔
یہ جان لینا چاہئے کہ انسانی زندگی میں امن کی اہمیت پیاس میں ٹھنڈے پانی کی طرح ہے کہ پیاس کی شدت کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ دینِ اسلام انسانی زندگی میں امن کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ہم قرآن مجید کی تعلیمات کا بغور مطالعہ کریں یا اسوۂ حسنہ کی طرف رجوع کریں تو یقیناً امن کے بارے میں واضح درس ملتا ہے۔
امن و امان انسانی اور بشری ضرورت ہے، ہر عقل مند اس بات سے متفق ہے، اور کوئی بھی اسکی مخالفت نہیں کرسکتا، قرآن مجید میں نعمتِ امن کو اللّٰہ تعالی نے بطور احسان بھی جتلایا ہے،
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ
کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم (مکہ)کو پرامن بنا دیا ہے جبکہ ان کے ارد گرد کے لوگ اچک لئے جاتے ہیں کیا پھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔ [العنكبوت: 67]
اس لئے امن و امان بہت بڑی نعمت ہے، اسی لئے اسکا زوال بہت بڑی سزا ہے، امن ہی ہے جسکی وجہ سے لوگ اپنی جان، مال، عزت، اور اہل خانہ کے بارے میں پُر اطمینان رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تعمیر وترقی کیلئے امن بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اسی میں ذہنی سکون، اور حالات کی درستگی پنہاں ہے۔
امن کی ضد جنگ ہے جو کہ امن سے مختلف نوعیت رکھتی ہے اور جنگ میں انسانی زندگی کے لئے کوئی بہتری کا ثمر نہیں۔ جنگ دو فریقوں، قبائل، قوموں یا ملکوں کے درمیان تنازع کے نتیجے میں ہونے والے تصادم کو کہا جاتا ہے۔ جنگ کی بھی کئی اقسام ہیں۔ جنگ مسلح بھی ہوسکتی ہے اور سرد جنگ بھی۔ مسلح جنگوں کے دوران فریقوں، قبائل، قوموں یا ملکوں کی مسلح افواج اپنی ملک و قوم کے دفاع کے لیے آگے آتے ہیں اور اپنی قوم کو آنے والے خطرات سے بچاتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنگوں کے نتیجے میں بے دریغ انسانی جانوں کا زیاں ہوتا ہے، لاکھوں افراد مارے جاتے ہیں، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوجاتے ہیں۔ جنگ میں فتح جس کسی کی بھی ہو، نقصان انسانیت کا ہی ہوتا ہے۔
تاریخ کی صفحات پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنگ روایتی ہو یا غیر روایتی مگر انسانی زندگی میں سانپ کے ڈسنے کا کردار ادا کرتی ہے اور معاشرے کے وجود کو نقصان پہنچانے کا سب سے بڑا سبب ہے۔
پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم بھولنے نہیں چاہئے دیکھا جائے تو ان جنگوں میں انسانی اقدار کی کافی پامالی ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم میں تقریباً ایک کروڑ فوجی ہلاک ہوئے۔ اور دو کروڑ دس لاکھ کے لگھ بھگ افراد زخمی بھی ہوئے۔ ہلاکتوں کی اتنی بڑی تعداد کی وجہ مشین گن جیسے نئے ہتھیاروں کو متعارف کرانا اور گیس کے ذریعے کی گئی ہلاکتیں تھی۔ اسی طرح دوسری جنگ عظیم میں بھی بہت سی جانیں ضائع ہوئی اور انسانی معاشرے اپنا وجود کھو بیٹھیں۔
