Saturday, 1 September 2018

اگر پاکستان آزاد نہ ہوتا

ذرا تصور کیجئے کہ ایک ایسا دیس جس میں ہم محکوم اور اقلیتی قوم ہوں جن پر ایک طرف غاصب انگریز اپنے استعمار کو دائم رکھنے کے لیے ھر پہلو سے عرصہ حیات تنگ کر رہے ہوں اور دوسری طرف صدیوں کے غلام عیار اور کینہ پرور ہندو اپنے نئے آقاؤں کے آشیر باد سے ہمارے حقوق، ثقافت اور قومیت کو کچلنے کے در پے ہوں ایک ایسا زہریلا خطہ ارض جہاں ہماری مذہبی اور ثقافتی اقدار کو ہندومت میں ضم کرنے کے لئے سازشوں کے تارعنکبوت بنے جا رہے ہوں اور ہماری معیشت ایڑیاں رگڑ رہی ہو ایسا خطھ ارض جھاں مذھب پر عمل پیرا ھونا ناممکن ھو جھاں لسانی تعصب ھماری قومی زبان مسخ کررھا ھو ایک ایسا مساوات سوز علاقہ جو ذات پات اور چھوت چھات کے غیر انسانی بندھنوں میں جکڑا ہوا ہو اور ہمیں کمترین اور اچھوت ثابت کر کے نفسیاتی حربوں سے احساس کمتری میں مبتلا کر کے معاشرتی طور پر ہراساں اور بے وقار کیا جاتا ہو ایک ایسا فرقہ واریت کی آگ میں جلتا سلگتا جہنم جہاں آئے دن مختلف حیلے بہانوں سے مسلم کش فساد برپا کئے جاتے ہوں آریا سماج، سنگھٹن، شدھی اور ھندو مہاسبھا جیسی ھندو انتہا پسند تنظیمیں اور تحریکیں مسلمانوں اور اسلام کو سبوتاز کرنے کے در پے ہوں ہماری خواتین کو آئے دن اٹھا کر پامال کیا جاتا ہو اور ہر وقت یہدھڑکا لگا رہتا ہو کہ ابھی کہیں سے قتل و غارت کا طوفان اٹھ کھڑا ہو گا اور اس حالت زارپر کوئ ہمارا داد رس بھی نہ ہو جس کے پاس انصاف کی امید لے کر جایا جا سکے تو چکیکے دو پاٹوں میں پستی اس قوم کی حالت نزع کا ایک مبھم سا اندازه ہی لگایا جا سکتا ہےجس سے یہ تاثر کشید کیا جا سکتا ہے کہ اگر وطن پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ہم پہ سایہفگن نہ ہو تو ہم ایسے جلتے ریگزار میں استعمار و استبداد کی کیسی کڑی دھوپ کو برہنہ تنپر جھیل رہے ہوں اگر پاکستان وجود میں نہ آتا تو ہم آج بھی غلامی کے شکنجوں میں جکڑے ظلم و استبداد کی چکی میں پس رہے ہوتے ہمارے مذہبی،معاشرتی، سیاسی اورثقافتی حقوق مسخ ہو چکے ہوتے ہماری جان ، مال اور آبرو ہمارے آقاؤں کے اختیار میںہوتی، ہماری قومی زبان اردو ہندی میں ضم ہو چکی ہوتی ہندو قوم صدیوں کی غلامی کا ایک ایک پل کا گن گن کر ہم سے بدلہ لے رہی ہوتی ہر عمارت پر ترنگا جھنڈا لہرا رہا ہوتا،
اور ہندو بنیے کے اکھنڈ بھارت میں منفرد قومیت کا شیرازه بکھر چکا ہوتا۔
وطن عزیز پاکستان کے قیام سے ہمیں ناقابل شمار فوائد اور حقوق حاصل ہوئے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں ہمیں ایک اسلامی آئین ملا جس سے ہم اس خطہ ارض کو اسلام کے زریں اصولوں پر عمل پیرا ہونے اور شریعت کے نفاذ کے لئے تجربہ گاه کے طور پر استعمال کرنے کے قابل ہوئے۔
ہم اپنی زبان اور ثقافت کی ترویج اور اشاعت ہمارا آزاد اور خود مختار ریاست کا خواب شرمنده تعبیر ہوا- ہم عالم اسلام کو اسلامی ایٹمی بم کا تحفہ دینے اور چھٹی عالمی ایٹمی طاقت بننے کے قابل ہوئے- ہم واه آرڈیننس فیکٹری کی تکمیل سے کسی حد تک اسلحے کی دوڑ میں خود کفیل ہوئے- ہماری زراعت ہماری ریڑھ کی ہڈی کے استحکام کے لئے ڈیم بنانے کے قابل ہوئے۔ ہم کھیلوں کے میدان میں ابھرے۔ ہم پاک چائنہ اقتصادی راہداری اور تھرکول پاور پلانٹس سے اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لئے پر امید ہوئے۔ علاؤه ازیں زندگی کے تمام شعبوں میں حقوق اور آزادی و خودمختاری کے خواب شرمنده تعبیر ہوئے۔
