Monday 3 June 2019

تاریخ ساز سفر

یہ 1947 کے شروع کے چند ماہ کی بات ہے جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اُس کی ہندوستان کو یکجا رکھنے کی تمام کوششیں بیکار ہیں اور برصغیر کے مقامی اب آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ آزادی صرف گورے سے نہیں تھی بلکہ وہ برصغیر کی تقسیم چاہتے تھے تاکہ یہاں کے باسی اپنی زندگی اپنے رسوم و رواج کے مطابق بغیر کسی روک ٹوک یا فساد کے بغیر گزار سکیں۔
آخرِ کار جب ماؤنٹ بیٹن کی تمام کوششیں ناکام ہوتی ہوئی نظر آنے لگیں تو اُس نے ازمے کے ذمہ یہ کام لگایا کہ اب وہ برصغیر کی تقسیم پر کام شروع کر دے۔ تاکہ حکومت برصغیر کے مقامی لوگوں کے ہاتھوں میں دی جا سکے، پلان کے فائنل ہونے تک اس پلان کی رازداری کو یقینی بنانے کی تاکید بھی کی گئی۔
اپریل 1947 میں ہونے والی گورنرکانفرنس میں پلان فائنل کیا گیا اور اگلے ہی ماہ مئی میں یہ پلان حتمی منظوری کے لیئے برطانیہ بھجوا دیا گیا جہاں برطانوی حکومت نے اس پلان کی منظوری دے دی۔ 31 مئی 1947 کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن برطانیہ سے واپس برصغیر پہنچا اور آتے ساتھ ہی اُس نے ایک اعلی سطحی اجلاس طلب کیا، 2 جون کو یہ اجلاس ہوا جس میں انگریز عہدیداروں کے ساتھ ساتھ برصغیر کے مقامی لیڈران بھی موجود تھے جن میں نہرو، پٹیل، سردار عبدالرب نشتر، کریپلانی کے علاوہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان بھی موجود تھے۔ اس اجلاس میں برصغیر کے تمام صف اول کے لیڈران کے سامنے ایک پلان رکھا گیا جس کو سب نے اکثریت رائے کے ساتھ منظور کر لیا۔ یہ پلان 3 جون کو منظر عام پر لایا گیا اس ہی وجہ سے اس کو 3 جون کا پلان بھی کہا جاتا ہے، اس پلان کے چند چیدہ چیدہ نکات یہ تھےٖ:
x پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے ممبران ایک میٹنگ کریں گے جس میں پنجاب کی تقسیم پر بحث کی جائے گی اور اگر دونوں میں سے کسی ایک نے بھی تقسیم کے حق میں رائے دی تو معاملہ از خود گورنر جنرل کے پاس چلا جائے گا جو ایک کمیشن قائم کرے گا جس کو اختیار ہو گا کہ وہ مسلم اکثریت اور غیر مسلم اکثریتی علاقوں کی حدود کا تعین کرے۔
x سندھ اسمبلی ایک قرارداد کے ذریعے اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ وہ موجودہ حکومت میں رہے گی یا پھر نئی ریاست کا حصہ بن کر نئی اسمبلی کے طور پر کام کرے گی۔
x شمال مغربی سرحدی صوبہ کے مستقبل کے لیئے یہ طے کیا گیا کہ اس صوبہ میں ایک ریفرنڈم کروایا جائے گا اور اکثریتی رائے کا احترام کرتے ہوئے صوبہ کے فیصلے کا احترام کیا جائے گا تاہم ریفرنڈم 1946 میں ہونے والے ریفرنڈم کے الیکٹورل کالج کے ذریعے کروائے جائیں گے۔
x بلوچستان کو بھی اس کانفرنس میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا۔
x بنگال کی تقسیم کے لیئے یہ طے کیا گیا کہ سلہٹ میں ریفرنڈم کروایا جائے گا جس میں بنگال کے نمائندگان اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ وہ موجودہ نظام میں رہتے ہوِئے بھارتی ریاست آسام کا حصہ رہیں گے یا پھر آسام سے الگ ہو کر نئے قائم ہونے والے مشرقی بنگال کا حصہ بنیں گے۔
یہ قرارداد تقسیم ہند کی ابتداء تھی تاہم نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے سازش کے ساتھ مسلم لیڈران کو دھوکہ دیا اور گاندھی کو اعتماد میں لے کر تقسیم میں چال بازی سے کام لیا اور مسلم لیڈران کو مجبوراً آخری وقت پر صرف اس لیئے پلان منظور کرنا پڑا کہ اگر پلان میں تاخیر ہوتی تو اس کا فائدہ کسی صورت پاکستان کو نہ ہونا تھا۔
پھر اس کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے گورنر جنرل کے طور پر منتخب ہوئے جبکہ وزیراعظم کے لیئے لیاقت علی خان سے بہتر انتخاب کوئی ہو بھی نہیں سکتا تھا، ٹھیک دو ماہ بعد ماہِ رمضان میں آخری عشرے کی ستائیسویں شب 14 اگست 1947 کو برصغیر پاک و ہند دو ریاستیں بن کر دنیا کے نقشے پر اُبھریں جن میں سے ایک ہندوستان کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ باقی ماندہ حصے کو دنیا میں پاکستان کے نام سے شناخت ملی۔
پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کے صدر کے طور پر قائداعظم بلا مقابلہ منتخب پو گئے۔

