Thursday 7 March 2019

عورت اور جدید تہذیب

انسانی معاشرے کا اہم کردار بلکہ انسانی معاشرے کا ایک اہم و لازم جزو عورت ذات ہے اس حقیقت سے کوئی چشم پوشی نہیں کر سکتا کہ اس ذات کی انسانی حقوق پر جو وار ہوئے وہ تاریخی واقعات کی بد ترین واقعات ہیں ہم دیکھیں تو عورت فقط قصہ پارینہ نہیں بلکہ انسانی تاریخ کی ابتداء بھی ہے بلکہ مضبوط سطون بھی زمانہ جاہلیت کی طرف جائیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عورت کی کوئی معاشرتی  حقوق نہیں تھے مردوں کی ترجیہات بنسبت عورتوں کے اعلیٰ تھے عورتوں کو دورِ جاہلیت میں ناپاک سمجھا جاتا تھا یہی نہیں بلکہ عورت کی حیثیت کا اقرار کرنا تو درکنار وہاں تو عورت سے اس کے جینے کا حق تک چھین لیا جاتاتھا جس کے گھر لڑکی پیدا ہوتی تو وہ خود کو بدنصیب اور اپنی بچی کو خاندان کے لئے ناسور سمجھتا تھا اور نتیجتاً معصوم پری کو زندہ درگور کیا جاتا تھا-

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ 
يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلاَ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ

(سوره النحل، 

’’اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے وہ لوگوں سے چُھپا پھرتا ہے (بزعمِ خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے)، خبردار! کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں

جب جزیرة العرب، یونانی، رومانی، ایرانی اور زمانہ جاہلیت کی تہذیبوں اور ثقافتوں میں عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی کمتر درجہ دیا جاتا تھا تو اس وقت ظہور اسلام عورت کے لئے نعمتِ کبری ثابت ہوتا ہے اور زمانہ جاہلیت کی رسومات اور جاہلانہ روایات کا قلع قمع کرتا ہے اور حوا کی بیٹی کو وہ مقام و مرتبہ دیتا ہے جس کی وہ مستحق ہوتی ہے-

اسلام نے عورت کو جاہلیت کی رسومات اور نظریات و تصورات کی دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان مجموعی طور پر مرد کے یکساں درجات عطا کیئے - اسلام نے حوا کی بیٹی کو رتبہ اعلیٰ اور مستقل عزت و ناموس عطا کی جو کہ انسانی معاشرے میں اس کا صحیح معنوں میں مستحق پائی اس معاشرے نے ہمیشہ عورت کے حقوق کو سبوتاژ کیا، اور عورت کو اپنی محکومہ اور مملوکہ بنا کر رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مختلف تہذیبوں اور اقوام نے عورت کے لئے سینکڑوں قانون بنائے مگر یہ قدر ت کا کرشمہ ہے کہ عورت نے اسلام کے سوا اپنے حقوق کی کہیں داد نہ پائی، اسلام کے علاوہ باقی تمام تہذیبوں نے خصوصاً مغرب جو آج عورت کی آزادی، عظمت اور معاشرے میں اس کو مقام و منصب دلوانے کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتاہے۔ یونانی تہذیب سے لے کر روم، فارس، ہندوستان، یہودی اور عیسائی تہذیب نے عورت کو معاشرے میں کمتر درجہ دے رکھا تھا،انہوں نے دنیا میں برائی اور موت کی ذمہ دار اور اصل وجہ عورت کو قرار دیا-

زرا ہم مختلف تہذیبوں اور مختلف معاشروں میں عورت کی حیثیت و مقام کا جائزہ لیں تو یقیناً یہ امر قابل ذکر ہے کہ عورت ذات کتنی مشکلات اور مصائب و آلام سے گزری ہے جو کہ کسی بھی باشعور تہذیب و انسانی معاشرے کا عقلی اصول نہیں بلکہ جاہلیت پر مبنی کچھ فیصلے اور قوانین ہیں -

یونانی فلسفے کی شہورت یقیناً مبہم نہیں لیکن اس فلسفے کی تاریکی بھی عورت ذات کے لئے شبِ برق کی مانند طوفانِ ظلمت ثابت ہوئی ہے یونانیوں کا کہنا ہے کہ عورت فقط مرد کے تسکینی آلہ کار ہے یہ نہیں بلکہ عورت شجرة مسمومة  اور رجس من عمل الشطان سے بدتر اور مرد کے تقابلی جائزے میں بطور عجلت معیوب ، بدکردار، حاسد، آوارہ اور بدگفتار سمجھی جاتی رہی ہے -

