Tuesday 25 December 2018

سفرنامہ (حصہ دوم) - لائل پور کی کہانی

ہم FCCI پہنچے تو وہاں سب انتظامیہ پہلے سے ہی موجود تھے اور سب پازیٹیوینز اپنا اپنا کام کرنے میں مگن تھے۔ ہم تینوں بھی کمپیئرنگ میں کچھ  مزید اچھے الفاظ کا اضافہ کرنے بیٹھ گئے۔ وہاں ہی میری ملاقات فیصل آباد کے تقریباً سب ہی ٹیم ممبران سے ہوئی جن کے صرف نام ہی سن رکھے تھے( کچھ کے تو نام بھی نہیں پتہ تھے)۔ اسی دوران عبد الرزاق کو جوش آیا اور اس نے سٹیج سنبھال کر اپنی پُرجوش گفتگو سے آنے والے مہمانوں کے لہو کو گرمایا اور اٹھ جوانا پہ آئے ہوئے جوانوں کو حقیقتاً اٹھا دیا۔ 
11:30 بجے سر عابد، سید انیس اور فواد نصیر کی آمد پر پروگرام کا با قاعدہ آغاز کیا گیا۔
میرا قطعاً ارادہ نہیں تھا کہ پروگرام کی بھی تفصیل لکھوں گی لیکن مجھ سے رہا نہیں جا رہا۔ چلیں مختصراً بیان کیے دیتی ہوں۔  
سلمان نے انتہائی خوش الہانی سے قرآنِ مجید کی تلاوت کی۔ حمنہ جن کا تعلق تو ملتان سے ہے لیکن اس وقت اپنی تعلیم کے لیے فیصل آباد میں رہائش پذیر ہیں، نے اپنی خوبصورت آواز میں نعتِ رسولِ مقبولؐ سے ہمارے دلوں کو معطر کیا۔ شہباز ارشاد(رہبر) نے پازیٹو پاکستان کا جبکہ مہران مختار نے سائیبریگیڈ کا تعارف کروایا۔ اس کے بعد ولید اصغر حسینی، فواد نصیر، سید انیس، سر عابد اور مہمانِ خصوصی فرخ حبیب نے مختلف موضوعات پر اظہارِ خیال کیا۔
پروگرام کے دوران سرائیکی، پختون اور گلگتی کلچرل ڈانس بھی دکھایا گیا۔ کوئی شک نہیں کے منتظمین نے سب انتظامات بہت اچھے کیے ہوئے تھے۔ اور آنے والے مہمانوں نے بہت کچھ سیکھا کیونکہ ہمارا پروگرام " entrepreneurship اور فورتھ انڈسٹریل ریوولوشنز" کے متعلق تھا۔
پروگرام کے اختتام پر ارادہ کیا گیا کہ سب منتظمین کھانا باہر کھائیں گے(😜) بھلا ایسی بات پہ کون خوش نہ ہوتا سبھی تیار بیٹھے تھے۔ کہیں سے آواز آئی کہ سحرش اور سیماب شہباز بھائی کی گاڑی میں پہنچ جاؤ، ہم باہر نکلے اور اتنے میں سر عابد اور ولید صاحب بھی آگئے اور ہم نے ہزارہ ہوٹل کی طرف رختِ سفر باندھا۔ 
راستے میں پُر مزاح گفتگو چلتی رہی اور ساتھ ساتھ مجھے فیصل آباد کے راستوں سے روشناس بھی کروایا جاتا رہا۔
وہاں پہنچ کے مرد حضرات الگ اور ہم دوشیزائیں الگ بیٹھ گئیں😜۔ کھانے میں قیمہ، مکس سبزی اور ہزارہ ہوٹل کی مشہور دال منگوائی گئی۔ ساتھ ہی ولید صاحب تشریف لائے اور مجھے یاد کروایا کہ 8 ڈشیز ہو گئی ہیں بشمول صبح کیے ہوئے ناشتے اور ایک دن پہلے کھائے ہوئے منچورین اور چکن اچاری کا ایک دفع پھر وہاں موجود سب لوگوں کو سیور کھلانے والی زیادتی کا قصہ سنایا گیا۔ وہاں موجود سب لڑکیوں نے مجھے یوں دیکھا جیسے پتہ نہیں ہم کیا عجیب چیز کھلاتے ہیں😥 (آخر کو منظر کشی ہی ایسی ہوئی)۔ لیکن ہزارہ ہوٹل کا کھانا لذیذ تھا یا شاید بھوک کی شدت تھی۔😜
