Friday, 7 September 2018

کھردرے الفاظ

کافروں سے قرض لینا حلال ، انکے دیے ہوئے پیسے سے ملکی مُعشیت استحکام کرنا حلال، انکی تہزیب، انکے فیشن، انکے ایجاد کردہ کھانے کھانا سب حلال ہے پر اسی کافر سے مشورہ لینا حرام ہو گیا۔
بیشک قادیانی نا منظور ہے پر ہم نا منظوری چوائیس پر کیسے کرنے لگ گئے۔ نا منظور کرنا ہے تو خالص ہو کر نامنظور کرنا ہے۔ بائیکاٹ کرنا ہے تو پھر ہر چیز سے کرنا ہے! 
سب محب وطن امریکہ مردہ آباد کہتے ہیں اور انہی لوگوں کے بچے امریکن ڈگریز لے کر پاکستان میں آتے ہیں اور اسی ڈگری کا رعب جماتے ہیں۔
ہم لوگ کس قسم کی زندگی جی رہے ہیں، کیسے پاکستانی ہیں، کس سے ڈر رہے ہیں، کس کو امپریس کرنا چاہتے ہیں،اور کیا پیغام دیکر جا رہے ہیں۔ انڈیا سب سے بڑا دشمن بھی ہے اور کترینہ کیف سے محبت بھی اتنی ہی شدت پر ہے۔
امریکہ مردہ آباد بھی ہے پر پڑھائی کا معیار امریکن چاہیے، کیسی نفرت کر رہے ہیں ہم۔ ہمیں لوگوں سے نفرت ہے یا خود سے۔
14 اگست کے موقع پر امریکہ میں جشن آزادی کے جلوس نکلے ہوئے نظر آئے اور کچھ لوگوں نے اسے بہت سراہا اور کہا ایسی آزادی ہونی چاہئیے۔
پر میں یہاں پر ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کیا ہم عیسائی برادری کو بھی ایک ایسا جلوس نکالنے کی اجازت دیں گے۔
کیا ہم امریکن شہریوں کو انکا دن بھی اس ملک میں منانے کی اجازت دیں گے۔ وہاں ہم خود غرض کیسے ہو سکتے ہیں، وہاں ہماری سوچ کی آزادی کہاں گئی۔
اصل میں ہم صرف جسم سے آزاد ہیں اور ذہن سے ابھی بھی قید ہیں۔ اور ہم نے خود کو خودہی قید رکھا ہوا ہے۔ ہم خود کی ذات کے قیدی ہیں۔ انسان قید نہ ہونا چاہے تو وہ سلاخوں کے پیچھے رہ کر بھی قید نہیں رہ سکتا۔
کوئی ہمارے دین کو نقصان نہیں پہنچا سکتا جب تک کہ ہم اپنے دین پر قائم ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی ہمارے عقیدے کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ عقیدہ ہمارے دل کی جاگیر ہے کسی امیر کے گھر کا قالین نہیں۔
کوئی ہمارے دل میں گھس کر ہمارے عقیدے کو چرا نہیں سکتا۔ اس ملک کو جتنا نقصان پہنچنا تھا وہ اس ملک میں موجود مذہب کے ٹھیکیدار پہنچا چکے ہیں۔ ہماری ذات کو نقصان پہنچانے والے صرف ہم خود ہیں اگر ہم خود کے کنٹرول میں ہوں تو کوئی ہمیں اپنے کنٹرول میں نہیں کر سکتا۔
وہ ذات کہ جسکی وجہ سے یہ کائنات تخلیق کی گئی اور پھر اسی کے سبب ہم سب وجود میں لائے گئے وہ ہیں ہمارے محمد صلی اللہ علیہ و سلم بڑی شان والے۔ انکی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے ہزاروں راز رکھتا ہے۔
کیا انہوں نے کافروں کے ساتھ شرط نہیں رکھی تھی کہ اگر تم میں سے ہر ایک دس مسلمان بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھائے گا تو وہ آزاد ہے۔
کیا وہ ان کافروں سے صفائی کا کام نہیں لے سکتے کیا وہ ان سے کھیتی باڑی کا کام نہیں لا سکتے تھے.. سب لے سکتے تھے پر انہوں نے ان سے ایک عظیم کام کروانا چاہا یعنی علم سکھانا، سبق پڑھانا۔ ہمیں کیا لگتا ہے کہ انہوں نے یہ کام کیوں کیا؟ 
تا کہ اگر کل کو ہمیں کسی کافر سے مدد لینی پڑ جائے تو ہمیں شرمانا نہیں ہے اور اس میں کوئی عُذر نہیں ہے۔
اب ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ کیا ہم اتنے عقلمند ہیں کہ انکی بات کو رد کردیں اور اپنی عقل کو ترجیح دیں؟
سن لو ، جان لو  اور سمجھ لو کوئی تب تک علم نہیں پا سکتا جب تک وہ نہ چاہے، کوئی چاہ بھی نہیں سکتا اگر اسکی چاہ نہ ہو تو تم اور میں کیا ہیں یار۔ صرف پانی کے بلبلے سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