پھر ایک نیا امتحان شروع ہوا جس میں اُس وقت کے تمام لوگوں کا برابر کا حصہ تھا کسی ماں نے اپنی شیر خوار اولاد کو موت کی نیند سُلا دیا جبکہ کسی بھائی کے سامنے اُس کی جوان بہن کی عصمت دری کی گئی لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنا سب کُچھ چھوڑ کر ایک اسلامی فلاحی ریاست کی جانب چل پڑے ان لوگوں میں کئی بزرگ بھی شامل تھے جو یہ جانتے تھے کہ آزادی کے دوران ہونے والے فسادات میں اگر وہ بچ بھی گئے تو وہ ذیادہ دیر آزاد فضا میں زندہ نہیں رہ پائیں گے لیکن اُن کے دلوں میں ایک یقین تھا کہ اُن کی اولاد اور آنے والی نسلیں ایک آزاد فضاء میں سانس لیں گی۔ وہ بے دھڑک دینی فرائض سرانجام دیں گے جہاں اُن کی ماں بہنوں کی عزت و آبرو محفوط ہو گی۔ 

اسی پاکستان میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں بہت سے ہیروز دیئے جن میں روشن خان، جہانگیر خان، جان شیر خان، ارفع کریم، وسیم اکرم، جاوید میانداد، ماجد خان، عبدالحفیظ کاردار، حنیف محمد، عمران خان، شاہد خان آفریدی، یونس خان نے دنیا میں پاکستان کا پرچم سربلند کیا یہاں میں نے ایک نام شامل نہیں کیا۔ وہ نام ان سب سے کسی طرح کم نہیں بلکہ اپنی مثال آپ ہے۔ 
میں 2 جون 2015 کو راولپنڈی میں ایک مشہور بازار چوہڑ چوک میں کھڑا اپنے ایک دوست کا انتظار کر رہا تھا کہ چوہڑ چوک میں واقع ایک پٹرول پمپ کے باہر ایک آدمی کھڑا تھا میں نے اُس آدمی کو دیکھا تو مُجھے اُس کی شکل کُچھ جانی پہچانی سے لگی وہ آدمی میری توجہ کو بھانپ گیا اور میری طرف بڑھ کر سلام کے لیئے ہاتھ آگے بڑھایا، میں نے نہایت ادب کے ساتھ سلام کیا اور دریافت کیا کہ کیا میں اس آدمی کو جانتا ہوں؟ اُس آدمی نے مُسکراتے ہوئے کہا کہ شاید آپ نے مُجھے کہیں دیکھا ہو دنیا میں ایک شکل کے کئی لوگ ہوتے پیں، میں اُن کی بات پر مطمئن ہو گیا لیکن ذہن ابھی تک منتشر تھا اُنھوں نے مُجھ سے میرے بارے میں کُچھ سوال کیئے اور میرے مُستقبل کے لیئے دعا کی اتنے میں ایک موٹرسائیکل پر ایک نوجوان آیا اور وہ اُس کا تعارف مُجھ سے کروانے لگے، "یہ میرا بیٹا ہے! ایف ایس سی کا طالب علم ہے یہ مُجھے روزانہ یہاں سے گھر لے جانے کے لیئے موٹرسائیکل پر آتا ہے"۔ 
