Thursday 17 January 2019

سائیڈ رول

 دیکھی جانے والی فلموں میں ہمیں ہیرو کی مکمل کہانی دکھائی جاتی ہے اور سائیڈ رولز کی زندگی بہت ہی مختصر کر کے دکھائی جاتی ہے اور ہمیں بھی یہی لگتا ہے کہ  تمام تر پریشانیاں، نئے تجربات، نئے مواقع، ناکام ہوجانے کے بعد ایک بہت بڑی کامیابی، ایک اچھی  ہمسفر کا ملنا، اسکی ازدواجی زندگی میں دھوکا ہونا اور تمام تر نشاط افزاء لمحات صرف ہیرو کی ہی زندگی میں آ سکتے ہیں۔ جس طرح ہم اپنے دن کا بیشتر حصہ سیاسی لیڈرز کے متعلق بات کرنے میں گزار دیتے ہیں اور انکی زندگیوں کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ خود کو بے وقعت جاننے لگتے ہیں۔ اور اسکا لاشعوری اثر ہماری حقیقی زندگی پہ کس طرح پڑتا ہے ہم اسکو کبھی ملحوظِ خاطر ہی نہیں لاتے۔
ہمارے دوستوں میں بھی ایک ایسا دوست موجود ہوتا ہے۔ جسے ہم اپنی کہانی کا سائیڈ رول تصور کرتے ہیں۔ اور    جسے ہم سائیڈ رول تصو ر کررہے ہوتے ہیں آگے اسکی بھی ایک مکمل  کہانی ہوتی ہے۔ اور اُسکی کہانی میں بھی ایک سائیڈ رول موجود ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ بتدریج یونہی جاری و ساری رہتا ہے۔
چونکہ اپنی کہانی میں ہیرو ہم خود ہوتے ہیں اس لئے ہمیں کوئی دوسرا ہیرو مل ہی نہیں پاتا ہے۔ اور اسی وجہ سے سب سائیڈ رول میں ہی چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب  اس کا اثر کیا ہوتا ہے کہ ہم خود کو خود کے تصور کیے ہوئے اونچے مقام پہ رکھ لیتے ہیں اور خود کو باقی سب سے جدا بھی تصور کرنے لگتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں خود کے علاوہ کسی کی بیماری و پریشانی نہ محسوس ہوتی ہے اور نہ نظر آتی ہے۔ آپ اور میں جب سرکاری ہسپتال جاتے ہیں اور اُدھر جا بجا مریض پڑے نظر آتے ہیں تو ہم انکو دیکھ کر ڈر تو ضرور جاتے ہیں۔ مگر کچھ چھُپی ہوئی سی بیزاری بھی محسوس ہوتی ہے۔
ایسا اس لئے ہے کہ ہم خود کو کسی اور دنیا کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے یہ جو بیمار لوگ ہیں انکا کام ہی بیمار ہونا ہے اور یہ اسی وجہ سے یہاں موجود ہیں۔ شاید ہم انہیں ایک  الگ ڈیپارٹمنٹ کے لوگ تصور کر لیتے ہیں جو بیمار ہونے کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔
ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ تب بھی ہوتا ہے جب ہم  کچھ بھیک مانگنے والوں کو سڑک کی سائیڈ پہ بیٹھا دیکھتے ہیں۔ کیا اُنکو دیکھ کر بھی تو ہمیں یہی محسوس نہیں ہوتا کہ یہ لوگ بھیک مانگنے کیلئے ہی بنے ہیں۔
یارو! مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے کوئی بھی ہمیشہ بھیک مانگنے یا بیمار ہونے کے لئے نہیں بنا ہے۔ یقین مان لو اُسکے پاس ایسی کوئی سند نہیں ہے۔ ہم میں سے ہی لوگ اپنی اپنی باری پہ بیمار ہو کر ہسپتال پہنچتے ہیں۔ اور ہم میں سے ہی کچھ لوگ روڈ پر بھیک مانگتے پائے جاتے ہیں۔ اور یقین  ہمیں تب آتا ہے جب ہم خود اپنی ٹوٹی ٹانگ لیکر اسی ہسپتال پہنچ جاتے ہیں جدھر ہمیں خود کے علاوہ سب مریض نظر آتے تھے۔ اور جب ہم ایک تجربے سے گزر جاتے ہیں تو پھر ہم پہ حقیقت عیاں ہوتی ہے ۔ اور پھر وہ حقیقت ہم دوسروں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر افسوس  کوئی آپکو سننا ہی نہیں چاہتا اور جب اس شخص پہ بھی وہ حقیقت کھل جاتی ہے تو وہ بھی آپکی صف میں آجاتا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ تجربے کا ہے کیونکہ آپ اور میں کسی کی ٹھوکر سے تو سیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ مگر جب تک خود اس ٹھوکر سے مستفید نہ ہو جائیں۔
