Wednesday 22 April 2020

ایک نظر ادھر بھی۔از صدف کامران

!ایک نظر ادھر بھی

شکریہ شاہینو
للہ  شاہینوں کے گھر کے چولھے کبھی نہ بجھیں
جنہوں نے ہمارے بجھے ہوئے چولھے کے بارے میں سوچا اور راشن لے کر ہماری دہلیز پر آئے۔

 "اشرف المخلوقات انسان ہیں یا اِنسانیت"  
کبھی کسی نے سوچا ہے؟
 کہ ہمارے درمیان ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو   معاشرتی اقدار میں قرنطینہ میں ہے۔  ایک ایسا انسان جو انسان ہی کے جسم سے پیدا ہو، مگر انسان کا رتبہ نہ پا سکے۔اور معاشرے میں صرف تذلیل کا نشانہ بنے۔ تو زندگی کی راہ ہموار کرنے کہ لیے ہی خواجہ سراوں کا معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ نہ صرف معاشرتی طور پر بلکہ تہذیب و تمدن اور خاندانی اقدار میں بھی اس طبقے کو صرف اور صرف پستیوں میں ہی دھکیل دیا جاتا ہے۔ 
حیرت کی بات یہ ہے کہ معاشرے میں قبول نہ کیے جانے  کے باوجود  یہ نسل پھر بھی ہم میں موجود ہے۔  وہ کون لوگ ہیں جو اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں۔یہ طبقہ تو ہمارے معاشرے میں انسان تو دور کی بات کسی کی  انسانیت کے حق دار بھی نظر نہیں آتے۔
کبھی کسی نے سوچا ہے؟
کہ اس طبقے کو جان بوجھ کر معاشرتی برائیوں کا انتخاب کرنے کے لیے مختص کر دیا جاتا ہے۔
 کبھی کسی نے سوچا ہے؟
آج کورونا وائرس انکے اس احساسِ محرومی کو جاننے اور سمجھنے کی وجہ بنا ہے کہ ہر خاص و عام فرد  قرنطینہ کے احساسِ خوف سے واقف ہے۔ 
جبکہ پیدائش سے لے کر موت تک قرنطینہ ہی انکا مقدر ہوتا ہے۔ 
کبھی کسی نے سوچا ہے؟
 یہ لوگ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں۔ان کی موجودگی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔
مگر پھر بھی یہ زندگی کے دائرے میں شامل نہیں ہیں۔
کیونکہ! وہ انسان تو ہیں مگر دوسرے نام نہاد انسانوں کی طرف سے انہیں انسانیت کا شرف نہیں بخشا گیا۔
پیدائش پر والدین کے لئے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ معاشرہ انہیں قبول نہیں کرتا۔ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنا ان کے لیے ایک سزا ہے۔جو ہم اشرف المخلوقات ہی انہیں دیتے ہیں۔ پھر اگر یہ ضرورت معاش کے لئے کچھ کرنا چاہیں تو راستے زنداں کی زنجیریں بن جاتے ہیں۔ اور  کوئی ابن آدم انہیں محنت مزدوری کرنے یا کام دینے کی جسارت نہیں کرتا۔
 كيوں ہم کو سنا تے ہو جہنم کے فسانے
اس دور میں جینے کی سزا کم تو نہیں
گویا انکے لیے ہر دروازہ بند ہوتا ہے اور اُمید ناپید...۔تعلیم کے دروازے ان پر بند ہیں۔ کوئی کام کاج کوئی شعبہ انکے لیے میسر ہی نہیں۔ ان کا کھانا،پینا،اٹھنا،بیٹھنا،رہنا سہنا سب ایک بند دروازے کے پیچھے ہے۔
گویا یہ معاشرتی طور پر قرنطینہ میں رہتے ہیں۔ اور پیشہ ورانہ طور پر ان کے ہاتھ میں ایک کشکول ہی نظر آتا ہے۔
چونکہ انکا ذہن نفرت کے ردِ عمل کے تحت پروان چڑھتا ہے تو غیر متوقع اور مجرمانہ عمل ان سے متوقع ہو سکتے ہیں۔
مگر پھر بھی یہ لوگ کسی بڑے جرم میں ملوث نظر نہیں آتے۔
آج دنیا میں اس افراتفری کے عالم میں ہر کوئی خوف میں مبتلا ہے۔
مگر افسوس آج بھی ہمارا دل اس طبقے کے لیے نرم نہیں ہے۔
آج اگر ہم مدد کرنا چاہتے ہیں تو اس غریب کی جو دو نہیں تو ایک وقت کی روٹی کما  اور کھا ہی سکتا ہے۔ مگر خواجہ سراؤں کے لئے ہم نے صرف بھیک مانگنے کا ہی شعبہ مختص کر رکھا ہے۔ جو آج لاک ڈاؤن کی زد میں ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری ہمدردیوں اور ساتھ میں یہ لوگ آج بھی شامل نہیں ہیں۔
کیا کسی نے انکی گلی کوچوں میں جا کر پوچھا کہ تمہیں بھی راشن کی ضرورت تو نہیں؟
کیا کورونا وائرس نے تم لوگوں کو بھی متاثر کیا ہے؟
کیا تم لوگوں کو بھی حفاظتی سامان مہیّا کیا گیا ہے؟
ہمیں فخر ہے کے ہم اشرف المخلوقات ہیں۔
مگر۔۔۔
یوں تو سید بھی ہو،مرزا بھی ہو،افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
 اس مشکل وقت میں اس طبقے کا بھی درد سمجھیں جو مستقل معاشرتی قرنطینہ جھیل رہے ہوتے ہیں۔
(صدف کامران)

1 comment:

  1. I read a article under the same some time ago, but this articles quality is much, much better. How you do this.
    get tested for COVID-19

    ReplyDelete

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...