وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
یہ تری روح ترے جسم سے عبارت ہے
اگر پاکستان آزاد نہ ہوتا...
یہ وہ سوال ہے جو دو مختلف تناظر میں ہمارے سامنے آتا ہے...ایک صورت میں تو پاکستان کی وہ محبِ وطن عوام ہے جوآزادی کی قدر وقیمت سے آشنا ہے اور جانتی ہے کہ اگر پاکستان آزاد نہ ہوتا تو مسلمان پاکستان زندہ باد کے بجائے "سارےجہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا" کا نعرہ لگانے کے باوجود بھی "عظیم" ہندوستان مکں دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے شہری کے طور پر زندگی گزار رہے ہوتے...
اور جہاں دلیل اور منطق سے بات کرنے اور اخلاق و کردار کی طاقت سے لوگوں کو حلقہ اسلام میں داخل کرنے والے ڈاکٹرذاکر نائیک کی طرح خود پہ دہشت گردی اور بنیاد پرستی کا ٹھپہ لگوا چکے ہوتے.
پھر حقوقِ انسانی کا پرچار کرنے والے عظیم بھارت میں بی جے پی اور دوسری ہندو انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے کیےجانے والے مظالم کا شکار ہوتے اور بحیثیت مسلم اپنی شناخت کھو کر تضحیک انداز میں "مسلے" پکارے جاتے....
اردو ادب کے ایک بڑے مصنف ممتاز مفتی اپنی آب بیتی میں لکھتے ہیں کہ میں آغاز میں پاکستان کا حامی نہیں تھا بلکہ ہندومسلم اتحاد کا قائل تھا....مسلم لیگ کی جدوجہد اور ایک الگ مملکت کے تصور سے مجھے کوئی سروکار نہ تھا....مگر ضرورت کا احساس مجھے تب ہوا جب میں دھرم شالا کی سرکاری نوکری میں ایک رام دین سے ملا...
میں ایک ہندو اکثریت کے سکول میں استاد تھا.ایک بار میں نے ایک ہندوطالبعلم سے پانی مانگا تو اس نے کہا میرا دھرم بھرشٹ ہو جائے گا...میں نے طالبعلم سے کہا برخوردار دھرم بھرشٹ تو تب ہوتا جب تم میرے ہاتھ کا پانی پیتے. مجھے پانی پلانے سے دھرم بھرشٹ نہیں ہوگا...مگر اس دلیل کا اس پہ کوئی اثر نہ ہوا.
اسی علاقے میں پانی پینے کے لیے مجھے ایک مسلمان گھرانے میں جانے کا اتفاق ہوا تو گھر کے رہن سہن, گوبر کی لپائی اور صاحبِ خانہ کے حلیے سے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ یہ مسلمان ہے یا ہندو.اور نام پوچھنے پہ پتہ چلا...یہ رام دین ہے.
تقسیمِ ہند سے قبل ہندو اکثریت کے علاقوں میں ایسے رام دینوں کی کمی نہ تھی.اگرچہ مسلم اکثریت والے علاقوں میں مسلمان ہندو اکثریت کے ساتھ گُھل مل کر رہتے تھے.خوشی غمی پہ مل بیٹھتے اور ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا ہوتا..مگر ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمان مسلمان نہ رہا تھا.اس کی کوئی الگ شناخت نہ تھی.
ہندو بنیادی طور پہ اقلیت کو برداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے. پھر خواہ وہ سکھ ہوں , بدھ مت , یا مسلمان..مگر ان سب میں مسلم کشی کا جذبہ سب سے گہرا ہے.
تقسیمِ ہند سے پہلے کے پاکستان میں ریلوے سٹیشنوں پہ جب گاڑیاں رکتی تھیں تو پانی جیسی بنیادی انسانی ضرورت کے لیےبھی آوازیں سنائی دیتی تھیں...ہندو پانی....مسلم پانی...اور مسلمانوں کو پانی دیتے ہوئے برتن کو دور رکھ کے پانی انڈیلا جاتا...
ہندو اکثریت والے علاقوں میں ایسے مسلمان پائے جاتے تھے جن کے گھر بار رہن سہن اور لباس و حلیہ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا تھا کہ وہ مسلمان ہیں...نام بھی دو مذاہب کی دیوار میں اٹکے بے حیثیت , شناخت کھوئے ہوئے رام دین...
اگر پاکستان نہ بنتا تو یہ بات خارج از امکان نہیں کہ آپ, میں ہم سب رام دین ہوتے...ہمارے گلے میں جینو نہ ہوتے ہمارےگھروں میں گوبر کی لپائی نہ ہوتی اس کے باوجود ہم رام دین ہوتے.