میں نے اُن کے موٹر سائیکل پر بیٹھنے سے پہلے ہی ایک شکوہ کیا کہ آپ نے مُجھ سے تو سب کُچھ پوچھ لیا اپنے بارے میں کُچھ نہیں بتایا۔ وہ کہنے لگے، "بیٹا میں یہاں ڈولفن سنوکر کلب میں کوچ کی حیثیت سے کام کرتا ہوں اور اس کے عوض مُجھے ماہانہ بیس ہزار روپے مل جاتے ہیں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے عزت کے ساتھ گزر بسر ہو رہا ہے"۔۔ یہ کہہ کر وہ موٹر سائیکل کی طرف بڑھنے لگے اور میرے سے ہاتھ ملایا تو میں نے اُن کا ہاتھ نہایت مضبوطی کے ساتھ جکڑ لیا، "آپ محمد یوسف ہیں؟ پاکستان کی شان تین بار عالمی چیمپیئن اسنوکر کی دنیا کا ایک لیجنڈ!"۔ وہ میری بات کے جواب میں مسکرائے اور اثبات میں سر ہلا دیا۔ اور موٹرسائیکل پر بیٹھ کر چلے گئے۔ میں اپنی زندگی میں اتنے بڑے لیجنڈ سے ملوں گا یہ کبھی نہیں سوچا تھا لیکن ان حالات میں ہوگا وہ لیجنڈ یہ تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ یہ بات آج بھی یاد آتی ہے تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے!
ایک آدمی جس نے تقریباً دو عشرے پاکستان کا پرچم دنیا میں لہرایا پاکستان کی حکومت نے اس کو بدلے میں کیا دیا؟ بیس ہزار کی ایک پرائیویٹ کلب میں نوکری؟۔
میں نے سوچا کہ یہ ہرگز وہ اسلامی فلاحی ریاست نہیں ہے جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا جہاں اپنے محسنوں کو سڑکوں پر دھکے کھانے کے لیئے چھوڑ دیا گیا ہے!
میں آج اہل اقتدار لوگوں سے التجاء کرتا ہوں کہ اپنے محسنوں کی قدر کریں یہ ہماری عزت ہیں انھوں نے اپنی پوری زندگی ہمیں دی ہے خدارا ان کو ایک با عزت زندگی گزارنے میں مدد کریں اور اب تو ہمارے ملک کے سربراہ بھی ایک کھلاڑی ہیں اُن کو چاہیئے کہ ایسے اقدامات کریں کہ پھر کوئی حنیف محمد کی طرح کسمپرسی کے عالم میں نہ مرے۔ اور روزِ قیامت اپنے بانیان کو منہ دکھانے کے قابل ہوں ہم لوگ کہ ہم نے اُن کے پاکستان میں اسلامی نظام نافز کیا، اپنے محسنوں کی قدر کی اُن کو در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور نہیں کیا۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے حکمران اپنے محسنوں کی قدر کرنا سیکھیں اور اُن کو عزت دیں جنھوں نے پاکستان کا نام وہاں روشن کیا جہاں لوگ پاکستان کے نام سے واقف تک نہیں تھے۔

سید فرحان الحسن
مشن ہولڈر پازیٹیو پاکستان

4 comments:

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...