ان دنوں دیکھنے میں آرہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات آپس میں پھر سے بگڑ گئے ہیں جس کی بنا پر دونوں جانب سے سرجیکل سٹرائیک چل رہا ہے اور دوطرفہ عوام جنگ کی خواہش لیکر کود جانے کی تیاری میں ہے اور اپنے اپنے افواج کو لڑو بس لڑو کا سبق پڑھا پڑھا کر تھکتے نہیں جو کہ سمجھداری کی دلیل نہیں بلکہ آگ میں کودنے کی مانند ہے۔ اس زہرِ قاتل کا درس اب بند کرنا ہوگا جنگ مسائل کا حل نہیں ہوتی بلکہ ترقی و پیشرفت کیلئے زہر قاتل ہوتی ہے۔ جنگوں کا آپشن اب ختم ہونا چاہیئے۔ موجودہ اور نئی صدی اسکی متحمل نہیں ہوسکتی۔ جنگ اور کشیدگی کے تمام عوامل کو ختم کرنا ہوگا۔ سامراجی طاقتوں کی "لڑاؤ اور حکومت کرو" کی شیطانی پالیسی کو ناکام بنانا ہوگا۔ مظلوم چاہے فلسطینی ہوں یا کشمیری، انکا جائز حق انہیں دینا ہوگا۔ دہشتگردی کے عوامل اور اہداف کو صحیح شناخت کرکے اسے جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔
دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک اس وقت ملکی ترقی اور قومی خوشحالی کے لیے سرگرم عمل ہیں، ان ممالک کے حکمران اپنے عوام کو ملکی ترقی اور ان کے بچوں کے بہتر مستقبل کے خواب دکھا کر اقتدار میں آتے ہیں اور اکثر ممالک کے حکمران اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر عوام کے لیے فلاحی منصوبے بنائے جائیں اور ان کی زندگی کو آسان بنا دیا جائے تو وہ حکمرانوں کو بار بار انتخاب کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ ملکی ترقی، روزگار کے مواقع یا فی کس آمدنی میں اضافہ، اچھی تعلیم، صحت عامہ کی سہولیات اور امن و سلامتی وہ مطالبے ہیں، جو ہر شہری کا حق بھی ہے اور خواہش بھی۔ اس وقت خطے مین تمام ملکوں کے حکمران بڑے بڑے اقتصادی منصوبوں کی باتیں کر رہے ہیں، کوئی سی پیک کا نعرہ لگا رہا ہے، کوئی ون روڈ ون بیلٹ کی بات کر رہا ہے، کوئی چابہار ترقیاتی منصوبے پر عمل درآمد کا خواہشمند ہے، کوئی توانائی کے نئے نئے ذرائع دریافت اور پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ایسے میں اگر کوئی جنگ، کشیدگی اور سرحدی جھڑپوں کی آواز لگا رہا ہے تو اس کی نیت پر شک کرنا چاہیئے۔
 جنگ اور کشیدگی اگر جاری رکھنی ہے تو ان ظالموں اور ستمگاروں کے خلاف جاری رکھنی ہوگی، جو انسانیت کے قاتل ہیں، جو صہیونی نظریئے کے تحت تمام دنیا کے انسانوں کو غلام بنانے کے ناپاک منصوبے پر عمل پیرا اور پوری دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔
مختصر یہ کہ جنگ ظلمات ہے اور امن نور ہے اب حکمرانانِ وقت کو چاہئے کہ امن بس امن کی بات کریں جس میں نور ہے اندھیرے نہیں اجالے ہی اجالے ہیں -اور کسی دانشور نے کہا ہے:
"الأمنُ أهنأُ عيش، والعدلُ أقوَى جيشٍ"
پرسکون زندگی امن میں ہےاور طاقتور فوج چاہئے تو عدل کرو۔
اور کسی نے کہا:
"امن ہوتو انسان تنہائی میں بھی وحشت محسوس نہیں کرتا، جبکہ خوف کی وجہ سے انسان جلوت میں بھی مانوس نہیں ہوتا"
"بد امنی میں تونگری سے امن میں تنگدستی بہتر"
ساحر لدھیانوی کے کلام سے...
جنگ، وحشت سے بربریّت سے   امن، تہذیب و ارتقا کے لئے
جنگ، مرگ آفریں سیاست سے   امن، انسان کی بقا کے لئے
جنگ، افلاس اور غلامی سے     امن، بہتر نظام کی خاطر
جنگ، بھٹکی ہوئی قیادت سے   امن، بےبس عوام کی خاطر
جنگ، سرمائے کے تسلّط سے      امن،جمہورکی خوشی کےلئے
جنگ، جنگوں کےفلسفےکےخلاف امن، پُر امن زندگی کے لئے

چنانچہ ہمیں امن و امان قائم کرنے کیلئے بھرپور کوشش کرنی ہوگی، اسکے لئے ہمیں جس چیز کی بھی قربانی دینے پڑے ہمیں اس سے گریز نہیں کرنا چاہئے، حتی کہ ہم امن و امان قائم کرلیں، اللّٰہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو. امین

نجیب زہری
ایمبیسڈر اور ہیڈ علماء ونگ پازیٹو پاکستان 

2 comments:

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...