Saturday 6 October 2018

حصہ داری - مثبت پاکستان


ہمارے معاشرے میں جب کوئی خدمت ِخلق کا ارادہ کرتا ہے تو وہ فوراََ ہی کچھ بڑا کرنا چاہتا ہے۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک پرندہ بھی اڑان بھرنے سے پہلے اپنے پرَوں کو چھوٹی چھوٹی جنبش دیتا ہے۔اور پھر ہوا کے دوش پہ اڑتا پھرتا ہے۔
انسان کو کتنی ہی اونچی چھلانگ کیوں نہ لگانی ہو لیکن زمین کا سہارا لئے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ مشہور چینی کہاوت ہے کہ ایک ۱۰۰ سالہ بوڑھا ایک بلند ترین پہاڑ سے نیچے اتر رہا تھا تو ایک نوجوان نے اسے دیکھا تو پوچھا آپ نے یہ پہاڑ کیسے سَر کر دکھایا؟ توبوڑھے شخص کا جواب قابل تعریف تھا۔'' اس نے کہا کہ میرا ہر بڑھتا ہوا قدم اس پہاڑ کی جانب ہی رہا''
اب بات کر لیتے ہیں ایک عام پاکستانی یا  ایک شہری کی جو انسانی ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہوئے عبدالستار ایدھی بننا چاہتا ہے پر وہ اس رتبے کی بلندی دیکھتے ہوئے خود کو بہت چھوٹا محسوس کرنے لگتا ہے۔ اور بہتری کی طرف اٹھائے جانے والے قدموں کو وہیں روک لیتا ہے ۔ایک بات یہاں پر واضح کرنا ضروری ہے کہ جب آپ کسی کی مدد کرنے کیلئے قدم بڑھاتے ہو تو آپکا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ آپکو تو بس اتنا کرنا ہے جتنی آپکی استطاعت ہے۔
عبدالستار ایدھی نے بھی اس سلسلے کا آغاز ایک بچے کی پرورش سے کیا تھا اور وہی انکا پہلا قدم تھا۔ پھر قدم سے قدم ملتے گئے اور انکے اُس سفر کے دوران بہت سے لوگ انکے ہمسفر ہوتے گئے ۔اور پھر وہ ایک مکمل کاروان کی صورت اختیار کر گیا۔
اب کیا اگر ہم ہزاروں لوگوں کی پرورش نہیں کر سکتے تو کیا ہم ایک بچے کی زمہ داری بھی نہیں لے سکتے؟
ہم اگر سینکڑوں لوگوں کو سونے کیلئے بستر نہیں دے سکتے تو کیا ہم کسی ایک کے سونے کا بہتر انتظام بھی نہیں کر سکتے۔
ہمارے ملک میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے اسی عزم اور خالص نیت کیساتھ ایک قدم اٹھایا تھا اور آج سینکڑوں قدم انکے ہمراہ ہیں۔
اسکی سب سے بڑی مثال ہمیں ماسٹر ایوب کی زندگی سے ملتی ہے جو تیس سال کے زائد عرصے سے ایف سکس اسلام آباد کے ایک پارک میں بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنا سفر ایک بچے سے شروع کیا تھا اور آج سینکڑوں بچے ان سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اورکئی ہزارعلم حاصل کر کے جا چکے ہیں۔
اب اگر کوئی شہری اس ملک میں اپنا حصہ ڈالنا چاہے تو کیا وہ پہلے انتظار کرے گا کہ میرے پاس پہلے ماسٹر ایوب کے برابر کلاس ہو جائے تو پھر کچھ سوچوں گا۔
ہر گز نہیں آپ آج ہی ایک بچے کو اپنے گھر بلائیں اور اسے تعلیم دینا شروع کریں۔
'' کیونکہ زندگی سوچنے کا نام نہیں کچھ کر دکھانے کا نام ہے اور جو کرنا وہ آج کرنا ہے''
ایسا بھی ممکن ہے کہ انسانی ہمدردی کے ناتے آپ ہسپتال بنوانے کی خواہش رکھتے ہوں لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے پوری نہ کر سکیں۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ پانی کا فلٹریشن پلانٹ لگانا چاہتے ہوں، غریبوں کیلئے دستر خوان لگانا چاہتے ہوں مگر اب تک ممکن نہیں ہو سکا۔
اور دل میں خوش بھی ہوتے رہیں کہ میں بہت اچھا جذبہ رکھتا ہوں۔ پر کیا  اگر آپ ہسپتال نہیں بنوا سکتے تو کیا کسی ایک غریب کا علاج بھی نہیں کروا سکتے؟
اگر ہم فلٹریشن پلانٹ نہیں لگا سکتے تو کیا ہم گھر کے باہر پانی کا کولر بھی نہیں رکھ سکتے ؟
اگر ہم ملک ریاض کی طرح ایک بہت بڑا دستر خوان نہیں لگا سکتے تو کیا ہم کسی ایک غریب کو روز کھانا بھی نہیں کھلا سکتے ؟