ایک آنکھوں دیکھا  قصہ آ پکو سنانا چاہوں گا۔ میرے بڑے بھائی صاحب جنکا بزنس اسلام آباد کے ایک بڑے ہی خوبصورت علاقے ایف ٹن مرکز میں تھا۔ اسلام آباد جیسا کہ خود بھی خوبصورت اور  اداؤں والا شہر ہے تو وہاں پہ زیادہ ترلوگ بھی کچھ اسی طرز کے آتے ہیں۔ جن کیلئے عام لوگوں سے بات کرنا یا انکو انسان سمجھنا ذرا مشکل سا کام ہوتا ہے۔ میں سب کی نہیں کچھ قیمتی اور مہنگے لوگوں کی بات کر رہا ہوں۔ میرے پاس میرے  کچھ قمیض تھے اور میں انکی آلٹر کروانے کی غرض سے ایک ایسی مارکیٹ میں اترا جو بیسمنٹ میں بنی ہوئی تھی۔ وہاں تقریباََ ہر دکان کے باہر ایک کڑھائی کی مشین والا یا ہاتھ سے کپڑوں پر ملبوسی کام کرنے والا اپنا ایک چھوٹا سا اڈہ لگا کر بیٹھا ہوا تھا۔ اور سب آوازیں مل کر ایک نئی طرز کی آواز یا شور تھا جسے میں سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اسی دوران میں نے ایک درزی کی دکان پہ دو حضرات کو جھگڑتے دیکھا۔ چونکہ مجھے بھی درزی سے ہی کام تھا تو میں دکان کے باہر ہی ایک سٹول پر بیٹھ گیا۔
ایک برانڈڈ سوٹ اور ٹائی میں ملبوس شخص جو کہ شاید اپنے دفتر سے سیدھا ادھر ہی آیا تھا۔ وہ اس درزی سے لڑ رہا تھا کہ تم نے میری بیوی کے کپڑے تیار کیوں نہیں کئے جبکہ تمھارا وعدہ دو دن پہلے کا تھا اور آج میرا دوسرا چکر ہے۔
دوسرے بھائی صاحب کا کہنا تھا کہ میری بیوی کی حالت کچھ ٹھیک نہیں تھی اس لئے مجھے مجبوراََ دکان کو دو دن  بند رکھنا پڑا اور میں کل شام تک آپکے کپڑے تیار کردوں گا۔
اسکے جواب میں دوسرے بھائی صاحب نے کہا کہ کیا بکواس ہے تم لوگوں کے ہاں ہر روز کوئی بیمار یا مرتا ہی رہتا ہے۔ اسکی اس بات پر وہ دکان دار بھڑک اٹھا اور کہنے لگا جناب  بیماری اور موت تو صرف اسی کے ہاتھ میں ہے جس نے آپکو زیادہ پیسہ دیدیا اور مجھے ابھی تک نہیں دیا۔
آپ میں اور مجھ میں فرق صرف پیسے کاہے یہ پیسے کا فرق نکل جائے تو آپ مجھ جیسے عام آدمی سے بھی کہیں گئے گزرے ہیں۔ یہ صرف پیسہ ہے جو  آپکے غرور میں شامل ہے۔ اس دوران بات کرتے ہوئے اسکی زبان کانپ رہی تھی مگر میں نے محسوس کیا وہ اس شخص سے ڈر نہیں رہا تھا بلکہ وہ واقعی ہی  اپنی حالت مجبوری اور بیوی کی طبعیت  کی وجہ سے پریشان دکھائی دے رہا تھا۔
اس نے کہا میں کوشش کرتا ہوں آج رات کو ہی میں آپکا کام مکمل کردوں اور آپکو انتظار کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے میرا لڑکا آپکے گھر پہ ہی دے جائے گا ابھی مہربانی فرما کر تشریف لے جائیے۔ اس کے بولنے کے دوران وہ شخص ایک بات بھی نہ بول سکا اور اسی دوران اسکا ڈرائیور بھاگتا ہوا آیا اور بولا سَر اوپر بی بی جی کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ شخص وہاں سے بھاگتا ہو چلا گیا۔
