Sunday 16 June 2019

باپ۔۔۔ ایک عظیم ہستی

پُرانے گھر کو گرایا تو باپ رونے لگا۔۔
خوشی نے دل سا دُکھایا تو باپ رونے لگا۔۔
یہ رات کھانستے رہتے ہیں کوفت ہوتی ہے۔۔
بہو نے سب میں جتایا تو باپ رونے لگا۔۔!
بہن روانگی سے پہلے پیار لینے گئی۔۔
جو کُچھ بھی دے نہ پایا تو باپ رونے لگا۔۔
بٹھا کے رکشہ میں کل شب روانہ کرتے ہوئے۔۔
دیا جو میں نے کرایہ تو باپ رونے لگا۔۔!
سات سال پہلے میں نے اپنے ابا کا چہرہ آخری بار دیکھا تھا، یوں لگتا ہے جیسے سات گھنٹے یا سات منٹ پہلے کی بات ہو۔ انسان کے والدین اُس کی زندگی میں کیا اہمیت رکھتے ہیں اس بات کا اندازہ اُن کی زندگی میں لگایا نہیں جا سکتا، اُن کی اہمیت کا اندازہ اُن کے چلے جانے کے بعد ہی ہوتا ہے۔
آج ورلڈ کپ میں پاکستان بھارت کا میچ شروع ہوا تو مُجھے شدت سے اپنے ابا کی یاد آنا شروع ہوگئی۔ مُجھے یاد ہے بچپن میں جب کبھی پاکستان بھارت کا میچ ہوتا تھا تو میرے ابا اُس دن دنیا کا ہر کام چھوڑ کر ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھ جاتے تھے، ایسے میں جب کبھی وسیم اکرم، وقار یونس یا شعیب اختر کوئی وکٹ لیتے تو ابا کی آواز پورے گھر میں گونجتی تھی اور جب شاہد آفریدی یا سعید انور پہلی بال پر چھکا مارتے ہوِئے یا پھر باہر نکلتی ہوئی بال کے ساتھ چھیڑ خانی کرتے ہوئے آؤٹ ہو جاتے تو وہ چند ناقابلِ سماعت اور ناقابلِ بیان القابات سے نوازتے...
مُجھے یاد ہے اُس دور میں انضمام الحق یا وسیم اکرم میں سے اگر کوئی وکٹ پر موجود ہوتا تو پاکستان کی جیت یقینی سمجھی جاتی تھی۔ اور میں اکثر اپنے ابا کو تنگ کرنے کے لیئے کہتا تھا کہ اگلی گیند پر انضمام الحق آؤٹ ہو جائے گا اور جب کبھی خدانخواستہ ایسا ہو جاتا تو پھر میں جہاں کہیں ہوتا ایک چپل گھومتی ہوئی آتی اور میں بچتا ہوا کمرے سے باہر نکل جاتا اور جب تک میچ کا کوئی نتیجہ نہیں آ جاتا میں کمرے میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔
جب بچپن سے نوجوانی میں داخل ہوا اور نوکری کا آغاز کیا تو مُجھے اپنے والد صاحب کی ایک بات سے بہت کوفت ہوتی تھی کہ میں شام کو آفس سے فارغ ہو کر ایک دو دوستوں کے ہمراہ راول ڈیم، ایوب پارک یا کسی اور جگہ پر جا کر بیٹھ جاتا تھا ابا کی کال آتی تو کہتا کہ میں نو بجے تک گھر آجاؤں گا۔ اور وہ میری بات مان جاتے تھے، ٹھیک نو بجے ابا کی کال دوبارہ آنا شروع ہوتی تو میں موبائل آف کر دیتا تھا، پھر گیارہ بجے یا بارہ بجے کے قریب جب موبائل آن کرتا تو سب سے پہلی کال ابا کی ہوتی تھی مطلب اس دوران وہ لگاتار کال کرتے رہتے تھے۔ جب میری موٹرسائیکل گلی میں داخل ہوتی تھی تو وہ گھر کا گیٹ کھول کر میرے انتظار میں کھڑے ہوتے تھے، میں دروازے پر پہنچ کر اُن کو کہتا کہ آپ میرا انتظار نہ کیا کریں آپ سو جایا کریں میرے پاس گھر کی چابی ہوتی ہے میں اندر آسکتا ہوں آپ ویسے ہی بے آرام ہوتے ہیں۔۔۔ اور وہ پیار سے میرے گال پر ہاتھ پھیر کر ایک ہی بات کہتے کہ "بیٹا جس دن میں نہیں ہوں گا تو تمہیں پتہ چلے گا"۔۔ یا پھر "بیٹا جس دن خود باپ بنو گے اُس دن سمجھ آئے گی۔۔۔"۔
پھر یکم مئی 2012 کو میرے والد صاحب اچانک ایک دل کے دورے کے باعث اس دارِ فانی سے رُخصت ہو گئے اور پھر اُس سے اگلے دن جب میں گھر گیا تو کوئی میرے انتظار میں دروازہ کھول کر نہیں کھڑا تھا۔ مُجھے اُس دن اندازہ ہوا کہ اب میں کیا کھو چکا ہوں۔ پھر وہ دن اور آج کا دن کوئی میرے انتظار میں دروازہ کھول کر کھڑا نہیں ہوتا۔
جب کبھی آفس میں کام کا بوجھ ذیادہ ہوتا یا کوئی اور پریشانی ہوتی تو میرے ابا میری پریشانی بھانپ کر اکیلے میں میرے پاس آتے اور میرے گال پر ہاتھ رکھ کر کہتے "کیا ہو گیا ہے بیٹا؟ کیوں پریشان ہو؟ میں ہوں نا! چھوڑ دے نوکری۔۔۔" اُن کا اتنا کہنا ہوتا اور میری ہر پریشانی ختم ہو جاتی۔ 
آج سات سال ہو گئے پریشانیاں اب بھی آتی ہیں مگر کوئی ہاتھ گال پر محسوس نہیں ہوتا، کان یہ سُننے کو بیقرار رہتے ہیں کہ "بیٹا کیا ہو گیا؟ پریشان نہ ہو۔۔۔ میں ہوں نا۔۔!"۔۔
باپ دنیا کی دھوپ میں ایک سایہ دار گھنا درخت ہے مگر اس درخت کی اہمیت کا اندازہ عموماً اس درخت کی چھاؤں ختم ہو جانے کے بعد ہوتا ہے۔۔
مدت کے بعد خواب میں آیا تھا میرا باپ
اور اس نے مجھ سے اتنا کہا خوش رہا کرو
پہلے تو اس نے غم کے فوائد  بیاں کیے
پھر وقفہ لے کے کہنے لگا  خوش رہا کرو
(عباس تابش) 
اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کے والدین کا سایہ آپ لوگوں کے سر پر تا دیر قائم رکھے، آمین!
سید فرحان الحسن 
مشن ہولڈر پازیٹو پاکستان 

No comments:

Post a Comment

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...