رام دین ایک ذہنیت کا نام ہے جو خود اختیار نہیں کی جاتی بلکہ جسے اکثریت ایک منصوبے کے تحت پیدا کرتی ہے. اور جوذہن سے آہستہ آہستہ لباس گفتگو اور جسم تک پہنچ جاتی ہے.
کے ایل گابا بھارت کے ایک مشہور قانون دام گزرے ہیں. پہلے وہ ہندو تھے.پھر مختلف مذاہب کے مطالعے کے بعد مسلمان ہوگئے. ان کی ایک تصنیف ہے"پیسووائسز" جس میں انہوں نے بھارت کے رام دینوں کا تذکرہ کیا ہے. اس کتاب کا انداز جذباتی نہیں بلکہ تلخ حقائق اور شماریات پہ مبنی ہے کہ زندگی کے بڑے بڑے شعبوں میں بھارت کے مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے...مسلمان تاجر کتنے ہیں...قانون دان اور کالجز میں مسلمان اساتذہ اور طلباء کتنے ہیں..
بھارت نے مسٹر گابا کی اس کتاب کو ہندوستان میں چلنے نہیں دیا لیکن بھارتی مسلمان رام دین سے واقف بھی نہیں بلکہ وہ تورام دین کی زندگی گزار رہے ہیں.
ہماری آج کی نوجوان نسل شاید رام دین سے واقف نہیں. دِقّت یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے پاکستان بنانے کے لیے جدوجہد کی تھی وہ تو چلے گئے..پرانے پتے سوکھ کر جھڑ گئے ان کی جگہ نئی کونپلیں پھوٹی ہیں جنہیں رام دین کا شعور نہیں..ہو بھی کیسے..پاکستان میں توں لاکھوں ہندو مقیم ہیں. اُن میں کوئی بھی "چندر اسلام" نہیں. بلکہ وہ اپنی الگ شناخت میں آزادانہ رہ رہے ہیں.
دوسرا یہ کہ اسلامی دنیا کے اردگرد بہت سی بڑی اسلام دشمن طاقتیں اور سپر پاورز مسلسل ایسے کام کررہی ہیں.مسلسل اس کوشش میں لگی ہیں کہ کہیں مسلمان سمجھ نہ جائے..مل نہ بیٹھے...ایک قوت نہ بن جائے...کیونکہ انہیں معلوم ہے جس دن مسلمان سمجھ گیا, مل بیٹھا تو سب چوپٹ ہوجائے گا....
سو, وہ اپنی فیکٹریوں اور صنعت خانوں میں رنگ برنگے چمکیلے خیالات, پرکشش اور انوکھی ذہنی پھلجڑیاں چھوڑتے ہیں جو ہمارے ادیبوں, شاعروں , دانشوروں اور نام نہاد فلاسفروں کو چکا چوند کردیں.اور پھر امتِ مسلمہ کو الٹی سیدھی توضیحات اور کہانیوں میں الجھا کر اسلام سے دور کردیا جائے.کیونکہ ادیب اور فنکار وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا رائے عامہ بنانے میں بڑا ہاتھ ہوتا ہے. اس لیے ان کے نظریات کو بگاڑنے سے عام پڑھے لکھوں کا رخ خودبخود بگڑ جائے گا.دانشوروں کے علاوہ طلباء ان نئے اور بے سروپا نظریات کا اچھا شکار بنتے ہیں...
اگر پاکستان آزاد نہ ہوتا...
دوسری طرف یہ سوال پاکستان کے دامن میں پناہ لینے والا اور اس زمین سے رزق کھانے والا وہ سیکولر طبقہ کرتا ہے جو دو قومی نظریے کا مذاق اُڑاتے ہوئے پاکستان کے وجود کو ایک غلطی قرار دیتا ہے.
ان کے نزدیک یہ سرحدیں مجبوریاں ہیں اور دونوں اطراف کے لوگوں کے جذبات کی راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہیں.اوردونوں اطراف کی عوام صرف چند سیاست دانوں کے ذاتی مفاد کی وجہ سے بے تابی سے ایک دوسرے سے گلے نہیں مل پارہی..
اور پھر عوام کی مرضی پوچھے بغیر اس بات پہ اپنی طرف سے تصدیقی مہر بھی لگادی جاتی ہے.
سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کا عام شہری اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ پاکستان ان کے لیے صرف ایک جائے پناہ نہیں بلکہ ایسی چار دیواری ہے جو ان کے جسم و جاں کے ساتھ ساتھ اُن کی ثقافت , مذہب اور نظریے کے تحفظ کے لیے بھی ایک مضبوط حصار جیسی ہے.
قومیں کبھی رنگ علاقے اور نسل کی بنیاد پہ نہیں بنتیں. بلکہ نظریات کی بنیاد پہ وجود میں آتی ہیں.
برِ صغیر میں مسلمان اور ہندو دو الگ الگ اقوام تھیں. اور یہ حقیقت کسی طرح نظر انداز نہیں کی جاسکتی تھی.
ظہورِ اسلام کے دور میں جب کفار کا ایک وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےچچا ابو طالب کے پاس آیا کہ اپنے بھتیجے سے کہیں کہ ہم آپس میں کچھ معاہدے کرلیتے ہیں.اور ایک دوسرے کے مطالبات مانتے ہیں.کچھ ہمارا دین لے لیں کچھ آپ کا مانتے ہیں تواللہ کی طرف سے واضح انداز میں یہ احکامات تھے کہ اسلام ایک الگ مکمل مذہب ہے اور اس لیے آپ صہ نے نظریات کاسودا کرنا گوارا نہ کیا.
برِ صغیر کے حالات بہت حد تک مکہ کے حالات سے میل کھاتے تھے.اور ان حالات میں دو قومی نظریے کا تقاضا تھا کہ حق اور باطل کا امتیاز ہو اور مسلمان ایک الگ قوم کی حیثیت سے ایک اسلامی ریاست میں رہیں جہاں وہ آزادی سے اپنے دین کےمطابق زندگی گزار سکیں اور یہ سب متحدہ ہندوستان میں ناممکن تھا.
بھلا دو ایسی قومیں ایک جگہ کیسے رہ سکتی ہیں جن میں ایک گائے کو مقدس ماتا سمجھ کر پوجتی اور اس کے پیشاب کو پاک پوترمانتی ہو جبکہ دوسری گائے کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھاتی ہو.
نظریات کا اتنا بڑا تضاد نظرانداز کیے جانے کے قابل نہیں. یہی وجہ تھی کہ جس طرح مکہ سے مسلمان ہجرت کر کے مدینہ میں آئے اور الگ اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی اسی طرح برِصغیر میں ایک الگ مملکت پاکستان کا قیام عمل میں آیا. اسی لیےپاکستان کو مدینہ ثانی بھی کہا جاتا ہے.
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کُھلتے ہیں غلاموں پہ اسرارِ شہنشاہی
پھر اگر تاریخ سے منہ موڑ کر موجودہ بھارت کے حالات پہ نظر ڈالیں اور ایمانداری سے تجزیہ کریں تو یہ حقیقت کسی سےپوشیدہ نہیں کہ مسلمان وہاں ایک کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود محکوم , پسے ہوئے اور مغلوب ہیں. ہندو اپنے معاشرے میں کسی غیر ہندو کو پنپتے نہیں دیکھ سکتا.ہندوستان کے بڑے بڑے لیڈروں کے بیانات اور عزائم اس بات کا کھلا ثبوت ہیں.
پنڈت جواہر لال نہرو بظاہر ایک لبرل سیاست دان تھے مگر یہ انہی کے الفاظ ہیں کہ ہندوستان میں صرف ایک قوم آباد ہے اوروہ ہے ہندوستانی.دوسری کوئی قوم مجھے خوردبین لگا کر بھی نظر نہیں آتی.گویا مسلمانوں کی الگ حیثیت اور شناخت کا برملا اظہار ہے.
پاکستان کی آزادی کا مذاق اڑانے والوں سے محض اتنا ہی سوال ہے کہ اگر آپ کی بیٹیوں کے چہروں سے نقاب نوچ لیےجائیں...گوشت کا شاپر پکڑا دیکھ کر زندہ جلا دیا جائے...اور آپ کو آپ کی وفاداریوں کے باوجود مشکوک سمجھا جائے تب آپ جان سکیں گے کہ اگر پاکستان آزاد نہ ہوتا تو کیا ہوتا...
Seemab Arif (Ambassador Positive Pakistan)
(2nd Prize Winner – Essay Competition
at Walwala-e-Azadi Conference by Positive Pakistan)
Great effort,indeed
ReplyDeleteExcellent
ReplyDeleteCongo apiii������
ReplyDeleteZbrdast tahreer
ReplyDeleteماشاءاللہ
ReplyDeleteماشاءاللہ
ReplyDelete