Contributed by: Fariha Ahmad
ہجرت کا لفظ بذات خود اپنے اندر اس قدر درد سموئے ہوئے ہے کہ شدتِ درد لفظوں کی ادائیگی سے قاصر کر دیتا ہے خاموشی سے قطار در قطار آنسو بھی اظہارِ غمِ داستان کو بیان کرنے کے لیۓ ناکافی ہیں۔ہجرت کی اہمیت وہی آنکھیں بتا سکتیں کہ جنہوں نے تعبیر کی خاطر نیندوں،خوبصورت منظروں اور قیمتی جانوں کو قربان کر دیا ہو۔
مسلم لیگ کے پچسویں سالانہ اجلاس کے موقع پہ پارٹی کے ایک کارکن نے محمد علی جناح کو اپنی قراقُل اتار کر برکت کے لیۓ پیش کر دی۔اور پھر یہ جناح کیپ کے نام سے موسوم ہو گئی۔اسی وقت مجھے یقین ہو گیا کہ میرے وجود کو تشخص ملنے والا ہے۔
گلی کوچوں اور مسجدوں میں میری سرگوشیاں رقص کرنے لگیں۔ مسلمانوں کے لیۓ میرا وجود باعث اُمید تھا ایسی اُمید جیسے بسترِ مرگ پہ پڑے مریض کو امر بیل کے آخری پتے سے لگ چکی ہو جو ڈھیروں طوفانوں اور آندھیوں کے باوجود شاخ سے پیوستہ رہے۔
وقت اسقدر سست روی سے گزر رہا تھا گویا ضعیف سڑک پار کر رہا ہو جبکہ میرے وجود کا خواب وہ ننھا بچہ تھا جو اُس کھلونے کے لئے بے چین ہو جو کھو چکا ہو۔میرے تصور نے ہی کلمہ حق کو اس قدر سر بلندی بخش دی کہ کلمہ گوؤں کے دل حق حق کی دھک دھک سے دھڑکنے لگے تھے۔
میرے وجود سے عشق کی یہ مثال بھی تاریخ کے صفحوں پہ سنہری حروف میں لکھی جائے گا کہ حق پرستوں نے23 مارچ 1940 کے جلسے کے لئے ایک رات میں اُس زمین(وہ یادگار جہاں پہ آج مینارِ پاکستان ہے) کو ہموار کر دیا جہاں کھیت اور کھلیان تھے اور گیٹ لگا دیا اور جمِ غفیر کے خواب مشترک ہو گئے۔
سرفروشوں کی تمنا مانند چراغِ شب روشن تھی اور میرا تصور ایندھن کی صورت اس تمنا کو جلا بخش رہا تھا۔انتطار کی گھڑیاں جتنا طول پکڑ رہیں تھیں ارادے اور جذبے بھی شدت پکڑ رہے تھے۔
وہ وقت بھی آن پہنچا کہ حق پرست میرے وجود کی بقا کے لئے دیوانہ وار آزمائش کی شمع پہ قربان ہوتے گئے۔ جیالوں کی آنکھوں میں بھی میرا عکس نمایاں تھا۔میرے وجود کو نام دیدیا گیا تھا جبکہ میرا نام صرف مسلم لیگ کی ایک خاتون نے اپنی تقریر میں ایک بار لیا تھا لیکن رقیب نیوز والوں نے اس تاریخی جلسے میں باقاعدہ مجھے میرے نام سے اپنے اخبار کی شہ سرخیوں کی زینت بنا دیا۔
سر پہ کفن باندھ لئے گئے اندرونی فسادات نے گاؤں اور گھروں کو آگ کی لپیٹ میں لے لیا۔ہجرت کے عمل میں سرحدوں کے پرے ہی دو لاکھ مسلمان شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئے۔قافلے لٹ گئے لیکن سبھی کی نگاہوں میں میرا سراپا تھا۔
میں ٹرین کا منظر نہیں بھلا سکتا جب ایک ہزار کی گنجائش کے باوجود چار ہزار مسلمان اس میں سما گئے کسی کی ٹانگ دھڑ کے ساتھ نہ تھی کسی کے بازو ندا رد تھے اور کُرتوں کی آستینیں لٹک رہی تھیں۔بہت سے بچے ماں کو کھو بیٹھے تھے بھوک پیاس سے نا آشنائی ہو چکی تھی خون میں لت پت جسم روح سے ملنے سے پہلے میری خاک سے ملنے کے لیۓ بے چین تھے اور اس لمحے کے انتظار میں ان کی آنکھیں جھپکنا بُھول چکی تھیں۔زخمی بھی درد سے آشنائی حاصل کر چکے تھے اب درد میں بھی لذت تھی۔
ہجرت کرنے والوں کو میرے وجود سے اسقدر عشق ہو چکا تھا کہ اپنے پیاروں کو سرحد پار بے کفن چھوڑنا پڑا۔تاریخ گواہ رہے گی کہ فنا نے بقا کی جنگ میں اپنا سب کچھ داؤ پہ لگا دیا۔ایسے خواب کی خاطر لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں جس کی تعبیر کروڑوں آنکھوں نے پا لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ہوں پاکستان تم سب کا پاکستان۔۔۔۔۔۔