اور ہم میں سے ہر ایک دین کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے اور سمجھتا ہے دین صرف اسی کی وجہ سے بچ سکتا ہے۔ جو خود کو ایک چھینک آنے سےبھی نہیں بچا سکتا وہ دین کو بچانے چلا ہے۔
فرض کر لیجئے ہم ایک سفر پر ہیں اور اس دوران گاڑی خراب ہو جاتی ہے اور جو شخص ٹھیک کرنے کے لئے آیا  ہے وہ ذات کا قادیانی ہے تو  ہم کیا کریں گے؟ آگے چلئے اب ایک حادثہ ہو چکا ہے اور علاج کرنے والا ڈاکٹر بھی قادیانی ہے۔ آگے چلئے اب جس جگہ پر قیام پذیر ہیں وہاں پر کھانا بنانے والا شخص قادیانی ہوتو ہم ان تمام صورتوں میں کیا کریں گے... 
ذرا سوچئے!! 
ہم اگر مسلمان کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں تو اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے وہ کمال الللہ تعالی کا ہے۔ ہم بھی قادیانی ہی ہوتے اگر قادیانی کے گھر میں پیدا ہوئے ہوتے۔ ہم بھی عیسائی ہوتے اگر عیسائی گھر میں پیدا ہوئے ہوتے۔
مذہب انسان کو جدا نہیں کرتا ہے جو چیز ہمیں جدا کرنے والی ہے وہ سوچ ہے۔ جیسے کہ مولانا رومی فرماتے ہیں ''اصل حقیقت تو تیری سوچ ہے باقی تو سب ہڈیاں اور گوشت ہے'' 
اگر ہمیں خود کو جدا کرنا ہے تو ہمیں اچھی سوچ کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔اور وہی سوچ ہمیں ایک اچھا مسلمان بنائے گی؛  ایک آزاد خیال مسلمان ، ایک ایسا مسلمان جو غیر ممالک میں فخر سے اپنا مذہب بتا سکے گا۔
پر انسان کو نہ جانے کس بات پر غرور ہے جو اسے سکون ہی نہیں لینے دیتا۔  ہمیں نفرت کرنے کا حق کس نے دیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں غیر ملک میں آزادی ،عزت و احترام ملے پر ہم اپنے ملک میں کسی کو وہ چیز دینے کے لئے تیار نہیں ہیں.. 
ہم اپنے ملک میں عیسائی برادری کو اپنے تہواروں میں شامل نہیں کرتے ان سے کچھ لیکر کھانا پسند نہیں کرتے ۔ مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کے غیر ممالک میں مسلمانوں کیساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک ہوتا ہے۔ کیا ہم نہیں چاہتےکہ ہمیں ہر جگہ پر عزت ملے اگر ہاں تو ہمیں دوسروں کو بھی عزت دینی پڑے گی۔
ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ہمیں محبت کرے پر ہم بدلے میں محبت دینے کو تیار نہیں ہو۔ یہ کیسا انصاف ہے جو ہم اپنی مرضی کا چاہتے ہیں۔ جس عزت کی امید ہم کسی غیر سے رکھتے ہیں اتنی ہی عزت ہمیں اسی غیر کو بھی دینی ہو گی۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہونا چاہیے جہاں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر اکھٹے پانی  پیتے ہوں ۔ میری شیر اور بکری سے مراد طاقت ور اور کمزور ہیں۔
دوسروں کا خیال اس امید سے رکھیے کہ ہمارا مالک ہمارا اور بھی خیال رکھے گا، دوسروں کو خوشی اس نیت سے دیجیے کہ اس سے ہمیں خوشی ملے گی۔اس پاکستان کو ہم نے ایک ہنستا و مسکراتا ہوا پاکستان بنانا ہے۔
ہم سب کا پاکستان سلام پاکستان۔

سید تفسیر عباس رضوی

8 comments:

  1. Yes.. It is true,, do good have good...
    We have to respect others' faith so that we will get ultimate respect in return..

    ReplyDelete
  2. بلکل صحیح فرمایا

    ReplyDelete
  3. Soch badly gi to amal b badly ga.... Ye sab bht acha likha hy, mgr sirf blog ki nazar na ho jay...... Hn sab ko chahye k isy apni amli zindagi ka hissa bnain. Tab hi is *soch* ka maqsad poora ho sjta hy. Abad rahye likhty rahye. Dua go

    ReplyDelete
  4. آپکا سب کا بہت شکریہ کوئی شک نہیں کے سب سے پہلے خود کا بدلنا ہوگا بجائے اسکے کے ہم ساری دنیا کو سبز بنائے اسے پہلے آپکو سبز عینک پہننا ضروری ہے

    ReplyDelete

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...