Monday 27 May 2019

یومِ تکبیر

آج سے قریب 21 برس قبل ایک شام اشفاق احمد، منیر احمد خان، ایئر چیف مارشل پرویز مہدی قریشی، ایڈمرل فصیح بخاری، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل جہانگیر کرامت، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، وزیر خزانہ سرتاج عزیز، وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر مشاہد حسین سید، سول و ملٹری قیادت اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت ایک میٹنگ میں اس بات پر غور کر رہے تھے کہ اگر بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب ایٹمی دھماکوں کی صورت میں دیا جاتا ہے تو اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ چند دن قبل جی ایٹ سربراہ کانفرنس نے پاکستان کو اس بات کا اشارہ دے دیا تھا کہ اگر بھارتی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیئے تو پاکستان کو سنگین نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ جن میں عالمی برادری کی طرف سے بائیکاٹ اور پابندیاں شامل تھیں۔
ایسے میں اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر مشاہد حسین سید وہ پہلی آواز بنے جس نے عالمی دباؤ برداشت کر کے ایٹمی دھماکوں کا جواب ایٹمی دھماکوں سے دینے کا مشورہ دیا۔ اور پھر اس میٹنگ میں موجود دیگر لوگوں نے اُن کا ساتھ دیتے ہوئے حکومت کو ایک دلیرانہ فیصلہ کرنے کا مشورہ دیا۔ ایسے میں ایٹمی سائنسدانوں سے جب اُن کی رائے مانگی گئی تو اُنھوں نے یک زباں ہو کر کہا کہ دھماکے کرنا یا نہ کرنا ایک سیاسی حکومت کا فیصلہ ہونا چاہیئے لیکن وہ حکومت کو اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ حکومت اگر دھماکے کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اُس کو کسی قسم کی سُبکی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
پھر اگلے ہی روز 28 مئی 1998 کو پاکستان کی تمام اعلیٰ سول اور ملٹری قیادت بلوچستان کے علاقہ چاغی میں موجود تھی جہاں پاکستان نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کر کے دُشمن کے اوسان خطا کر دیئے۔ اور بھارت جو اس قسم کے رد عمل کی بالکل توقع نہیں کر رہا تھا پاکستان کے دھماکوں کے نتیجے میں سہم گیا۔
بحرحال پاکستان کو ان ایٹمی دھماکوں کے بعد دنیا کے کئی ممالک کی طرف سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا، اور یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستان پر کئی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ وہ وقت پاکستان کے لیئے ایک بے حد مشکل وقت تھا جب دشمن تو دشمن پاکستان کے کئِی دوست ممالک نے پاکستان کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا۔ پاکستان ان دھماکوں کے نتیجے میں دنیا کی ساتویں جبکہ اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن کر سامنے آیا۔
پاکستان ایک ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہے لیکن پاکستان نے یہ طاقت کبھی جارحیت کے لیئے نہ ہی استعمال کی اور نہ ہی کبھی مستقبل میں ایسا کرے گا۔ بلکہ پاکستان نے ایٹمی تجربات اس لیئے کیئے کہ خطہ کو جنگ سے دور رکھا جائے۔ اور خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھا جائے۔ 
28 مئی 1999 کو ملک میں پہلی مرتبہ یومِ تکبیر سرکاری طور پر منایا گیا اور اس کے بعد سے آج تک ہر سال یومِ تکبیر نہایت شان و شوکت سے منایا جاتا ہے، ملک کے طول و عرض میں دن کا آغاز توپوں کی سلامی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خصوصی پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ قومی ہیروز کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے، اور ایٹمی ہتھیاروں کی نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ملکوں کی تاریخ میں کئی مواقع ایسے آتے ہیں جب مشکل فیصلے لینے ضروری ہو جاتے ہیں اور یہ فیصلے وقتی طور پر مشکل ضرور ہوتے ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمام مشکلات کا خاتمہ بھی ہو جاتا ہے۔ آج پاکستان پر سے تمام پابندیاں ہٹ چکی ہیں اور دنیا کے کئی ممالک پاکستان کے ساتھ نہ صرف کاروبار کر رہے ہیں بلکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، سی پیک اس کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ سی پیک اور OBOR ایسے پراجیکٹ ہیں جن کے ذریعے پاکستان ترقی کی منازل نہایت تیزی کے ساتھ طے کر رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ہاکستان دنیا کی ایک عظیم معیشت ہو گا۔ پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے ابھی صرف 70 سال کا عرصہ ہوا ہے اور اس قلیل عرصہ میں پاکستان نے دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے۔ جن لوگوں کو یورپ اور امریکہ کے سامنے پاکستان کُچھ نظر نہیں آتا اُن لوگوں سے میری التجاء ہے کہ وہ ذرا دنیا کی تاریخ پرایک سرسری سی نگاہ دوڑائیں۔ وہ امریکہ جو آج ورلڈ پاور ہے وہاں آج سے تین سو سال پہلے قتل و غارت گری عام تھی لاقانونیت کی انتہا تھی اور وہ برطانیہ جس کی مثالیں آج ہمارے یہاں دی جاتی ہیں وہاں آج سے دو ڈھائی سو برس پہلے غنڈہ گردی کا راج تھا قانون نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ 
پاکستان کا مقابلہ اس لیئے بھی دنیا کے دوسرے ممالک سے نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اپنی نوعیت کا دوسرا ملک ہے جو دنیا کے مختلف حصوں سے مسلمانوں کو لا کر آباد کیا گیا، دنیا میں ملکوں کی تاریخ میں سال دنوں کے برابر ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے پاکستان ابھی ایک نوزائیدہ ملک ہے جو اپنی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے اور چھوٹی سی تاریخ میں تین جنگیں لڑنے اور دہشت گردی کے خلاف گزشتہ دو عشروں سے برسرِ پیکار ہے اور اس جنگ میں عالمی امداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہر سال چند سو مہاجرین کو قبول کرتے ہیں اور دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں بھی یہ تعداد ہزاروں میں بھی نہیں ہے جبکہ پاکستان ایک غریب ملک ہونے کے با وجود لاکھوں افغان مہاجرین کو گزشتہ تین عشروں سے سنبھالے ہوئِے ہے اور دنیا میں واحد ملک پاکستان ہے جہاں افغان مہاجرین کو کاروبار کی اجازت ہے ورنہ دنیا کے کسی بھی اور ملک میں مہاجرین کر کاروبار کی اجازت نہیں ہوتی اور وہ اقوام متحدہ کے مقرر کردہ کیمپس میں اقوام متحدہ کی امداد پر زندگی گزارتے ہیں اگر ہم ان سب چیزوں کا بغور معائنہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہمارا ملک محدود وسائل کے باوجود کتنا بوجھ برداشت کیئے ہوئے ہے۔ اور مُجھے یقین ہے کہ جلد ہمارا ملک پاکستان ایک عظیم الشان ریاست کی صورت میں دنیا کے صفِ اول کے ممالک میں شمار کیا جائے گا، پاکستان آج بھی دنیا کا سب سے خوبصورت ملک ہے اور آئندہ بھی ایک عظیم الشان مستقبل پاکستان کا منتظر ہے!
پاکستان زندہ باد!

سید فرحان الحسن
مشن ہولڈر پازیٹو پاکستان 

2 comments:

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...