Friday 3 May 2019

میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں

جو موت سے نہ ڈرتا تھا بچوں سے ڈر گیا
اک رات خالی ہاتھ جب مزدور گھر گیا۔۔!
آج صبح آنکھ کھلی تو حسب عادت ٹیلی ویژن آن کیا۔ ٹی وی پر ایک نجی نیوز چینل کا نمائندہ یوم مزدور پر مزدوروں کے ساتھ بات کر رہا تھا۔ مزدور ٹی وی چینل کے نمائندہ کو اپنے درمیان پا کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور اپنے مسائل سے اس کو آگاہ کر رہے تھے۔ اُن سب میں ایک بات مشترک تھی اور وہ یہ کہ سب کی آنکھوں میں ایک چمک تھی اور ساتھ ساتھ چہرے پر مایوسی کی جھریاں بھی نمایاں تھیں۔ آنکھوں میں چمک اس بات کی غماز تھی کہ صحافی کو اپنے درمیان پا کر اُن کے دلوں میں شاید ایک اُمید جاگی تھی کہ یہ صحافی شاید اُن کے لئے رحمت کا فرشتہ بن کر نازل ہوا ہے اور اب یہ اُن سب کی آواز حکام بالا تک پہنچائے گا اور اُن کے سب مسائل ایک ایک کر کے حل ہوتے چلے جائیں گے۔ ساتھ ساتھ چہرے پر جھریوں میں موجود ایک بے یقینی کی کیفیت سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آج صرف یوم مزدور پر نیوز چینل کو کانٹینٹ کی ضرورت ہے اس لئے اُن کو اتنا پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ 
اور بادل نخواستہ اگر اس نیوز چینل کے ذریعے اُن کی آواز اہل اقتدار لوگوں تک پہنچ بھی گئی تو کیا ہوگا؟ وہ اہل اقتدار تو پہلے سے اُن کے مسائل سے آگاہ بھی ہیں اور اُن کے ان مسائل کو ایک بلیک میلنگ ٹول کے طور پر استعمال بھی کرتے رہتے ہیں۔ 
میں نے ٹیلی ویژن آن کیا ہوا تھا اور میری نظر بھی ٹیلی ویژن پر ہی مرکوز تھی مگر میرا ذہن اب کہیں اور پہنچ چکا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ میں آج یوم مزدور کے موقع پر گھر پر چھٹی منا رہا ہوں حالانکہ میرا مزدور اور مزدوری سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جبکہ آج کی ہر تقریب کا مہمان خصوصی آج کے دن بھی اس خوف میں مبتلا لو پھوٹنے سے پہلے ہی گھر سے نکل چکا تھا کہ اگر آج عبدالحمید تھوڑا سا بھی دیر سے پہنچا تو کہیں وہ آج اپنی مزدوری سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو وہ گھر واپس کس منہ سے جائے گا؟ کیونکہ گھر سے نکلتے ہوئے اس کے کانوں میں جو پہلی آواز پڑی تھی وہ اس کے باپ کی کھانسی کی تھی جو تپ دق کا مریض تھا اور دوسری آواز اُس کی ٦ سالہ بیٹی کی تھی جو روتے ہوئے سکول جانے سے انکار کر رہی تھی اور غور کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کے پاس ہوم ورک کے لئے نوٹ بک نہیں تھی اور اگر آج بھی اس نے ہوم ورک چیک نہ کروایا تو ایک بار پھر اس کو سکول میں سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غصے کی ایک لہر اُس کے تن بدن میں اُٹھی اور وہ اپنی بیوی کے پاس جا کر اُس کو چار باتیں سُنانا ہی چاہتا تھا کہ باورچی خانہ سے اُس کی بیوی کی آواز آئی، "اجی سُنتے ہو! اگر آج واپسی پر آٹا لانے کے پیسے نہ ہوں تو مہربانی کر کے کھانا باہر سے ہی کھا کے آجانا اور ہمارے بارے میں نہ سوچنا ہم فاقوں کے عادی ہو چکے ہیں ایک دن مزید روٹی نہ کھائی تو مر نہیں جائیں گے"۔
بیوی کے الفاظ اُس کے کانوں سے ٹکراتے ہی عبدالحمید بھول گیا کہ اُس کو غصہ کس بات پر آیا تھا اور ایسا شرمندہ ہو کر گھر سے نکلا کہ پیچھے مُڑ کر نہ دیکھا۔۔ آج تو اُس نے گھر سے نکلتے ہوئے سب کو سلام بھی نہ کیا تھا اور نہ ہی بیٹی کو پیار کیا تھا۔