اس روز ایک بات سمجھ آ گئی اصل حقیقت غرور اور ہماری  سوچ میں پوشیدہ ہے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
''اگر تمہیں کوئی چیز چھوٹی نظر آ رہی ہے تو یقیناََ  تم اسے دور سے دیکھ رہے ہو یا غرور سے''
یارو! اصل بات ہماری سوچ کی ہے جو کبھی ہمیں ہیرو بنا دیتی ہے اور ہم خود کو سب سے بہتر سمجھنے لگتے ہیں اور کبھی فلم کا ولن بنا دیتی ہے کہ ہم خود کو ہی برا ترین تصور کرنے لگتے ہیں۔
ایک بات یاد رکھنا کہ حضرت  آدم ؑ سے لیکر اور اس وقت تک جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ہر ایک شخص کی ایک مکمل کہانی ہے کوئی بھی سائیڈ رول کے لئے پیدا نہیں ہوا ہے۔
اگر آپ اپنی کہانی میں سائیڈ رول ادا کررہے ہیں تو اسکی وجہ آپ خود ہیں۔ آ پ بھی اپنی زندگی میں ہیرو بن سکتے ہیں۔ مگر صرف اپنے اعمال اور سوچ کی بنیاد پر۔
جیسا کہ ہمارے نبی محمد مُصطفٰےﷺ اس کائنات کے سب سے بڑے اور افضل ہیرو ہیں جو اپنی زندگی  میں بھی ہیرو  تھےاور آج ہم سب کی زندگی کے بھی ہیرو ہیں۔
میں اور آپ  بھی دوسروں کی کہانی کے ہیرو بن سکتے ہیں اگر ہم  اپنی زندگی میں تمام سائیڈ رول سمجھنے والوں کو  بھی اپنی زندگی میں ہیرو کا رول دے دیں اور ہیرو کی طرح   جینے کا راستہ دکھا دیں۔
مگر ایک بات واضح رہے کہ سب سے پہلے آپکو خود کو  ایک مثبت  اور سچا ہیرو بنانا ہے۔ اسکے بعد ہی آپ کسی اور کو وہ رول دینے کے قابل ہو سکیں گے۔
''کیونکہ خالی برتن سے آپ کچھ بھی نہیں بانٹ سکتےتو آپکو پہلے اپنے برتن کو بھرنا ضروری ہے''
اس دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو خود ہی سائیڈ رول میں رہنا پسند کرتے شاید وہ سامنے آنے سے ڈرتے ہیں یا سامنا کرنے سے یا پھر وہ خود کی اہمیت ہی نہیں جان پاتے۔ مگر ایک بات ذہن نشین رہے کسی کو ہیرو کا رول دیکر اور خود  اسکے سائیڈ رول میں آجانا بھی بزرگی ہے۔
ایک بات جان اور سمجھ لیجئے جس طرح ہماری ماں ہمیں کمزور اور ناکام دیکھ کر خوش نہیں ہو سکتی۔ عین اسی طرح بلکہ اسے بھی کہیں زیادہ ہمارا خدا بھی ہماری ناکامی اور کمزوری پر ناخوش ہوتا ہے۔
اگر ہماری ماں کے اختیار میں سب کچھ ہو تو وہ ہمیں کبھی بھی خالی نہیں رہنے دے گی اور جبکہ ہمارے خدا کے پاس تمام تر اختیارات ہیں تو ہم کیسے خالی رہ سکتے ہیں۔ وہ تو ہمارے کشکول اور دلوں کو ہمیشہ اپنی رحمتوں اور خزانوں سے بھرنے کیلئے تیار ہے۔ بشرطیکہ ہم اسے اپنا جان کر مانگ سکیں اور کچھ نہ بھی مانگ سکیں تو صرف مانگنے کا طریقہ ہی مانگ لیں تو بھی سب مل جائے گا۔
اس نے اپنے بندوں کو اتنا ہلکا نہیں بنایا جتنا کہ وہ خود کو سمجھنے لگتا ہے۔ وہ اس بات کو نا جانے کیوں بھول جاتا ہے کہ خدا  اپنے بندوں کی ہمیشہ فکر میں ہے۔ لیکن صرف وہ بندہ ہے جو اس سادہ سی بات سے  بے خبر ہو کر خود کو ذلیل اور رسوا کر رہا ہے۔ وہ اس بات کو سمجھ نہیں پا رہا ہے کہ ''کمزور تو صرف میں ہوں جبکہ میرا رب تو بڑی قوتوں والا ہے''
اور اسکے ہاں تو سب ہیرو ہیں کوئی بھی سائیڈ رول نہیں۔
دعا ہے کہ اللہ ہم سب کے دلوں کو خیر اور محبت کی جانب موڑ دے اور بیشک وہ ہر چیز کا حاکم ہے آپکا اور ہمارا خدا نگہبان۔
سید تفسیر عباس رضوی 

No comments:

Post a Comment

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...