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
مسلم لیگ کے پچسویں سالانہ اجلاس کے موقع پہ پارٹی کے ایک کارکن نے محمد علی جناح کو اپنی قراقُل اتار کر برکت کے لیۓ پیش کر دی۔اور پھر یہ جناح کیپ کے نام سے موسوم ہو گئی۔اسی وقت مجھے یقین ہو گیا کہ میرے وجود کو تشخص ملنے والا ہے۔
گلی کوچوں اور مسجدوں میں میری سرگوشیاں رقص کرنے لگیں۔ مسلمانوں کے لیۓ میرا وجود باعث اُمید تھا ایسی اُمید جیسے بسترِ مرگ پہ پڑے مریض کو امر بیل کے آخری پتے سے لگ چکی ہو جو ڈھیروں طوفانوں اور آندھیوں کے باوجود شاخ سے پیوستہ رہے۔
وقت اسقدر سست روی سے گزر رہا تھا گویا ضعیف سڑک پار کر رہا ہو جبکہ میرے وجود کا خواب وہ ننھا بچہ تھا جو اُس کھلونے کے لئے بے چین ہو جو کھو چکا ہو۔میرے تصور نے ہی کلمہ حق کو اس قدر سر بلندی بخش دی کہ کلمہ گوؤں کے دل حق حق کی دھک دھک سے دھڑکنے لگے تھے۔
میرے وجود سے عشق کی یہ مثال بھی تاریخ کے صفحوں پہ سنہری حروف میں لکھی جائے گا کہ حق پرستوں نے23 مارچ 1940 کے جلسے کے لئے ایک رات میں اُس زمین(وہ یادگار جہاں پہ آج مینارِ پاکستان ہے) کو ہموار کر دیا جہاں کھیت اور کھلیان تھے اور گیٹ لگا دیا اور جمِ غفیر کے خواب مشترک ہو گئے۔
سرفروشوں کی تمنا مانند چراغِ شب روشن تھی اور میرا تصور ایندھن کی صورت اس تمنا کو جلا بخش رہا تھا۔انتطار کی گھڑیاں جتنا طول پکڑ رہیں تھیں ارادے اور جذبے بھی شدت پکڑ رہے تھے۔
وہ وقت بھی آن پہنچا کہ حق پرست میرے وجود کی بقا کے لئے دیوانہ وار آزمائش کی شمع پہ قربان ہوتے گئے۔ جیالوں کی آنکھوں میں بھی میرا عکس نمایاں تھا۔میرے وجود کو نام دیدیا گیا تھا جبکہ میرا نام صرف مسلم لیگ کی ایک خاتون نے اپنی تقریر میں ایک بار لیا تھا لیکن رقیب نیوز والوں نے اس تاریخی جلسے میں باقاعدہ مجھے میرے نام سے اپنے اخبار کی شہ سرخیوں کی زینت بنا دیا۔
سر پہ کفن باندھ لئے گئے اندرونی فسادات نے گاؤں اور گھروں کو آگ کی لپیٹ میں لے لیا۔ہجرت کے عمل میں سرحدوں کے پرے ہی دو لاکھ مسلمان شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئے۔قافلے لٹ گئے لیکن سبھی کی نگاہوں میں میرا سراپا تھا۔
میں ٹرین کا منظر نہیں بھلا سکتا جب ایک ہزار کی گنجائش کے باوجود چار ہزار مسلمان اس میں سما گئے کسی کی ٹانگ دھڑ کے ساتھ نہ تھی کسی کے بازو ندا رد تھے اور کُرتوں کی آستینیں لٹک رہی تھیں۔بہت سے بچے ماں کو کھو بیٹھے تھے بھوک پیاس سے نا آشنائی ہو چکی تھی خون میں لت پت جسم روح سے ملنے سے پہلے میری خاک سے ملنے کے لیۓ بے چین تھے اور اس لمحے کے انتظار میں ان کی آنکھیں جھپکنا بُھول چکی تھیں۔زخمی بھی درد سے آشنائی حاصل کر چکے تھے اب درد میں بھی لذت تھی۔
ہجرت کرنے والوں کو میرے وجود سے اسقدر عشق ہو چکا تھا کہ اپنے پیاروں کو سرحد پار بے کفن چھوڑنا پڑا۔تاریخ گواہ رہے گی کہ فنا نے بقا کی جنگ میں اپنا سب کچھ داؤ پہ لگا دیا۔ایسے خواب کی خاطر لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں جس کی تعبیر کروڑوں آنکھوں نے پا لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ہوں پاکستان تم سب کا پاکستان۔۔۔۔۔۔
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
Well interpretated
ReplyDelete