بیوی کے آخری الفاظ اُس کے ذہن پر ہتھوڑے برسا رہے تھے۔ اور چلتے چلتے وہ کب گھر کے قریب چوک میں پہنچ گیا تھا اُس کو پتہ بھی نہ چلا تھا۔۔۔ لیکن آج وہ چوک پرپہنچا تو اُس کا ایک ساتھی مزدور اُس کے پاس آیا اور خوشی خوشی اپنی بند مٹھی اُس کے ہاتھ پر رکھ کر کھول دی، "یہ کیا ہے؟" اُس نے حیرت سے پوچھا۔۔ "وہ تم سے گزشتہ ماہ پانچ ہزار لئے تھے نہ یہ وہی پیسے واپس کر رہا ہوں کل میں گھر گیا تو بیگم نے ایک خوشخبری سُنائی کہ اُس نے مُجھ سے چھپ کر ایک کمیٹی ڈالی ہوئی تھی جو کل ہی نکلی تھی باقی پیسے میں نے بیگم کے پاس ہی رکھوا دیئے اور تمہاری امانت الگ کر لی اب یہ تمہارے حوالے کر رہا ہوں کہ روز قیامت میرا گریبان نہ پکڑو"۔ اُس نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
عبدالحمید نے کُچھ سوچتے ہوئے یہ رقم اس مزدور کو پکڑائی اور کہنے لگا، "مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے تُم میرے گھر جا کر یہ رقم اپنی بھابھی کو دے دو اُس کو کہنا کہ گھر کا راشن ڈال لے اور باقی جو پیسے بچیں اُن سے ابا کی دوائی اور گُڑیا کے اسکول کی چیزیں خرید لے مُجھے شاید کُچھ دیر ہو جائے" عبدالحمید ایک لمحے کے لئے رُک کر مسکرایا اور پھر بولا کہ "مُجھے یقیناً دیر ہی ہو چکی ہے"
عبدالحمید نے یہ کہہ کر رومال کندھے پر ڈالا اور ریلوے اسٹیشن کی جانب چل دیا۔ ساتھی مزدور نے حسب وعدہ وہ رقم عبدالحمید کے گھر پہنچا دی تھی اور اُن پیسوں سے عبدالحمید کی بیوی نے گھر میں راشن ڈال لیا اور ابا کی دوائی اور گُڑیا کی نوٹ بک بھی خرید لی اور بازار سے واپسی پر مُرغی کا نرخ دیکھا تو خوشی سے پھولی نہ سمائی کہ آج کئی ماہ بعد مرغی سستی ہوئی تھی اور اُس کے پاس پیسے بھی تھے اُس نے موقع غنیمت جان کر فوراً دو کلو مُرغی خریدی کہ عبدالحمید چکن بریانی شوق سے کھاتا تھا اور گھر جا کر جلدی جلدی سب کام نمٹا کر گُڑیا کو تاکید کی کہ ابا کو نہ بتائے کہ آج گھر پر کیا پکا ہے وہ عبدالحمید کو وہ دینا چاہتی تھی وہ کیا ہوتا ہے کمبخت مارا ہاں سرپرائز! 
بریانی پک چکی تھی لیکن آج عبدالحمید پتہ نہیں کہاں رہ گیا تھا۔ سو طرح کے وسوسے دل میں آ رہے تھے لیکن وہ ہر بار ٹال کر آیت کریمہ اور درور شریف کا ورد شروع کر دیتی۔ آخرکار اُس کا انتظار ختم ہوا اور رات گیارہ بجے کے قریب دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ 
محلے کے چند لوگ عبدالحمید کی لاش ایک چارپائی پر ڈالے دروازے پر کھڑے تھے۔ عبدالحمید نے ٹرین کے سامنے آ کر خودکشی کر لی تھی اُس کا جسم دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔ اور اب چاروں جانب اندھیرا پھیل چکا تھا رات تو کب کی ہو چکی تھی لیکن دراصل اندھیرا اب ہوا تھا اُس نے ہوش میں آتے ہی واپس مُڑکر گُڑیا کے ہاتھ سے بریانی کی پلیٹ پکڑی اور چولہے سے ہنڈیا اُٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دی۔۔۔
"گُڑیا بیٹا ہمیں یہ بریانی راس نہیں ہے یہ بڑے لوگوں کی خوراک ہے ہمیں بریانی راس نہیں ہے۔۔۔۔۔!" وہ بس یہی چلا رہی تھی۔

فرحان الحسن 
مشن ہولڈر پازیٹو پاکستان 

9 comments:

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...