اگر دیکھا جائے تو رومی تہذیب نے بھی اپنی قانون سازی میں نام پیدا کیا تھا یونانی فلسفہ اور رومن قوانین درجات کے لہٰذ سے یکساں مقام رکھتے تھے بلکہ آج بھی مختلف ممالک میں رومن قوانین پر جوڈیشلی نظام چل رہے ہیں لیکن عورت کی عزت و امان کی لاج رومن بھی نہیں رکھ سکے ان کے نزدیک عورت عذاب کی جہتوں میں سے ایک جہت ہے انکا ماننا تھا کہ عورت شادی کے بعد اپنے شوہر کی زرخرید غلام ہے جسے بنیادی حقوق پر کوئی قدر حاصل نہیں -

ہندوستانی معاشرہ بھی قدیم حیثیت رکھتا ہے لیکن اس معاشرے نے بھی صنفِ نازک پر تسکینی ہوائوں کا رخ نہیں موڑا - تپتی دھوپ سے چھائوں میں راحت نہیں دی ہندوؤں کی عقائد کے مطابق شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں انکا ماننا تھا کہ عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ مذہبی کتاب کو ہاتھ لگائے ان کے بعض فرقوں میں عمل مذمومہ کو راہِ نجات سمجھا جاتا تھا یعنی کہ ماں،بہن، خالہ ، نانی، دادی ، اور بیوی میں فرق نہیں رکھتے تھے اور عملِ مذمومہ کو ہی رشتوں کی تکریم تصور کرتے تھے -

ویسٹرمارک اپنی کتاب "
waves of the history of Hindus
میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی عورت کسی متبرک بت کوچھولے تو اس بت کی الوہیت اور تقدس تباہ ہو جاتا ہے لہٰذا اس کو پھینک دینا چاہیے-

عیسائی معاشرے میں عورت قابلِ نفرت ذات تھی 576ء کی فرانسیسیوں کی کانفرنس دلیل ہیکہ کس طرح پادریوں نے وجودِ عورت کا انکار کیا مگر وجود پر اتفاق ہونے پر کہا گیا کہ عورت صنفِ انسان تو ہے مگر اس دنیا میں صرف مرد کی خدمت کے لئے لیکن آخرت میں وہ غیر جنس جانوروں کی شکل میں پیش ہو گی-

تہذیبِ فارس کی بات کریں تو قدیم تہذیبوں میں اس کا شمار ہوتا ہے فارس کی تہذیب میں بھائی کا اپنی بہن اور والد کا اپنی بیٹی کو زوجیت میں لینا، شوہر کا بیوی پر موت کا الزام لگا کر اپنی مفادات کے لئے استعمال، اور فارس کے بادشاہوں اور اہل ثروت کا اپنی عیاشیوں کے لئے صنفِ نازک کی عزت و ناموس کی پامالی کوئی معیوب بات نہیں تھی-

ان تہذیبوں اور اقوامِ عالم کے طویل تاریخی حقائق سے نکل کر ہم جب دینِ اسلام کی دہلیز پر پہنچتے ہیں تو یقیناً ذاتِ عورت کے لئے پر مسرت اور چراغِ نور کی تجلیات میں گزرتی زیست کا مشاہدہ کرتے ہیں جو کہ دینِ اسلام کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے -

اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت وپستی کے گڑھوں سے نکالا جب کہ وہ اس کی انتہا کو پہنچ چکی تھی، اس کے وجود کو گو ارا کرنے سے بھی انکار کیا جارہا تھا تو نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للعالمین بن کر تشریف لائے اور آپ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی لپیٹ سے بچایا اور عورت کو بھی اس گڑھے سے نکالا-
اسلام نے عورت کو معاشرتی حقوق دیئے 

 وإذا الموٴدةُ سُئِلَتْ․ بأیِ ذنبٍ قُتِلَتْ (التکویر: ۸۔۹)
اس وقت کو یاد کرو جب کہ اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جسے زندہ دفن کیاگیا تھا کہ کس جرم میں اسے مارا گیا

اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد وعورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو بدلا-
خلقکم من نفسٍ واحدةٍ وخَلَقَ منہا زوجَہا (النساء: ۱)
اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا-

دینِ اسلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یقیناً عورت کے انسانی حقوق کا محافظ ملے گا چاہے وہ عورتوں کی تعلیم کا حق ہو یا معاشی حقوق، تمدنی حقوق، حسن معاشرت کا حق، آزادیِ رائے کا حق، جس سمت سے جائیں گے اسلام عورت کی آمان و تکریم مان رکھے گا اللہ تعالیٰ ہمیں انسانیت اور قابلِ تحسین ذاتِ عورت کی عزت و امان کی توفیق عطا فرمائے.

نجیب زہری
ہیڈ علماء ونگ اور ایمبیسڈر پازیٹو پاکستان 

No comments:

Post a Comment

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...