ہمارے پاس جتنے بھی موجودہ وسائل ہیں ہمیں ان ہی سے آغاز کرنا ہے ۔
''جب ہم اسکی مخلوق کی مدد کرتے ہیں تو وہ ہماری مدد کی مقدار نہیں نیت دیکھتا ہے''
حضرت علی کرم الللہ وجہ فرماتے ہیں
''تمکو تمھارے عمل کے بدلے وہ کچھ نہیں ملتا جو تمہیں تمھاری نیت کے عوض ملتا ہے۔ کیونکہ عمل میں دکھاوا آجاتا ہے اور نیت دکھاوے سے پاک ہے''
اور اگر آپ کم وسائل کیساتھ ہی کچھ اچھا شروع کرنا چاہتے ہو تے ہوتو وہ ایسا ہے جیسے آپ نے ایک قدم حرکت دینے کیلئے بڑھایا ہو اور پھر دوسرا قدم اٹھانا آپکی مجبوری بن جاتا ہے۔ کیونکہ آپکا مالک چاہتا ہے کہ آپ آگے بڑھو۔
تو آپ کبھی بھی یہ خیال مت کرو کہ آگے کیا ہوگا آپ صرف اتنا دیکھ سکتے ہو جتنا آپکی گاڑی کی ہیڈ لائیٹس آپکو دکھا رہی ہیں۔ اور جو ذات آگے کا دیکھ رہی ہے وہ یہ بھی جانتی ہے کہ آگے کیا کرنا ہے۔بس آپ قدم بڑھاتے رہیے اس  ا مید کیساتھ کہ جس نے آپکے پہلے تمام مسائل حل کر دیے تھے وہ آج بھی بگڑی ضرور بنا دے گا۔
پروین سعید سورنجی کراچی کی رہائشی خاتون نے جب لوگوں کوبھوک سے بدحال دیکھا تو انکے لئے کچھ کرنے کا عزم کیا۔ اور پہلے دن اپنے گھر پہ صرف پانچ لوگوں کو بلا کر کھانا کھلایا اور یہ نہ سوچا کہ اگر کل کو دس لوگ آگئے تو انکے کھانے کا انتظام کہاں سے ہوگا۔ اور آج سینکڑوں لوگ ہر روز انکے گھر پہ کھانا کھانے کے لئے آتے ہیں اور اب رب تعالیٰ مختلف لوگوں کو وسیلہ بناکر انکی مدد کررہا ہے۔
اگر آپ اس معاشرے میں اس ملک میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہو تو کوئی آپکو روک نہیں سکتا اور آپکے لئے بہت مواقع ہیں۔
عید کے دنوں میں جب ہم سب خریداری میں مصروف ہوتے ہیں تو ہمارےرینجز، پولیس آفیسرز اور دیگر سکیورٹی اہلکار اپنی اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ اگر ہم انکو ایک پھول دے دیں یا انکو سیلوٹ کر لیں تو آپ سوچ نہیں سکتے کہ آپکا وہ دس روپے کا پھول اور اسے عزت میں کیا گیا سلام اسے کتنی خوشی دے سکتا ہے۔
آپ اس معاشرے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیں تو...
صفائی کرنیوالے کو شاباشی دیکر بھی کر سکتے ہیں
پٹرول پمپ پر موجود شخص کو مسکراہٹ بھرا سلام کر کے بھی ڈال سکتے ہیں۔
آپکے پاس پیسہ نہیں تو کیا ہوا اخلاق تو ہے، اور آپ چاہتے ہو کہ آپکو خوشی ملے تو آپ لوگوں میں خوشی بانٹنے کا عمل شروع کر دیجئے۔
چلیں آئیں اور اس معاشرے میں اپنی حصہ داری اپنے گھر سے شروع کریں اپنے کمرے کی صفائی خود کریں، اپنے کھانے کی پلیٹ کو خود صاف کر یں، پانی بجلی کو ضرورت سے کم  استعمال کریں۔
اگر آپ ایک بالٹی پانی کم استعمال کرتے ہیں تو وہ کسی کے گھر میں استعمال ہو سکتا ہے۔اگر آپ ایک بلب اپنے گھر میں بند کردیں تو وہ کسی اور کے گھر میں روشنی دے سکتا ہے۔
''اگر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں تو ہماری حصہ داری یہ بھی ہوگی کہ ہم کسی کا ساتھ دے دیں اسکا ہاتھ بن کر''
اگر ہم یہ بھی نہیں کر سکتے تو ہم تنقید کرنا بند کر کے بھی اس معاشرے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں کیونکہ کسی کو خوش رہنے کا حق دینا ہماری اسلامی ومعاشرتی ذمہ داری میں شامل ہے۔
''کیونکہ اگر ہم گاڑی کو دھکا لگانے سے انکار کر چکے ہیں تو اسکے آگے رکاوٹ بن کر کھڑے ہونے کا حق بھی نہیں رکھتے''
اس ملک کو بلند خیال انسانوں کی ضرورت ہے جو ایک مثبت سوچ پیدا کر سکیں اور یہی سوچ ایک مثبت (پازیٹو) پاکستان بنانے میں مدد دے گی۔
ہم سب کا بلندخیال پاکستان
سلام پاکستان

سید تفسیر عباس رضوی

5 comments:

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...