مگر کیا ہم نے نظریہ آزادی کے تمام مقاصد حاصل کر لئے؟ کیا ہم نے غلامی کے طوق سے مکمل چھٹکارا حاصل کر لیا؟ کیا ہم آزادی کا جشن منا کر، ون ویلنگ کر کے، گاڑیوں کے سائلنسر پھاڑ پھاڑ آزادی کا ڈھنڈورا پیٹ کر, ھری نیلی پیلی جھنڈیاں لہرا کر اور پھر انہیں پاؤں تلے روند کر آزادی کا حق ادا کرتے ہیں؟
کیا آزادی کے لئے خون کے نذرانے پیش کر کے وطن عزیز کی آزاد فضاؤں کی آبیاری کرنے والوں کی تیسری پیڑھی اتنی سی آزادی پہ تکیہ کیے بیٹھی ہے
جبکہ یہ آزادی تو صرف استعمار اور استبداد کی تفویض اور منتقلی کا ایک شاخسانہ نظر آتی ہے جھاں آج بھی زیردست محکوم اور غلام ہے زبردست کا-
جہاں ہم آج بھی انھیں وڈیروں، لٹیروں، جاگیروں، سرمایہ داروں اور ایوان میں بیھٹے بے ضمیر، مطلق العنان اور بد عنوان غاصبوں کے غلام اور تابع فرمان ہیں جو اس وطن عزیز کی جڑوں کو گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں آج آزادی حاصل کئے اکہتر برس ہو چکے مگر جو بنیاد ہمارے آباؤ اجداد اپنے ولولے اور قوت ایمانی سے رکھ گئے ہیں وہیں تک آ کے کام رکا ہوا ہے اور تیسری نسل تک سے ابھی تک وطن پاکستان کی عمارت کی تکمیل شرمنده تکمیل نہ ہو سکی اور اس رکھی گئی بنیاد کی بھی اپنے ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں ملکی حمیت اور ہر اینٹ قرض کی ہے اور ہر برسر اقتدار پارٹی وقار کا سودا کر کے ورلڈ بینک اور آئ_ایم_ایف سے ملکی اور قومی مفادات کے خلاف کڑی شرائط پر قرض کا کشکول بھروا لاتی اور پھر اس کھوکھلی ہو چکی بنیاد کی درزوں اور رخنوں پر دکھاوے کا مہین پلستر چڑھا کر اہل شعور کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتی ہے کیا ہم مطمئن ہو پاتے ہیں اس نظریہ آزادی سے ؟ کیا ہم آزادی کی قیمت سے ناآشنا لوگ دوباره غلامی کے ہولناک پنجوں کی طرف واپسی کا سفر طے ہوتے دیکھ نہیں رہے یا آنکھیں بند کر چکے؟ کیا ولولہ آزادی کی چنگاریاں
بجھ چکی ہیں یا کوئ خضر کوئ ہادی کہیں باھر سے آ کر انہیں بھڑکانے گا۔۔۔؟ کیا ہم اپنے شھدا کی قربانیوں سے منکر ہو رہے ہیں؟ کیا ہم آزادی کا حق ادا کر رہے ہیں؟ اگر وقت کے تقاضوں سے چشم پوشی کی گئی تو وه وقت دور نہیں جب ہم یہ استعمار شده پاکستان بھی کھو دیں اور اس قوم کا نام تاریخ میں سیاه حروف میں لکھا جائے ۔۔۔ مگر ابھی وقت میسر ہے حالات اور تاریخ کا رخ موڑا جا سکتا ہے اگر اس قوم کا ہر فرد اپنے فریضہ آزادی کا احساس کر کے وه پون صدی پہلے سا ولولہ آزادی پیدا کرے وگرنہ ہمیں شاید وقت کسی دن حقیقتاً دکھا وے کہ اگر پاکستان نہ ہوتا تو کیا ہوتا!!!
Mudassir Rasheed

(1st Prize Winner – Essay Competition at Walwala-e-Azadi Conference by Positive Pakistan)

2 comments:

Tips for Effective Reading Habit

·          Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. ·          Find a qu...