کھانا کھانے کے بعد سب کو الوداع کہا اور ہم (بیلا، میں، سر عابد، ولید اور عدنان) گھنٹا گھر کی طرف چل پڑے۔ پیدل جاتے ہوئے بیلا اور سر عابد کسی اہم مسئلے پہ گفت و شنید میں مگن تھے اور ولید صاحب گائیڈ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ گھنٹا گھر پہنچنے تک مجھے فیصل آباد کی تاریخ بتائی جا چکی تھی کچھ مقامات پہ سر بھی اپنے شہر کا تعارف کرواتے رہے۔ ایک دفعہ تو ایسا لگا میں کہیں باہر سے پاکستان دیکھنے آئی ہوں۔
گھنٹا گھر پہنچنے پر مجھے وہاں کے آٹھ بازاروں کا تعارف کروایا گیا ( امین پور بازار، کچہری بازار، کارخانہ بازار، جھنگ بازار، ریل بازار، چنیوٹ بازار، مینٹگومری بازار اور ایک کا نام میں بھول گئی)۔ اسی دوران بیلا نے آئس کریم کھلانے کا اعلان کیا، آواز اتنی اونچی تو نہیں تھی پھر بھی ارسلان بھائی تک نجانے کیسے پہنچ گئی🤭 ہم سب بشمول مہران بٹ آئس کریم گئے اور وہاں کی لذیذ آئس کریم اہلِ ذوق لوگوں کی خوبصورت شاعری اور ادبی گفتگو کے ساتھ کھائی۔
 کھلی آنکھوں سے سونے کا تجربہ... 
ہم مزیدار آئس کریم سے لطف اندوز ہو چکے تو کھاری صاحب کو کہیں کام سے جانا تھا جس کے لیے وہ مہران کو لے کر نکلے، عدنان اور ارسلان بھائی کو بھی شاید ہاسٹل جانا تھا، ایونٹ کی وجہ سے سب تھک چکے تھے تو وہ بھی چلے گئے۔ پیچھے رہ گئے میں، بیلا اور ولید صاحب.. دراصل وہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ میں شکوہ کروں کہ مجھے فیصل آباد دکھانے کے بجائے جلد ہاسٹل میں قید کر دیا گیا۔ اسی لیے ہم وہاں ہی محوِ گفتگو ہو گئے۔ آغاز ہوا UAF سے اس کی تعریفیں شروع ہوئیں پھر FLF ( فیصل آباد لیٹریچر فیسٹیول) کی کہانی وہاں آئے ہوئے مہمانوں کا ذکر(جن کو صرف وہ دونوں جانتے تھے، مجھے کیا خبر🙄) اچانک خیال آیا سحرش بھی تو ساتھ ہے۔
بیلا: تم بور تو نہیں ہو رہی۔
میں: نہیں نہیں میں تو enjoy کر رہی ہوں۔
ولید: نہیں تم بور ہو رہی ہو تو بتا دو۔
بیلا: اچھا اب کوئی اور بات کر لیتے ہیں۔
اور پھر شہر کے شعراء کا ذکر ہوا۔ ارے حافی کیا لکھتا ہے، اف عمیر نجمی کے تو کیا کہنے، تم نے وہ شعر سنا (اب شعر تو مجھے یاد رہتے نہیں🤫) جون جیسا انداز تو کسی کا ہے ہی نہیں، سحرش تمہیں پتا ہے یہ سارے بڑے بڑے شاعر اور ادیب فیصل آباد سے ہی تو ہیں اور میرے جوابات اچھا، ارے واہ، گریٹ (اب اور کیا کہتی.. )
مذاق اپنی جگہ میں محظوظ ہو رہی تھی گفتگو سن کے (اچھی سامع جو ہوئی) لیکن بور بھی بہت ہوئی😜 اس کے بعد خیال آہی گیا اور ایک قصہ شروع ہوا جو دونوں مل کے مجھے سنا رہے تھے ( دوست کی یاد آرہی تھی نا😉)
جاری ہے... 
سحرش امتیاز 
ایمبیسڈر پازیٹو پاکستان 

5 comments:

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...